احمد ندیم قاسمی دیہی زندگی کا سچا ترجمان
تعارف
احمد ندیم قاسمی اردو ادب کے ایک نامور افسانہ نگار، شاعر، صحافی اور مدیر تھے جنہوں نے اردو ادب کو نہ صرف نیا رخ دیا بلکہ اسے عوام کے دل کی آواز بھی بنایا۔
موضوعات کی فہرست
وہ 20 نومبر 1916ء کو انگہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات 10 جولائی 2006ء کو لاہور میں دمہ کے مرض کی وجہ سے ہوئی۔
ان کا ادبی سفر تقریباً سات دہائیوں پر محیط ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اس کے سیکرٹری بھی تھے، جس کے نتیجے میں انہیں دو مرتبہ قید کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔
یہ بھی پڑھیں : احمد ندیم قاسمی بطور افسانہ نگار | pdf
ادبی خدمات
انہوں نے شاعری کا آغاز 1931ء میں محمد علی جوہر کی وفات پر ایک نظم لکھ کر کیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ 1942ء میں اور پہلا افسانوی مجموعہ 1939ء میں شائع ہوا۔
وہ معروف ادبی رسالہ فنون کے بانی مدیر بھی تھے، جس نے کئی اہم ادیبوں کو ادبی دنیا میں متعارف کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: افسانہ گنڈاسا از احمد ندیم قاسمی نوٹس | PDF
مشہور افسانوی مجموعے
- چوپال (1939)
- بگولے (1941)
- طلوع و غروب (1942)
- گرداب (1943)
- سیلاب (1943)
- آنچل (1944)
- آبلے (1946)
- آس پاس (1948)
- در و دیوار (1948)
- سناٹا (1953)
- بازارِ حیات (1953)
- برگِ حنا (1959)
- سیلاب و گرداب (1961)
- گھر سے گھر تک (1963)
- کپاس کا پھول (1973)
- کوہ پیما (1995)
افسانوی اسلوب اور دیہی زندگی کی عکاسی
احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری میں دیہی زندگی کا عکس بہت گہرا ہے۔ ان کے کردار سادہ، معصوم، غریب، محنتی، اور روایتی معاشرت کے نمائندہ ہوتے ہیں۔
وہ اپنے افسانوں میں گاؤں، زمیندار، کسان، کھیت، کھلیان، جانور، چشمے، اور مقامی طرزِ معاشرت کو اس خوبی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری خود کو اس ماحول کا حصہ محسوس کرتا ہے۔
دیہی زندگی کے حسن اور تلخیوں دونوں کو بے ساختگی اور گہرے مشاہدے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی (آثار و افکار) | PDF
ان کے افسانے صرف رومانویت تک محدود نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور طبقاتی مسائل کو بھی موضوع بناتے ہیں۔
افسانہ “طلوع و غروب” سے اقتباس:
"میں نے پھٹے ہوئے ہونٹوں سے آہوں کے دھوئیں اٹھتے دیکھے ہیں… میں نے زندگی کی نعش کو گلتے سڑتے ہوئے دیکھا ہے…”
شہری زندگی کا عکس
اگرچہ قاسمی کا میلان دیہی زندگی کی طرف زیادہ تھا، تاہم انہوں نے شہری زندگی کے جھوٹ، فریب، ریاکاری اور خود غرضی کو بھی افسانوی قالب میں ڈھالا۔
افسانہ کفارہ میں "پیرو” کا واقعہ ہو یا اصول کی بات میں "عبداللہ” کی جدوجہد، ان میں شہری اور جاگیردارانہ نظام کی منافقت اور ظلم کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔
نقد و تبصرہ
نقاد ڈاکٹر سہیل احمد لکھتے ہیں:
"دیہات کی پگڈنڈیوں، اونٹ اور ساربان، محبتوں کے کھیل، پھر مایوسیوں کی یلغار، جنگ اور طبقاتی تضاد — یہ سب قاسمی صاحب کی جذباتی اور شاعرانہ نثر میں ڈھل کر جی کو لبھاتے ہیں۔”
اعزازات
احمد ندیم قاسمی کو ان کی ادبی خدمات پر تین بار آدم جی ایوارڈ، صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔
معاونین
محمد حمزہ،نعمت اللہ، کنول، دیگر اراکین
ترتیب و تدوین: [پروفیسر آف اردو ]