مفت اردو ادب وٹسپ چینل

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

افسانہ ٹوٹتے کنبے

سردیوں کی ایک سخت رات تھی۔ یخ بستہ ہوا مسلسل پہاڑوں سے اترتی ہوئی شہر کو چیر رہی تھی۔ رات کے ساڑھے تین بجے تھانے کا بھاری دروازہ زور سے کھٹکا۔ کانسٹیبل فاروق چونک کر دوڑتا ہوا گیا اور فوراً دروازہ کھول دیا۔ ایس ایچ او شمیم خان اپنی ٹیم کے ساتھ اندر آیا اور ان سب کے بیچ وہ بھی موجود تھا۔

اس کے چہرے پر عجیب سی وحشت جمی ہوئی تھی۔ بال اُلجھے ہوئے، داڑھی بے حد بڑھی ہوئی اور آنکھوں میں ایسی تیرگی کہ دیکھنے والا پل بھر کے لیے ٹھٹھک جائے۔ پولیس اسے ڈھائی مہینے سے تلاش کر رہی تھی۔ آج بالآخر وہ پولیس کے ہاتھ لگ گیا۔

اصغر شام کو دکان سے واپس آیا تو اس کی بیوی تیزی سے اس کی طرف گھبرائی ہوئی آئی اور اصغر سے کہا "ابو جی کی طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے آپ جلدی آئیں۔”

اصغر کے ابو سنگل بیڈ پر بے ہوشی کی حالت میں پڑے تھے۔ کمرے میں پنکھا آہستگی سے چل رہا تھا اور اس کی مدھم آواز دیوار پر لگی گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ مل کر ایک اداس سا ماحول بنا رہی تھی۔ اصغر نے حالت دیکھ کر فوراً ریسکیو کو فون کیا اور ایمبولینس منگوائی۔ وہ خود بیٹھ کر ابو کی ہتھیلیاں ملتا رہا۔ کچھ ہی دیر میں ایمبولینس گلی کے موڑ پر دکھائی دی۔

اصغر اور اس کی ماں مریض کے ساتھ ایمبولینس میں بیٹھ گئے۔ ہسپتال پہنچتے ہی ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور فوراً اصغر کے ابو کو آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔

اصغر کی ماں جو ابھی تک ہمت کی ایک مضبوط دیوار بنی ہوئی تھی آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگی۔ وہ سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گئی اور بے ساختہ رونے لگی۔ اصغر نے اپنے آنسو پونچھے، ماں کو سہارا دے کر بینچ تک لایا اور اسے دلاسا دینے لگا۔ کہنے لگا: "امی حوصلہ رکھیں۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں ابھی امید ہے۔ ہم پر یہ آزمائش کا وقت ہے جلد ہی گزر جائے گا۔” اس لمحے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دنیا کے سارے غم آ کر ان دونوں کے کندھوں پر رکھ دیے گئے ہوں۔

گھڑی کی چلتی سوئیاں وقت کا سامنا کرتے ہوئے سست پڑ گئیں۔ دن بھر کے تھکے ہارے اصغر کو نیند نے آخرکار اپنی گود میں سلا لیا مگر اس کی ماں اسی طرح بیٹھی رہی۔ اس کی نظریں آئی سی یو کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں اس حسرت کے ساتھ کہ شاید اصغر کے ابو پہلے جیسے تندرست ہو کر ہشاش بشاش واپس لوٹیں۔

صبح آئی سی یو سے خبر آئی کہ اصغر کے ابو اپنی امانت واپس لوٹا چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دماغ تک خون پہنچانے والی رگ اچانک بند ہو گئی۔ یہ سنتے ہی اصغر کی ماں ایک دردناک چیخ کے ساتھ زمین پر گر پڑی اور بے ہوش ہو گئی۔ انھیں فوراً ایمرجنسی وارڈ لے جایا گیا۔

کچھ دیر بعد اصغر کا بڑا بھائی عالمگیر ہسپتال پہنچا۔ وہ کافی عرصے سے ان سب سے الگ گھر میں رہ رہا تھا اور کم رابطے میں تھا۔ رات اصغر نے اسے فون پر اطلاع دی تھی مگر وہ صبح آیا۔ اس وقت اصغر کی ماں بھی ہوش میں آچکی تھی۔ اس نے بیٹے کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ شکوہ کرنا چاہتی تھی لیکن کچھ کہہ نہ سکی۔ نعش کو ایمبولینس میں رکھا گیا اور سب گھر کی طرف روانہ ہوئے۔

رسم و رواج کے مطابق اصغر کے ابو کا جنازہ، کفن دفن اور دعا سب معاملات خوش اسلوبی سے طے پاگئے ۔ اصغر ہر ایک کام دلجمعی سے کرتا رہا۔ جب کہ عالمگیر کہیں پیچھے کھڑا رسمی سا فرض نبھاتا رہا۔ ابھی وہ لوگ مکمل طور پر سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ عالمگیر نے وراثت کی بات چھیڑ دی۔

ان کے ابو کے نام گاؤں میں خاصی زمینیں تھیں اور شہر میں دو گھر بھی موجود تھے۔ گھر والے ایسے موقع پر اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے مگر موقع کی مناسبت کو سمجھتے ہوئے اگلے ہی دن تقسیم کرنی پڑی۔ دونوں بھائیوں، بہن اور ماں کو اسلامی شریعت کے مطابق اپنا اپنا حصہ مل گیا۔

اصغر کی بہن اور ماں نے اپنے حصے کا دو تہائی اصغر کو دے دیا۔ وہ دونوں جانتی تھیں کہ اصغر کاروبار کے لحاظ سے کمزور ہے اور والدین کی خدمت بھی اسی نے سب سے زیادہ کی ہے۔ باقی ایک تہائی حصہ عالمگیر کو دیا گیا۔

یہ عمل عالمگیر کے دل و دماغ پر بالکل ایسے اثر انداز ہوا جیسے آسمان سے کڑکتی ہوئی بجلی کسی چیز پر گرتی ہے ۔ بظاہر وہ خاموش رہا مگر اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس کے حق میں یہ فیصلہ بہت بھاری پڑا ہے۔ وہ بغیر کچھ کہے اپنے گھر چلا گیا۔ گھر پہنچتے ہی اس کی بیوی نے اپنے مخصوص انداز میں اسے اکسایا اور خاندان کے خلاف اس کے دل میں پوری طرح آگ بھر دی۔

صبح سویرے عالمگیر اصغر کے گھر آیا۔ گھر کی دہلیز پر قدم رکھنے کی بجائے باہر سے ہی اصغر کو آواز دے کر بلایا۔ بات ہونے لگی اس نے بغیر تمہید کے کہا کہ وراثت آدھی آدھی ہوگی۔ اصغر نے پرسکون لہجے میں جواب دیا کہ امی اور بہن نے اپنی خوشی سے مجھے حصہ دیا ہے اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں پھر میں اپنا حصہ کیوں بانٹوں؟

بات لمحہ بھر میں تلخی سے جھگڑے میں بدل گئی۔ پہلے زبان چلی پھر ہاتھ۔ ایک موقع پر اصغر کا صبر جواب دے گیا اور اس نے عالمگیر کے منہ پر ایک زور دار گھونسہ دے مارا۔ عالمگیر لڑکھڑا گیا اور اس کے ناک اور ہونٹوں سے خون بہنے لگا۔

غصے نے عالمگیر کو اندھا کر دیا تھا ۔ اس نے جیب سے چاقو نکالا اور بغیر سوچے سمجھے پہلے اصغر کے پیٹ میں گھونپ دیا پھر ایک وار سیدھا دل پر کیا۔ اصغر وہیں زمین پر گر گیا خون میں لت پت۔ چند ہی لمحوں میں اس کی سانس ٹوٹ گئی۔

گھر والوں اور محلے والوں تک خبر پہنچنے سے پہلے عالمگیر جائے وقوعہ سے فرار ہو چکا تھا۔ پولیس کو اطلاع ملتے ہی تفتیش شروع ہوگئی۔ گلی کے ایک گھر کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمرے میں سارا منظر محفوظ ہوچکا تھا۔ اس وجہ سے بات واضح ہوگئ کہ قاتل کون ہے لیکن عالمگیر غائب ہو چکا تھا۔ پولیس ہر دو تین دن بعد چھاپے مارتی رہی مگر وہ ان کے ہاتھ نہیں آیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ زندہ ہے یا کہیں مر کھپ گیا۔

ڈھائی مہینے یوں ہی گزر گئے۔

عالمگیر کے گھر فاقوں کی نوبت آ گئی تھی۔ بیوی کے پاس نہ کھانے کو کچھ تھا نہ لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت۔ دوسری طرف عالمگیر خود دربدر بھٹکتا پھر رہا تھا۔ یہاں پولیس دیکھ کر چھپ جاتا وہاں سائے دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوتا۔ رات کو جب آنکھ لگتی تو اصغر کا زخمی، خون میں لت پت جسم اس کے سامنے آ جاتا۔ دن کو چین نہیں تھا رات کو نیند نہیں تھی۔ ضمیر اسے لمحہ بہ لمحہ نوچ رہا تھا۔

اسی بد حالی میں ایک شام وہ خاموشی سے قریبی تھانے پہنچا اور بغیر کچھ کہے خود گرفتاری دے دی۔ تھانے دار نے ایس ایچ او شمیم خان کو اطلاع دی اور وہ رات گئے عالمگیر کو اپنے شہر کے تھانے لے آیا۔

گاؤں میں یہ خبر پھیلنے میں دیر نہ لگی کہ عالمگیر نے خود کو پیش کر دیا ہے۔ اس کا گھر ویسے بھی اجڑ چکا تھا رہی سہی عمارت بھی اس خبر کے ساتھ زمین بوس ہو گئی۔

ماں نے جب یہ خبر سنی تو اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ اس نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور زیر لب کہنے لگی "یا اللہ! یہ مجھے کس جرم کی سزا دے رہے ہیں؟ میرا ایک بیٹا قبر میں اور دوسرا جیل میں۔” اس کی دلی حالت ناقابل برداشت ہو چکی تھی۔

چند ہفتوں میں مقدمہ چلا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج، گواہوں کی گواہی اور عالمگیر کا اعتراف۔ سب کچھ عدالت کے سامنے تھا۔ جج نے اسے عمر قید کی سزا سنا دی اور اسے جیل منتقل کر دیا گیا۔

✍️ محمد فیضان

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں