جیلانی بانو کی ناول نگاری کا تنقیدی جائزہ بحوالہ ناول ایوان غزل | A Critical Review of Jailani Bano’s Novel Writing
تحریر: پروفیسر برکت علی
اس تحریر کے اہم مقامات:
- ناول کی ایوان غزل کی علامت اس کے اختتام پر ماضی کی ایک شاندار تہذیب کے انہدام کے استعارے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔۔۔۔
- ذرا آگے بڑھیں تو ہمیں تلنگانہ تحریک کا عمل دخل بھی نظر آئے گا۔۔۔۔۔
- انہوں نے اتنے بڑے سیاسی و معاشرتی واقعات کو اس تاریخیت کے وژن Vision کے زیعے ناول کا حصہ بنایا ہے جس سے متعلق نقاد جارج استائیز Georgesteiner نے کہا تھا۔۔۔
- اور قاری کو بھی اپنے ناول کے ذریعے اپنے ان تخلیقی مرحلوں کے انتقام سے مشروط حزنیہ انجام سے ابھرنے والے تزکیہ نفس Katharsis میں شریک کر لیتی ہیں ۔۔۔۔
جیلانی بانو کی ناول نگاری
۱۹۶۱ء سے ۱۹۸۰ء تک کے عرصے سب سے ناول جیلانی بانو کا "ایوان غزل ایوان” حیدر آباد کی منفرد اور مخصوص تہذیب کے زوال کا نوحہ ہے۔
اس ناول میں ایک ایسی تہذیب کے زوال کو موزائیک کے ٹکڑوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے کہ جس کے بغیر بر صغیر کی معاشرتی و سیاسی تاریخ نامکمل ہے،
تہذیب کی شکستگی اور زوال ہمارے ناول نگاروں کا محبوب موضوع رہا ہے۔ اس سلسلے میں قرۃ العین کا نام نمایاں ہے لیکن اس کے ساتھ عزیز احمد ، جو گندر پال اور چند دیگر ناول نگار بھی اس موضوع کے ٹریٹ منٹ Treatment میں قابل ذکر مقام رکھتے ہیں۔
ایوان غزل کا کینوس دیگر ناولوں کے مقابلے میں اس لحاظ سے وسیع تر ہے کہ واحد حسین کے دولت کدے ایوان غزل کو حیدر آباد کی تہذیب کی علامت کی حیثیت سے دیکھا اور پر کھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ علامت انتہائی گہرائی و گیرائی سے متصف تکنیک میں بھی برتی جا سکتی ہے
بالخصوص ناول میں جو ایک عہدبالا تعداد زبانوں کے ماجرے کو اپنے اندر سمونے کی قوت سے مالا مال ہے۔
اس سلسلے میں ہم قرۃ العین حیدر کے شہرہ آفاق ناول ” آگ کا دریا” کی مثال دے سکتے ہیں
جو ڈھائی ہزار سال کی تاریخ سے منسلک تقریباً تمام ہی بڑے بڑے شعبہ ہائے حیات کے کرداوں کا احاطہ کرتا ہے ۔
یہاں ” آگ کا دریا” ایک سے کہیں زیادہ تہذیبوں کے جنم لینے، بننے اور مسمار ہو کر دوبارہ ایک نئی تشکیل میں ابھرنے کے حوالے سے یقنا "ایوان غزل” سے کہیں آگے نکل جاتا ہے،
تاہم ایسی بلندی ایسی پستی اور شام اودھ کے مقابلے میں ایوان غزل زیادہ وسعت کا حامل ہے ۔
اس لیے کہ ایوان غزل کے وسیع علامتی منظر نامے کے زیریں رو کے طور پر خاصے اہم تاریخی واقعات اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ۔
ناول میں قصہ واحد حسین سے شروع ہوتا ہے جو ایوان غزل کے مکین کی حیثیت سے اپنے ہاتھوں سے نکلتے اور پھسلتے ہوئے وقت کی حشر سامانیوں کے جال میں گرفتار ہیں ۔
وہ وضعدار ہیں اور گل و بلبل والی شاعری کر کے دل بہلاتے ہیں ۔
وہ قدیم خیالات کے مالک ہیں اور اپنے بھائی احمد حسین کی جائیداد پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں مگر تقدیر ان کے عقب میں چلتی ہوئی ان کو احساس محرومی کا شکار ر بنا دیتی ہے۔
وہ عیال دار شخص ہیں اور ان کے بیٹوں اور بیٹیوں سے جو اولادیں ہوتی ہیں وہ ناول کا غالب حصہ ہیں
اس لیے کہ وہ اولادیں ہی قدیم کو جدید سے ممیز کرتی ہیں۔ اور انکی زندگی کے سفر میں فرسودہ و گھناؤنی گھریلو روایات و رسوم م ، مشترکہ کلچر کے مسائل ، سوچ کی بوسیدگی ، استحصال زدہ عورتوں کی ذہنی گھٹن اور اس دائرے سے نکل جانے کی خواہش
اور نئی نسل کے انقلابی خیالات اور اس کے افکار و اعمال سے پیدا شدہ اچھے برے نتائج کی دھمک ہمیں ان کے ذریعہ ہی سنائی دیتی ہے
لیکن ناول میں زیریں رو اسے زیادہ بامعنی بناتی ہے اور اس کے کنوس کو وسیع تر بناتی ہے۔
اس کی مثالیں اشتراکی و انقلابی ذہن رکھنے والے کرداروں سنجیوا، قیصر اور واحد حسین کے داماد حیدر علی خان میں پائی جاتی ہیں۔
ذرا آگے بڑھیں تو ہمیں تلنگانہ تحریک کا عمل دخل بھی نظر آئے گا۔ تحریک آزادی اور انگریز دشمنی کے ناقابل فراموش واقعات ملیں گے۔
جلیا نوالہ باٹ سے متعلق قتل و غارت گری کا حوالہ ملے گا ، نظام کے ایوان پر انقلابیوں کے حملے کی مکافات عمل کے نظریہ کے تحت معنویت کا ادراک ہوگا ،
ہندو مسلم فسادات اور دیگر شورشوں اور انتشار سے مملو واقعات کے پس منظر میں چھپے خوفناک چہرے نظر آئیں گے ، ہندوستان کے سیاست دانوں کا الحاق پر اصرار اتحاد بین المسلمین کی عملی کاروائیوں اور سقوط حیدر آباد دکن کا فسانہ پڑھنے کو ملے گا
اور ساتھ ہی حضور نظام کی بے عملی اور بے بسی اور نتیجے کے طور پر صدیوں کے جمے جمائے معاشرے کی بربادی اور انہدام کی آواز بھی سنائی دے گی ۔
یہ اور اس جیسے دوسرے واقعات کو جیلانی بانو نے محض بیانات کے سہارے نہیں بلکہ ایکشن کے توسط سے آشکار کیا ہے
جو کہ کامیاب فکشن کی نشانی ہوتی ہے ۔ انہوں نے اتنے بڑے سیاسی و معاشرتی واقعات کو اس تاریخیت کے وژن Vision کے زیعے ناول کا حصہ بنایا ہے جس سے متعلق نقاد جارج استائیز Georgesteiner نے کہا تھا
کہ ناول نگار اور مورخ آپس میں فرسٹ کزن ہوتے ہیں۔ خود ہمارے عہد کے فکشن کے نقاد اور ناول نگا ڈاکٹر احسن فاروقی نے بھی تو کہا تھا
کہ ناول نگار ایک سماجی مورخ ہوتا ہے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ جیلانی بانو کا سماجی شعور اپنے عہد کے المیے کو ایک خاص علاقے کے حوالے سے تاریخی شعور کے تابع کر کے دیکھتا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ ناول نگار سچائی کا اظہار کرتا ہے اور یہ سچائی ہی اس کا وژن ہوتی ہے ۔
یہی اس کی بصیرت اور گہرائی ، نظر و فکر کو ظاہر کرتی ہے۔
جیلانی بانو کے یہاں ماجرا اور اس سے جڑے ہوئے کردار جہاں واقعاتی سطح پر ایسی سچائیوں کا اظہار کرتے ہیں وہاں وہ خود بھی ایسے حقائق کی جانب اشارے کر جاتی ہیں
جو قاری کے ذہن کو گرفت میں لے لیتے ہیں ۔ مثلاً مشترکہ ہندو مسلم کلچر کا پہلو اس انداز سے سامنا آتا ہے۔
"چیچک کی وبا پھیلتی تو مسلمان عورتیں دیوی پر چڑھاوے چڑھاتی تھیں اور درگاہوں کے عرس میں ہندوؤں کی جانب سے نذروں کے خوان آتے ۔
بی بی کے علم پر مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کی جانب سے شربت کی سبیل لگتی چاندی کے چاند اور پنجے چڑھائے جاتے ۔
رمضان میں ہندوؤں کے یہاں سے مسجدوں میں افطاری بھیجی جاتی تھی۔
ریاست میں ہر مسلمان تلگو جانتا تھا۔ تمام ہندو لڑکے اردو میڈیم سے پڑھتے تھے مگر انہیں کبھی مادری زبان کی جانب سے خطرہ نظر نہیں آتا تھا
کیونکہ ابھی ان کے دلوں میں نفرت کی ایسی آگ نہیں بھڑ کی تھی جو خلوص کے ہر پھول
جلا ڈالتی۔” (1)
اس اقتباس کے آخر میں یہ کہنا کہ ابھی لوگوں کے دلوں میں شک اور نفرت کی وہ آگ نہیں بھڑکی تھی جو خلوص کے ہر پھول کو جلا ڈالتی ۔
صاف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ حیدر آباد دکن کی تہذیبی اُتھل پتھل میں خلوص کے پھول جل گئے
اور نفرتوں کا سیلاب اچھی روایات اور انسانوں کے درمیان برادار نہ تعلقات کی اقدار کو بہا لے گیا۔
اس پس منظر میں حضور نظام کے بارے میں ان کے یہ الفاظ معنویت سے بھر پور ہیں۔
"حضور نظام دنیا کو بڑی لاپرواہی سے بڑی حقارت سے دیکھتے تھے مگر خوبصورت چہرے کو دیکھتے ہی ریشہ معلمی ہو جانا ان کے خمیر
میں داخل تھا۔ ” (۲)
یہ وہ چند بڑے حقائق ہیں جن کی طرف جیلانی بانو نے بڑے فنکارانہ اشارے کئے ہیں
جن کی اشاراتی معنویت ان کے کرداروں کے اعمال Actions سے ظہور میں آتی ہے ۔
یہ سب کچھ حقیقتاً ان کی کردار نگاری کا عطیہ ہے جس کی مختصر تفصیل یہ ہے ۔ مثلاً
واحد حسین کی و ضعداری کی نئے حالات میں ہے تو قیری اور بھائی کی جائیداد ہتھیانہ پانے پر احساس محرومی اور جھنجھلاہٹ، اپنی نواسیوں چاند اور غزل کو اپنے طریقوں پر نہ چلا پانے پر شدید غصہ
اور اپنے ترقی پسند داماد حیدر علی خان کی ایک دہشت پرستانہ تحریک سے وابستہ عورت سے شادی اور دوسرے داماد ہمایوں شاہ کے لالچ اور اس کی گھناؤنی زندگی پر دانت پیس
کر رہ جانے کے حقیقت پسندانه عکاسی جو کہ ان کے کردار کو شام اودھ کے کردار نواب ذوالفقار علی خان سے جوڑ دیتا ہے۔
اسی طرح ان کے داماد ہمایوں شاہ کے جھوٹے و ریاکار باپ الحاج مسکین شاہ جو کہ چار ہمہ وقت جھگڑالو بیویوں اور اٹھارہ بچوں کے بلا شرکت غیرے مالک و مختار ہیں
کا دلچسپ بیان، تلنگانہ تحریک سے وابستہ کرداروں سنجیوا ، قیصر وغیرہ کی انقلاب بر پا کرنے کی آرزو میں اپنے آپ کو پھانسی کے ذریعے فنا کرنے یا دوسرے پر تشدد ذرائع سے ہلاک ہونے والوں کی کچی پیشکش ،
واحد حسین کی لونڈی سے بھیجے نصیر حسین کی چھچوری مگر سفاک ذہنیت کی صورت گری جس کے نتیجے میں ان کی دوسری نواسی غزل موت سے ہمکنار ہوتی ہے ۔
یہ اور تقریباً ہر خاندان میں پائی جانے والی لنگڑی پھپھو کی کردار نگاری بھی اپنی مثال آپ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ واحد حسین جو کہ دیگر کرداروں کے ظہور کا منبع و مخرج ہیں
اپنے جلو میں روز بردست کرداروں کو لیکر چلتے نظر آتے ہیں ۔ یہ دونسوانی کردار ان کی نواسیاں چاند اور غزل ہیں ۔
چاند ترقی پسند و انقلابی کردار حیدر خان کی لڑکی ہے ۔ جبکہ غزل ہمایوں شاہ سے ان کی دوسری نواسی ہے ۔
چاند اور غزل دونوں روشن خیال اور پڑھی لکھی ہیں وہ فنکارہ ہیں اور سوسائٹی کی جان ہیں
لیکن دونوں کا انجام در ناک ہے ۔ چاند پر کئی مرد فریفتہ ہوتے ہیں لیکن فرسٹریشن و آرزؤں کی پامالی اس کا مقدر ہے ۔
اسے ٹی بی ہو جاتی ہے اور اس میں دم توڑ دیتی ہے ۔ غزل کو پاکستان پاٹ کزن نصیر حسین دھوکہ دیتا ہے ۔
وہ پاکستان میں شادی کر کے جب بچوں سمیت حیدر آباد پہنچتا ہے تو غزل اپنا رد عمل ظاہر نہیں کرتی لیکن جب وہ غزل کی انگلی سے ماضی میں دی گئی انگوٹھی اتارتا ہے تو یہ عمل غزل کے لیے موت کا پیش خیمہ بن جاتا ہے ۔
دراصل یہ سب دل پر اثر کرنے والے واقعات آزادی کے بعد اپنا اثبات کرا چکے تھے ۔
یہ بھی پڑھیں: جیلانی بانو شخصیت اور خدمات
پاکستان آکر دولت و سماجی حیثیت کے ثمرات سمیٹنے والے نو دو لیتے اور جنجھوڑے والدین نے اپنے سابقہ وعدوں کے خلاف اپنی ہندوستانی رشتہ دارلڑکیوں سے خاصی بے وفائی اور اغماض کا اسلوک روا رکھا تھا۔
جیلانی بانو نے اس سنگدلانہ رجحان کو یہاں طنز کا نشانہ بنایا ہے مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان لوگوں میں ایسے بھی شامل تھے
جو آزادی سے قبل بھی زبر دست معاشی و سماجی حیثیت کے مالک تھے لیکن نئے حالات میں اپنی سابقہ اچھی اقدار کو بھلا بیٹھے تھے۔
جس کے ماجرائی حوالے جیلانی بانو کے علاوہ قرۃ العین حیدر اور دیگر چند فنکاروں کی تحریروں میں بھی ملتے ہیں۔
در اصل چاند اور غزل کے دردناک اور بے رحمانہ انجام کے حوالے سے جیلانی بانوان آرٹسٹ، روشن خیال اور سوسائٹی کی جان لڑکیوں کی حقیقی کردار نگاری کرتی نظر آتی ہیں
جو لالچی ، ہوس پرست اور بے حس مردوں کی جانب سے اکثر دھوکہ دینے والی دنیا میں اپنے اپنے خوابوں اور آرزوں کے عقوبت خانوں میں محصور نظر آتی ہیں
اور آخر میں نا آسودگی اور لا محاصلی کا عذاب سمیٹتی ہیں جو کہ ان کی حقیقی سزا ہے
سو یہ سزا چاند اور غزل بھگتنے پر مجبور ہیں ۔ پر یہ سزا تو ناول پلاٹ اسٹرکچر Plot Structure میں کئی اہم کردار تقدیر کی ، تدبیر کی اور تاریخ کی قوتوں کے ہاتھوں بھکتے ہیں
اور ناول کی ایوان غزل کی علامت اس کے اختتام پر ماضی کی ایک شاندار تہذیب کے انہدام کے استعارے میں تبدیل ہو جاتی ہے
اور یہ بتاتی ہے کہ وقت کے بے قابو و بے روک ٹوک سفر میں تہذیب کے درخت کا اپنا ایک فطری و حیاتیاتی نظام کام کرتا نظر آتا ہے
یہ بھی پڑھیں: جیلانی بانو کے ناولوں کا تجزیاتی مطالعہ
اس پر درد ناک تبدیلیوں کی خزاں بھی آتی ہے۔ اس کے پتے جھڑنے لگتے ہیں
لیکن کائنات کے اس رستاخیز میں نئے پتے دوسرے مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔
اس کے پھلوں کے ذائقے بدل جاتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ پچھلے کے مقابلے میں اگلے عہد میں یہ درخت پر سکون سا یہ فراہم نہ کر سکے
مگر زندگی رواں رہتی ہے۔ اقدار اچھی یا بری تولد ہوتی رہتی ہیں اور المیے جنم لیتے ہیں
جس کا اپنی کہانیوں والے دلچسپ اور آسان اسلوب میں کامیابی سے اظہار جیلانی بانو جیسی کہنہ مشق فنکارہ ناول میں بھی کرتی ہیں
اور قاری کو بھی اپنے ناول کے ذریعے اپنے ان تخلیقی مرحلوں کے انتقام سے مشروط حزنیہ انجام سے ابھرنے والے تزکیہ نفس Katharsis میں شریک کر لیتی ہیں ۔
اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں