فسانہ نقاب از سدرہ میر اکبر

نقاب
علی کے آفس میں دو لڑکیاں کام کرتی ہیں.. رباب اور دوسری حیا..
رباب ایک ماڈرن لڑکی ہے جو نئے نئے ڈیزائن کے کپڑے خود پر آزماتی ہے اور ھر کسی کو اپنے فیشن کی وجہ سے اپنی طرف مائل کرتی ہے ہر کوئی اسے زیادہ فوقیت دیتا ہے..
دوسری طرف حیا ہے جو ہر وقت نقاب میں رہا کرتی ہے اور تمام امپلائز کو حیا سے چھڑ محسوس ھوتی ہے کیونکہ( اتنی گرمی میں نقاب کون پہنتا ہے اور اسے یہاں پتہ نھیں کون لایا ہے) جیسی باتوں سے حیا کو تنگ کرنا ان کا کام ہے ..
آج حیا آفس جانے کے لئے نکلی تو دو پڑوسی عورتیں ان کے گھر کے با ہر موجود تھیں …
حیا:اسلام وعلیکم آنٹی ….
پڑوسی : بڑے غرور کے ساتھ وعلیکم اسلام .. حیا ز خود کو سات پردوں میں چھپا کر کہاں جا رہی ہو؟؟
حیا:جی آنٹی آفس جانا ہے…
اس بات پر دونوں پڑوسی عورتیں ھنسنے لگتی ہیں …
حیا ویسے کون سی خوش فہمی میں ھو لیکن میں بتاؤں بھلا تمہیں کون کام دے سکتا ہے تم تو صرف خود کو پردوں میں ہی لپیٹ سکتی ہو….
حیا : کیونکہ مجھے پتہ ہے آنٹی پردے میں کتنا سکون ہے..
پڑوسی : تمہیں نہیں لگتا کہ پردے میں کچھ زیادہ ہی عجیب و غریب لگ رھی ہو… اور تمہیں اس طرح کوئی پسند بھی نہیں کرنے والا…😕
حیا : پتہ ہے آنٹی اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ دنیا کی نظر دھندلی ہے … مگر مجھے فرق نہیں پڑتا کیونکہ میرے اللہ کو جنت کے پتے ڈھانپنے والوں سے محبت ہے تو اگر اللہ کو میں پسند ہوں تو مجھے دنیا کی کوئی فکر نہیں اور مرنے کے بعد اللہ کے پاس جانا ہے اور اللہ ہمارے ساتھ ہر چیز کا حساب وکتاب کرے گا دنیا والے نہیں ….. اگر ہوسکے تو اس بات پر غور کرے کہ ہم دنیا میں امتحان دے رہے ہیں اللہ کے سامنے روز محشر ملنا ہے …..
اچھا آنٹی اب میں چلتی ہوں اللہ حافظ…
پڑوسی عورتیں دونوں ششد رہ کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگتی ہیں اور کچھ نہ کہ سکی….
حیا آفس پہنچ کر اپنا کام کرنے لگتی ہے .. اتنے میں سائڈ پر پڑے موبائل کی سکرین پر سر لکھا آرہا ہوتا ہے…
حیا: کال اٹھاتی ہے اور اسلام وعلیکم سر کہ دیتی ہے ..
سر: حیا میرے آفس آجائے کچھ ضروری بات کرنی ہے …
حیا:اوکے سر کہ کر کال کاٹنے لگتی ہے اور نقاب ٹھیک کر کے باھر آتی ہے….. آج بھی روز کی طرح سب حیا کو حقیر نظروں سے دیکھ رہے ہیں لیکن حیا کو اب ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا …
حیا :دستک دے کر دروازے کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے..
علی:جی آئیں مس حیا….
حیا اندر آجاتی ہے اور نیچے دیکھ کر سوچنے لگتی ہے …
اتنے میں دروازے پر دستک دے کر رباب اندر آجاتی ہے …
رباب اور حیا دونوں کو سر علی بیٹھنے کے لئے کہتا ہے دونوں بیٹھ جاتی ہے…
رباب نے آج بھی فیشن کے مطابق بلکل نیا ڈیزائن پہنا ہوا ہے … ڈارک پنک کلر کے کپڑے جس کی شوخی نے تمام آفس کے خواتین وحضرات کی توجہ پائی ہے اور ساتھ میں اُونچی ہیل …
علی صاحب بے اختیار اس کے کپڑوں پر غور کرنے لگتے ھے…
حیا کالے رنگ کے برقہ پہنے اور ساتھ میں ایک بڑا سا سکاف لئے ھوئے ھیں..
اب علی صاحب ان دونوں کو کمپنی کے بارے میں بتانے لگتا ھے…
علی صاحب: دیکھے مس حیا اور رباب اپ کو پتہ ھوگا پچھلے مہینے ھم نے جو اوپر سے اوڈر لیا تھا وہ ھم پورا نہ کر سکے جس کی وجہ سے کمپنی کو نقصان اٹھانا پڑا مگر کل ھمارے افس میں کچھ لوگ ارہے ہیں اور وہ ھمارے ساتھ کچھ ڈیل کرنا چاھتے ھے مگر اس کے لئے ھمیں ایک زبردست رپورٹ تیار کرنا ھوگا … بات کرتے ھوئے رباب کی طرف دیکھتے ھوئے کہتا ھے مجھے بھروسہ ھے کہ اپ کل تک رپورٹ تیار کر لینگی….
اور رباب جس کو سب کی توجہ نے پر اعتماد بنادیا ھے بنا سوچے سمجھے کہ اٹھتی ھے سر بے فکر ھو جائے ….
افس کا ٹائم ختم ھونے پر حیا اور رباب اپنے اپنے گھر جانے لگتی ھے …
رباب اب نئے ڈیزائن کپڑے دیکھ رہی ھے کیوکہ کل میٹنگ میں ھمیشہ کی سب کو اپنی طرف متوجہ کرنا ھے ….
اور دوسری جانب حیا بیڈ پر لیٹی ھوئی سوچ رھی ھے کہ پریزنٹیشن تو ویسے بھی رباب دے گی لیکن میں بھی تھوڑی تیاری کر لیتی ھوں .. حیا اٹھ کر لیپ ٹاپ پر اپنا رپورٹ تیار کرتی ھے اور کہتی ھے کہ اللہ سب دنیا نقاب کو اتنا حقیر کیو سمجھتے ھے اور لوگوں کی وہی باتیں اب تک حیا کے زہن میں تیر کی طرح گونج رہی ھے سوچوں میں مگن ھو کر حیا کب سو گئی اسے پتہ ھی نھیں چلا …
خواب میں دیکھتی ھے کہ وہ ایک بس میں بیٹھ کر کہیں جا رہی ھے مگر تمام بس میں حیا کے علاوا کسی نے پردہ نھیں کیا ھے بلکہ ان سب کے لباس سے معلام ھوتا ھے کہ گویا وہ غیر مزھب لوگ ھے …
حیا کے نقاب پر ایک عورت ہنس کر کہتی ھے تمہں شرم نہیں اتی اس طرح پردوں میں گومنے پر یا شاید تم مسلماں ھو .. یہ سن کر حیا چند لمحے کچھ نہیں کہ پاتی کیوکہ تمام بس مسافر غیر مزھب ھے چپ رہنا بہتر ھے ….
اتنے میں ایک بزرگ ادمی بس کے اخری سیٹ سے اواز دیتا ھے اس کی بھت بھاری خوبصورت سی اواز …
اے ناداں لوگوں میں تمہیں بتاتا ھوں ایک ادمی کی طرف دیکھ کر فرماتا ھے کہ تمہیں بازار میں اگر کیلے لینے ھو تو تم کیسے کیلے لینا پسند کروگے…?
ادمی ششد رہ جاتا ھے ..اور کچھ دیر بعد کہتا ھے ظاہر سی بات ھے جو صاف ھونگے اور جو اچھے سے چھلکے میں بند ھونگے …
بزرگ ادمی کہتا ھے کیو چھلکے کے بغیر والے کیو نھیں ..
وہ ادمی بزرگ کے سامنے بڑے غرور سے پیش اتا ھے اور کھتا ھے کیونکہ اس پر تمام گندی چیزیں اڑی ھونگی تو وہ تو گندے ھونگے اور گندے کیلے کون کھائے گا ..
بزرگ مسکرا کر کہتا یہی مثال عورتوں کی ھے تمہارے بس میں موجود تمام عورتوں کو مرد حضرات کب سے گندی نظروں سے دیکھ رہے ھیں مگر یہ بچی ایک پاک نقاب کے زرئعے ان کی گندی نظروں ڈے محفوظ ھے…
بزرگ کی باتیں سن کر تمام بس موجود لوگ مسمان ھو جاتے ھیں……
الارم بجنے لگتا ھے جب حیا کی انکھیں کھلتی ھے تو صبح کا اذان ھو رہاھوتا ھے.. حیا خواب میں دیکھنے والے واقعے پر سوچنے لگتی ھے اور پھر اٹھ کر نماز کے لئے تیار ھونے لگتی ھے…. نماز کے بعد اپنا رپورٹ دوبارہ پڑتی ھے اور دعا مانگتی ھے کہ اللہ مجھے ھمت دے کہ میں نقاب سمیت اپنے اپ کو اگے لے کر جاوں …
افس میں اج میٹنگ ھے … حیا روز کی طرح اج بھی وقت پر افس پہنچ چکی ھے رباب نے اج سرخ رنگ کی ہیل کے ساتھ ایک لمبا سا فراک پہنا ھوا ھے بال ھمیشہ کی طرح کمر پر لٹک رھے ھیں اور سب لوگ ایسے دیکھ رہے ھیں جیسے کوئی میلا لگا ھوا ھے…
میٹنگ شروع ھونے میں صرف پانچ منٹ باقی ھے اور رباب کو اب خیال ایا کہ کوئی اچھا سا رپورٹ تیار کروں …
میٹنگ شروع ھونے سے پہلے حیا اور رباب کو میٹنگ رام میں بھٹایا جاتا ھے اب تقریبا دس بارہ مرد حضرات اندر داخل ھو گئے علی بھی اچکا ھے اور اسے پورا اعتماد ھے کہ رباب سب ھینڈل کری گی ..
رباب اٹھ کر کڑھی ھو جاتی ھے سب اس کے رپورٹ سے زیادہ اسے نوٹ کر رہے ہوتے ہیں ..
رباب ایک سرسری رپورٹ بیاں کرتی ھے تو اس پر میٹنگ میں موجود تمام لوگ اوبجکشن کرنے لگتے ھیں علی صاحب ایک طیش نظر سے رباب کی طرف دیکھتا ھے اسے رباب سے اس قسم کی رپورٹ کی امید نھیں تھی اب کیا ھوگا ..
حیا اٹھ کر سلام کہتی ھے اور اپنا رپورٹ سامنے سکرین پر پیش کرتے ھوئے ساتھ میں سب کو سمجانے کی کوشش کرتی ھے اور تمام لوگ حیران ایک نقاب میں چھپی لڑکی کتنی ھنر سے سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ھے اور رپورٹ ختم ھونے پر سب لوگ زور دور تالیاں حیا کے لئے بجانے لگتے ھیں … علی صاحب خوشی کے مارے انکھوں میں انسوں لئے ھوئے دل میں کہتا ھے کہ ضروری نھیں کہ جو جیز ھمیں اچھی نا لگے تو وہ حقیر ھے بلکہ اللہ نے کوئی چیز رائیگاں نھیں بنائی ..
سب لوگ حیا کی قابلیت کی داد دینے لگتے ھیں اور اب کمپنی اتنی مشہور ھوئی ھے کہ ھر کوئی ان کے ساتھ کام کرنا چاھتا ھے. ….
از قلم (سدرہ میر اکبر)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں