احمد فراز کی شاعری کا تعارف

احمد فراز کی شاعری کا تعارف

دیکھو تو بیاض ِشعر میری
اک حرف بھی سرنگوں نہیں ہے

فراز بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے، اسی لیے ان کی انقلابی شاعری میں بھی گداز کا احساس ملتا ہے۔ انھوں نے سیاسی اور سماجی حالات کی سختیوں کو محبوب کی شیریں یادوں کے ساتھ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ ان کے انقلابی خیالات زندگی کے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں۔ فراز کو اگر بالغ نظرشاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: احمد فراز کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

وہ اپنے محبوب اور زمانے، دونوں کے تقاضوں کو یکساں طور پر نبھاتے نظر آتے ہیں۔ فراز کی ایک مشہور نظم "محاصرہ "پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ جیسےفیض ترقی پسند تحریک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ فراز نے مارشل لاکے خلاف بہت کھل کے لکھا مگر ان کی شاعری رومانوی جذبات کی شدت کے باعث محض نعرہ نہیں بنی۔

یہ بھی پڑھیں: احمد فراز کی شاعری ایک نظر

مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

ظالم اور مظلوم کی کشمکش میں احمد فراز نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا۔ ان کی شاعری میں زندگی کی ان قدروں کی پامالی کا بہت شدیددکھ محسوس ہوتا ہے، جہاں مظلوم کا ساتھ دینے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔احمد فراز نے اپنی شاعری میں غم ِجاناں اور غم ِدوراں کو یکجا کر کے زندگی کا گہرا شعور پیش کیا ہے۔

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بھی اک سلسلہ کن فیکوں ہے، یوں ہے
فراز کی نعت میں مسلمانوں کے عہدِ گذشتہ کی شان و شوکت نبی کریم ﷺ کی بدولت روشنی کا پیغام لے کر طلوع ہوتی ہے۔

انھوں نے رسول کریم کی ذات کو عہد حاضر میں منور پایا ، جس کی باعث ان کا نعتیہ کلام بھی ظلم کے خلاف استعارہ بن جاتاہے۔ نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ ان کی رہنمائی کرتا محسوس ہوتا ہے۔ وہ ایک مقام لکھتے ہیں:

مرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے

تو روشنی کا پیمبر ہے اور مری تاریخ
بھری پڑی ہے شب ِظلم کی مثالوں سے

فراز نے فسطائی جبر کے خلاف قلمی جہاد کیا۔ انھوں نے جبر اور گھٹن کے ماحول میں بھی انہوں نے اپنے ہم وطنوں کو فراموش نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو نظم کے جدید دور میں سب سے تو انا نظم اور غزل احمد فراز کی ہے، جو جبری فضا کی قید کو تو ڑ نےکا پیغام دیتی ہے۔
پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو دستار کے بیچ
ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں بازار کے بیچ

جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے

پروف ریڈر: سجاد حیدر

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں