اکبر معصوم ایک منفرد آواز

اکبر معصوم ایک منفرد آواز، تحریر از سیف علی خان (پنجاب یونیورسٹی لاہور)

اکبر معصوم 8 اگست 1960ء کو سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سانگھڑ میں پیدا ہوئے۔ 1989ء میں ایک طبی معائنے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ انہیں "پراکسی مایوپیتھی” نامی لاعلاج بیماری لاحق ہے۔ اس کے علاوہ، وہ ٹی بی جیسے موذی مرض میں بھی مبتلا رہے، اور بعد ازاں فالج کے باعث وہیل چیئر تک محدود ہو گئے۔ تاہم، اکبر معصوم نے اپنی جسمانی کمزوریوں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ ان مشکلات کو اپنی شاعری میں گہرائی اور تاثیر کا ذریعہ بنایا اور اس میں وہ مکمل طور پر کامیاب رہے۔
انہوں نے اپنے کرب، تنہائی، بےچینی اور بےبسی کو شاعری میں ڈھالا۔

درد نے دل کو ڈھونڈ لیا
پہنچا سانپ خزانے تک

ماں کہتی تھی دُکھ تو رہے گا دنیا میں
جیسے سب رہتے ہیں میرے لال رہو

یہ تجربہ ہے کتابوں میں تھوڑی لکھا ہے
میں اب بتاؤں تمہیں ہجر کے معنی کیا؟

اکبر معصوم کا پہلا شعری مجموعہ "اور کہاں تک جانا ہے” 2000ء میں منظرِ عام پر آیا، جبکہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ "نیندر پچھلے پہر دی” 2016ء میں شائع ہوا، جو پنجابی غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان کا تیسرا اور آخری مجموعہ "بے ساختہ” 2018ء میں منظرِ عام پر آیا، جسے کاشف حسین غائر اور انعام ندیم نے مرتب کیا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے آغا سلیم کے سندھی ناول "ہما اوست” کا اردو ترجمہ بھی کیا۔اُن کی کلیات "گلِ معانی” کے نام سے چھپ چکی ہے۔اکبر معصوم 7 اپریل 2019ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
58 سالہ مختصر زندگی میں انہوں نے کم لکھا، مگر جو لکھا، وہ معیاری تھا۔ ان کے شعری مجموعے”اور کہاں تک جانا ہے” اور "بے ساختہ” میں موجود تمام غزلیں انتخاب کے لائق ہے۔
جدید شعرا میں اگر کسی کا مکمل کلام سہل ممتنع ہے تو وہ اکبر معصوم کا ہے۔ان کی شاعری سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے۔ان کی شاعری جتنی سادہ ہے، اتنی ہی گہری بھی ہے، جیسے:

کچھ بھروسہ نہیں مسافر کا
چل پڑے کب یہ چھوڑ چھاڑ کے سب
جتنے نقش و نگار تھے مجھ میں
عشق نے رکھ دیے بگاڑ کے سب

کوزہ گر کوزۂ درویش بنانا تھا اگر
مجھ گنہگار کی مٹی سے بنایا ہوتا

مجھ سے شکوہ تو ایسے کرتے ہو
جیسے میں زندگی بناتا ہوں
کر رہا ہوں میں ایک پھول پہ کام
روز ایک پنکھڑی بناتا ہوں

اکبر معصوم کی اپنی ایک منفرد شعری دنیا تھی۔ وہ فطرت اور حسن کو پرکھنے کا فن جانتے تھے۔ اگر فطرت سے کسی شاعر نے بھرپور استفادہ کیا ہے تو وہ اکبر معصوم ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں شاعری کے بڑے امکانات تلاش کر لیتے تھے، جیسے:
باہر آتے ہیں اشک اندر سے
جانے اندر کہا سے آتے ہیں

نیند میں گنگنا رہا ہوں میں
خواب کی دھن بنا رہا ہوں میں
اب تجھے میرا نام یاد نہیں
جب کہ تیرا پتا رہا ہوں میں

پیارے پنچھی اڑتے اڑتے
بن جاؤ آکاش کسی دن
پتھر کی قسمت جاگے گی
آئے گا نقاش کسی دن

دیکھو بلی کیا کرتی ہے
یا معصوم کبوتر دیکھو
جانے کب سے سوئے نہیں ہو
تکیہ ڈھونڈو بستر دیکھو

اکبر معصوم کی شاعری میں جمالیات کی جھلک دیگر جدید شعرا کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہے۔ ان کی شاعری میں جمالیاتی اظہار بار بار دکھائی دیتا ہے۔

یہ جو اک شاخ ہے ہری تھی ابھی
اس جگہ پر کوئی پری تھی ابھی

ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو
یادوں جیسی تیز ہوا ہو درد سے گہرا پانی ہو

اپنی طرف بھی دیکھ اگر دیکھتا ہے تُو
سورج مکھی کے پھول کدھر دیکھتا تُو

دنیا سے مجھ کو اتنی محبت ضرور ہے
بارش میں بھیگتا ہوں نہاتا نہیں ہوں میں

اکبر معصوم کی شاعری ثابت کرتی ہے کہ بات جتنی سادہ ہو، اتنی ہی موثر ہوتی ہے، وہ گہری سے گہری بات آسان الفاظ میں بیان کر دیتے تھے۔اکبر معصوم کے کلام میں جون ایلیا اور منیر نیازی کی جھلک محسوس ہوتی ہے، مگر وہ اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔ ان کا کلام سادگی، گہرائی اور فطرت سے قربت کی عمدہ مثال ہے، جو انہیں جدید اردو شاعری میں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں