احمد فراز کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | Ahmed Faraz ki shairi ka tanqeedi jaiza
احمد فراز کی شاعری کا تنقیدی جائزہ
احمد فراز
احمد فراز آزادی کے بعد کی جدید اردو شاعری میں اہم نام ہے ۔انہوں نے غزل کو اس کی روایت خوبصورتی نغمگی اور لطافت کے ساتھ جدید دور کی فکری اور معاشرتی جہتوں سے آشنا کیا اور اسے نیا لب و لہجہ اور نیا تیور عطا کیا ۔انہوں نے غزل میں رومان اور عشق کے مضامین پیش کیے مگر خود کو عشق و رومان تک محدود نہیں رکھا مگر غزل کو نے دور کے انسانوں کے مسائل اور مشینی دور کے پیچیدہ معاشرے کا آئینہ بھی دیا ۔
ان کے یہاں زندگی اپنی گوناگوں خصوصیات اور رنگوں کے ساتھ ابھر کر سامنے اتی ہے ۔احتجاج اور طنز احمد فراز کی شاعری کی دیگر خصوصیات ہیں ۔
احمد فراز نے غزل میں تغزل کی کمی خصوصی کو ترجیح دی یعنی غزل کو نئے دور کے مطابق ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کی بنیادی خصوصیات تغزل کو خیر باد نے نہیں کیا ۔بلکہ اس کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بھی بیان کیا ہے ۔غزل میں محبوب کا ذکر اور عشق مختلف رنگ اور کیفیات ان کی غزلوں میں روایت طور پر بیان ہوتی ہیں
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب فراز اس سے
عشق کم عاشقی زیادہ تھی
تیرا غم اپنی جگہ دنیا کے غم اپنی جگہ
پھر اپنے عہد پہ قائم ہے اپنی جگہ
میں وقت سے بیگانہ زمانے سے بہت دور
جام و مےٙ و مینا و خرابات میں گم تھا
میں کہ شاعر تھا میرے فن کی روایت تھی یہی
مجھ کو ایک پھول نظر آئے تو گلزار کہوں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
مندرجہ بالا شعروں میں احمد فراز روایتی غزلیہ شاعری کے بندھے ٹکے فارمولے کے مطابق شاعری کرتے ہیں مگر ان کی غزلوں میں عام انسانون کا درد و کرب زندگی کے مختلف تلخ و شیریں جذبات اور انسانوں کی بے حسی بے خبری اور خود غرضی کا بیان بھی ملتا ہے :
اس قدر دنیا کے دکھ دے خوبصورت زندگی
جس طرح تتلی کوئی مکڑی کے جالوں میں رہے
غزلیں ایک سی آوارگیاں ایک سی ہیں
مختلف ہو کے بھی سب زندگیاں ایک سی ہیں
احمد فراز کا یہ مشاہدہ ہے کہ انسان مختلف حالات اور مختلف علاقوں میں رہنے کے باوجود ایک جیسی ذہنی پریشانی اور مسائل میں گھرا ہوتا ہے ۔ہر شخص نا آسودہ اور نفسیاتی قرب سے دوچار ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر شخص کا زندگی اور دنیا کو دیکھنے کا نیا انداز اور زاویہ نظر ہے اور مختلف زاویہ نگاہ کی وجہ سے زندگی کے تئیں انسانوں کے رویے مختلف ہوتے ہیں :
کوئی مکاں کوئی زنداں سمجھ کے رہتا ہے
طلسم خانہٙ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
فراز اس شعر میں کس کو دکھاؤں زخم اپنے
یہاں ہر کوئی مجھ سا بدن پہنے ہوئے ہے
احمد فراز کی شاعری میں مزاحمت کی سیاسی سماجی اور مذہبی جہات | pdf
ان اشعار سے احمد فراز کی شاعرانہ انفرادیت ظاہر ہے ۔انہوں نے اپنی منفرد آواز اور منفرد اسلوب سے عصری جدید شاعری میں ایک نئے دور کا اغاز کیا اور نئے باب کا اضافہ کیا۔لہذا علی سردار جعفری نے ان کی غزلیہ شاعری کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا
جیسی غزل احمد فراز کہہ گئے ہیں گزشتہ 50 برس سے آج تک اتنی خوبصورت،مرصع اوربھرپور غزل کسی نے نہیں کی
( چہار سو،شمارہ 30جنوری فروری 1995،راولپنڈی پاکستان ،ص:90)
احمد فراز کا سماجی شعور بہت ترقی یافتہ اور بالیدہ تھا ۔وہ اپنے ملک اور اپنے عہد کے سیاسی سماجی اور معاشی حالات سے بخوبی واقف تھے اور اہل اقتدار کے ذریعہ اظہار رائے پر پابندیوں اور دانشوروں اور فنکاروں کی مردہ ضمیری اور بے حسی سے رنجیدہ تھے ۔
احمد فراز کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | مقالہ pdf
وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ کسی طرح جمہوری قدروں اور اہل اقتدار پامال کر رہے تھے ۔اور ادیبوں اور دانشوروں کا طبقہ کسی طرح مصلحت پسندی اور بے حسی کا شکار تھا :
خون بے گناہی کو جب بھی بیچ کر آئے
دوستوں کے شالوں پر زر نگاہ شالیں تھیں
فقیہ ہے شہر جبیں پر کلاہِ زر رکھے
سنا رہا ہے آیتیں مقدر کی
قاتل اس شہر میں جب بانٹ رہا تھا منصب
ایک درویش بھی دیکھا اس دربار کے بیچ
احمد فراز کی شاعری میں طنز اور احتجاج کی لے کبھی تیز ہے ۔وہ جدید دور میں انسانوں پر جبرانہ نظام کی بندشوں اور کمزور اور بے بس انسانوں پر حکومت کے مظالم سے مغموم اور رنجیدہ تھے ۔ان کی غزلوں میں یہ غم اور یہ کر جا بجا ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔اس لیے قمر رئیس احمد فراز کی شاعری کے موضوعات اور ان کی فکری وسعت کے متعلق رقمطراز ہیں:
احمد فراز کی آگہی اور ذہانت اپنے عہد کے نت نئےتقاضوں سے پوری طرح باخبر رہی ہے ۔انہوں نے ظلم و جبر اور استحصال کی سفاک طاقتوں کے مقابلے میں اپنے وطن کے اور ساری دنیا کے دبے کچلے انسانوں کی طرفداری کا عہد کیا اور اس ستم کش کوچا میں مشاہدانہ بانکپن سے آگے بڑھتے ہوئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا
(چہار سو ،شمارہ30جنوری فروری 1995،راولپنڈی پاکستان ص: 91
ان کا یہ سماجی شعور ان کی نظموں میں بھی جلوا گر ہے۔ وہ جھنگ کے شدید مخالف ہیں اورتمام شاعروں کی طرح وہ امن کے پیغامبر ہیں۔ وہ جنگ کو انسانیت کا دشمن سمجھتے ہیں وہ شاعروں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ کے خلاف زور و دار تحریک چلائیں ۔انہوں نے شاعروں اور ادیبوں کو ان کی قربانیاں یاد دلائی ہیں۔اپنی” نظم ادیب اور شاعر کا فرض” میں وہ کہتے ہیں
جنگ کی اگ دنیا میں جب بھی چلی
امن کی لوریاں تم سناتے رہے
جب بھی تخریب کی تند اندھی چلی
روشنی کے نشان تم دکھاتے رہے
تم سے انساں کی تہذیب پھولی پھلی
تم مگر ظالم کے تیر کھاتے رہے
رحمت افراد نے غزل میں ذات اور کائنات کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے فنی اور جمالیاتی سطح پر بھی کامیاب بنایا۔ان کے شاعرانہ رتبے پر کچھ نفازوں کو اختلاف ضرور ہے مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ احمد فراز نے غزل کو جدید لب و لہجہ عطا کیا اور اسے عوام کے دل کی اواز بنا دیا ۔شمیم حنفی اپنے ایک مضمون میں احمد فراز کے منفی اور مثبت پہلو پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں
فراز کی اپنی نار سائیاں تو ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس شاعری کی اپنی طاقت اور توانائی کا بھی ایک نمایاں پہلو ہے جس سے فراز کے بیشتر ہم عصروں کا دامن خالی ہے ۔وہ احمد مشتاق اور ظفر اقبال کی سطح اور قبیل کے شاعر نہیں ہیں لیکن شعر کے کلاسک کی محاورے اور اسلوب پر ان کی
گرفت اس اعتبار سے منفرد اور غیر معمولی ہے کہ انہوں نے اس روایتی دائرے میں اپنی نورومانی فکر اور اپنے عہد کے اظہار کی گنجائش بھی پیدا کی
(اے عشق جنون پیشہ’ از شمیم حنفی مشمولہ سمائی اردو ادب،مدیر اسلم پرویز ناصر انجمن ترقی اردو ہنددہلی،شمارہ اکتوبر 2008ءص: 7)
مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ احمد فراز آزادی کے بعد کے جدید شاعروں میں ایک منفرد مقام کے حامل ہیں۔انہوں نے ہندو پاک میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی اور غزل کو نئی بلندی عطا کی۔
پی ڈی ایف سے تحریر از : ارحم
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔