مرکزی دروازے کے شمالی پہلو میں گوناگوں پھولوں سے آراستہ ایک ننھا نہایت خوبصورت بغیا اپنی شایان شان ہر آن ہر کس وناکس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتا۔ گلابِ خنداں نے رونق کو دوبالا کر رکھا تھا۔گھر کا بیرونی حصہ تو حسین تھا ہی اندرونی منظر نے بنگلے کے حسن کو چار چاند لگا رکھے تھے ۔
تمام اہل خانہ ٹی وی لاؤنج میں پرمسرت باہم گفتگو میں مگن تھے۔ تیرہ سال بعد نانو گھر جانے کی خوشخبری سن کر سبھی مارے خوشی کے آپے میں نا رہے۔ بابا نے اطلاع دی صبح نو بجے روانہ ہونگے ان شاءاللہ۔ "اک سندر شام کے بعد پہلی خوبرو صبح کا ہر شخص منتظر تھا۔”
بڑی ماں کی سب سے چہیتی بیٹی یعنی کہ میں۔۔۔ تنِ بے جاں میں جان آگئی ہو جیسے۔ حسب معمول صلوٰۃ تہجد ادا کر کے رب کا شکر ادا کیا۔
آخر کار ان نفیس لمحوں کی آمد آمد ہو ہی گئی۔ اب ہم اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ نانو کا گاؤں بے حد جمال اپنے اندر سموے ہوے تھا ایسا امی جان کی زبانی تھا۔ ہماری گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی تیزی سے اپنے سفر میں مسرور تھی۔
شان خداوندی ہے کہ ہمارے ملک پاکستان کی سر زمین میں جا بجا تجمل کے جلوے بکھرے ہوے ہیں۔ کہیں دریا، آبشاریں، سر سبز وشاداب جنگلات، لہلہاتے کھیت، میری جدہ کی قریہ بھی انہیں خوش قمست ٹکڑوں میں سے ایک ہے۔ آخرکار مقام مقصود ہمیں مرحبا کرنے لگا۔
جب ہم وہاں پہنچے تو ماما جان پہلے سے ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے، انہوں نے سامان اٹھایا، ہم ان کا تعاقب کرنے لگے اور بابا نے گاڑی پارکنگ پر لگائی۔ طبیعت میں عجیب سی سکینت نازل تھی۔ پانچ سے چھ دکانوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا بازار اور تین منٹ کی دوری پر میری حلیمہ ماں کا نیہر تھا۔
بٹلا منہ، پر نور مکھڑا، طبیعت میں شائستگی، ادھیڑعمر ،بدھمان خاتون پاؤں دھوتے زیر لب کچھ فرما رہی ہیں۔ میں نے مہذبانہ انداز سے انکی خدمت میں سلام پیش کیا۔ انہوں نے آسمان کی جانب رفع سبابہ اور کملہ شہادت میں جہر کیا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ پھولے نا سمائیں اور جھٹ سے کپکپاتے بازوؤں سے معانقہ کیا، پیشانی پر اپنے نازک ہونٹوں سے بوسہ دیا۔ یکے بعد دیگرے تمام مہمان باہم بغل گیر ہوتے گے۔
ظہر کا وقت تو رستے میں ہی داخل ہو چکا تھا۔ مرد حضرات فوراً مسجد کو چل دئیے۔ خواتین نے گھر میں اطمینان سے نماز ادا کی۔ یخ ٹھنڈے مشروب سے سیوا کی گئی۔ میری آنکھیں نانو امی کی متلاشی تھیں۔ اتنے میں لرزتی ہوئی آواز میرے کانوں سے ٹکڑائی، میں دوڑتے ہوے نانو امی سے جا لپٹی۔ انہوں نے میرا سر اپنی زانو پر رکھا اور حال احوال کہنے لگیں۔ دوران گفتگو میں نے پوچھا:آپ نے پاؤں دھوتے ہوے کیا پڑھا تھا؟۔۔ جواباً فرمایا!
"بِاسْمِ اﷲِ، اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْ قَدَمِیْ عَلَی الصِّرَاطِ يَوْمَ تَزِلُّ الْاَقْدَامُ.
’’اﷲ کے نام سے شروع، یا اﷲ! اس دن پل صراط پر مجھے ثابت قدم رکھنا جب (کچھ لوگوں کے) قدم پھسلیں گے۔‘‘
خوشی کے تاثرات میرے چہرے پر ابھرے، مجھے رشک ہونے لگا ایسی نیک بزرگ شخصیت الله کا عطیہ ہیں۔ ہم میں مشاورت طے پائی:روزانہ ایک دعا یاد کرنی ہے مجھے۔
آج موسم پر بھی رحمۃ اللہ کی برسات تھی۔خوب سہانا،نیلی نیلی بدلیوں سے سجا افق،سحاب ایسے گویا پریاں آسمان پر رقص کر رہی ہوں۔کالی گھٹائیں امنڈنے لگیں۔ ہوا میں خنکی، جو من کو تراوٹ بخشتی۔
مینہ کے قطرے مچلنے لگے کہ موتی ڈھل رہے ہیں۔ ننھی بوندوں کی بوچھاڑ میں تمام افراد نہا رہے تھے۔ صحن میں لگے پودوں:گلاب اور سمن شگفتہ کی پتیاں مسکرانے لگیں۔ فرحت کا اک اپنا ہی جذبہ ابھرا، چار سو شادمانی ہی دکھائی دینے لگی۔
جیسے لمبی جدائی کی کمی تام ہو گئی ہو۔ امی جان اور نانو اک دوسرے کو دبوچے خوشی کے آنسو رو رہی تھیں۔ یہ یادگار لمحے دل میں نقش ہورہے تھے جن سے اب تک جی لبھاتا ہے۔ بارش کے تھمتے ہی،َنہر جانے کے تذکرے چھڑنے لگے۔ بھوک کا احساس تو دور دور تک نا تھا۔
نہر اور کھیتوں کی سیر:
تنگ گلیوں سے گزرتے ہم آب جُو کی سمت روانہ تھے۔ اتفاقاً امی جان کی سہیلیوں سے ملاقات ہو گئی سب نے مصافحہ کیا۔ مختصر ترین راستہ عبور کیے ڈھلوان نما اونچائی پر سب کی رفتار میں بریک لگی۔ اول تو بڑے ماما گۓ پھر سبھی انکے سہارے پر جانے لگے۔ اس چوٹی سے زیر کاشت زمین کا ایک وسیع ترو تازہ میدان نظر آنے لگا۔ نیچے اترتے ہی دھان، مکئی اور گندم کی فصلوں نے ہمیں آفرین کہا۔
ہر ربیع حسن وجمال میں اپنی مثال آپ تھی۔ اک عجب سا منظر، پرسکون ماحول کی رنگینی،دل فریبی میں اضافہ کر رہی تھی۔ بارش نے محض ہر روح کو ہی طراوت نا بخشی بلکہ زمین کے ہر خطے کو بھی نئی زندگی عطاء کر دی ہو۔کچھ ہی دوری پر سرخ گلابوں کے کھیت جنہوں نے نہر کی زیبائش کو مزین کر رکھا تھا۔
کنارِجٌو سے یہ نظارہ مزید حسین و دل آویز لگ رہا تھا، ہر شے دھلی دھلی، نکھری نکھری سی خوب سج رہی تھی۔ نہر کے کنارے سفیدے کے قدآور درخت دیکھتے ہی یک لخت زبان پکاری:
"سب بھیگتے ہیں گھر گھر لے ماہ تا بہ ماہی
یہ رنگ کون رنگے ترے سوا الہی”
"آج بادل خوب برسا اور برس کر کھل گیا
بوٹا بوٹا، ڈالی ڈالی، پتا پتا دھل گیا”
"سفیدہ”؛؛(یوکلپٹس):
کیا سفیدہ درخت کارآمد بھی ہے یا محض نمائش کے لیے ہوتے ہیں؟۔۔
ندی کے پانی میں قدموں کو جھلاے مسرور بیٹھے ماما سے سوال کیا۔
ہر کوئی دلکش ساون سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور میں ماما کے پاس بیٹھی معلومات لینے۔
اس درخت کو انگریزی میں "یوکلپٹس” کہتے ہیں۔ ایک بڑا سیدھا تناور درخت ہے اسکی بلندی 30 سے 40 میٹر سے زائد ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اسکو "گوند”، "سفیدہ” اور "پختون علاقوں” میں "الائچی” کے نام سے پکارا جاتا ہے، لیکن "یوکلپٹس” کا مقامی گوند یا سفیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے مقامی طور پر مذکورہ درخت سے مشابہت کی بنا پر اس کو یہ نام دیے گئے ہیں۔
ماموں جان ایک ٹیچر کے ہوبہو بتاتے چلے گئےاور میں طالب علم کی حیثیت سے پرتجسس انہیں سنتی رہی۔
"فارسٹری” اور "ecology”کے ماہراور مختلف بین الاقوامی تنظیموں میں اپنی خدمات سر انجام دینے والے "ڈاکٹرغلام اکبر” نے بتایا کہ "یوکلپٹس”کو صرف مخصوص حالات اور مختص مقامات ہی پر لگا کر اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں’یوکلپٹس آسڑیلیا کا مقامی درخت ہے، اور وہاں پر بھی اسے انسانی آبادیوں اور جنگلات سے دور سیم والے علاقوں میں لگایا جاتا ہے۔ اس کی جڑیں زمین میں دور تک پھیلتی ہیں اور یہ زیر زمین پانی کے ذخائر اور چشموں کے لیے ضرر کا باعث ہے۔ پانی کو بہت تیزی سے اپنی جانب کھینچتا ہے۔جو فصلوں اور باغات کے لیے نقصان کا باعث ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اسکے پتوں میں معمولی سا زہریلا پن ہوتا ہے جبھی تو پرندے اس پر گھونسلہ نہیں بناتے اور انکے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔
” حکماء اور اطباء کی تجاویز”
"سفیدہ درخت”کے حیرت انگیز کرشمے:
(white willow) (Salix alba):
"حکیم لکھتے ہیں کہ مضافات میں عام پاے جانے والا یہ درخت اپنے اندر قدرت کے بے شمار شفا بخش جزئیات کو سمیٹے ہوے ہے۔
🌴سردرد،درد شقیقہ اور شدتِ بخار کو کم کرنے کے لیے قدرے مفید ہے۔
اسکی چھال اسپرین کی طرح دافع درد ہے۔
اس میں قدرتی طور پر سوزش و تکالیف رفع کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
مصری لوگ ہزار سالوں سے رفع بخار و درد کے لیے اسکا استعمال کر رہے ہیں۔
زکام، گلے کی سوزش، اور تنگیِ تنفس وغیرہ جیسے امراض کے شکار لوگ سفیدے کے پتے ابال کر بھاپ لیں ان شاءاللہ شفا ہو گی۔
بد ہضمی کے لیے اسکی نرم شاخوں کے 2 عدد پتے لے لینے سے نظام ہاضمہ میں بہتری آجاتی ہے۔
"سفیدے کا تیل”
یوکلپٹس آئل کے چند قطرے رومال پر چھڑک کر بار بار سونگھنے سے اگر چھینکیں بکثرت آتی ہوں اور ناک سے پتلی رطوبت بہتی ہو تو شفا دیتا ہے۔
5 بوند ایک گھونٹ پانی میں ڈال کر پی لینے سے کچھ ہی منٹس میں نزلہ، زکام جیسے امراض رفع ہو جاتے ہیں۔
چار سو الله اکبر کی صدائیں گھونجنے لگیں۔ سفیدے کی کہانی ماما کی زبانی، کا بھی اختتام ہو چکا تھا۔
دو حجرے مسجد نما مردوں اور خواتین کے لیے جدا جدا تھے،سب نے نماز عصر ادا کی۔
ندی کو دونوں اطراف سے مزروعی زمینوں نے گھیر رکھا تھا۔ اُس پار پھلوں اور میووں سے لدے باغات تھے۔ بھوک سے نڈھال گھر پہنچے، چٹ پٹے پکوانوں سے لبریز دسترخوان خیر مقدم کہہ رہا تھا۔ کھانے سے سیر ہوکر تمام افراد آرام کرنے لگے۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا۔کوئی ایسا آلہ ایجاد نا ہوا تھا،جو اسے روک سکے۔
عصر سے مغرب تک دینی حلقہ باقاعدگی سے لگتا۔دعاؤں کا بھر پور اہتمام کیا جاتا کہ اک عاصی مدینے کی یاد میں تڑپ اٹھتا۔ صبح وشام دوران وضو پڑھی جانیوالی دعاؤں کا اہتمام جاری تھا۔ آج تمام دعاؤں کی تکمیل تھی۔ میں نے کل دعائیں نانی جان کو سنائیں۔ الحمدﷲ نوک زباں پر تھیں۔
اب مبارک ساعتیں ختم ہونے کو تھیں۔ آج ہماری آخری رات تھی ننھیال میں، کہیں خوشی تو کہیں فراقِ غم بھی تھا۔ ماموں جان لیچی لاے۔ جو ہم سب کا مرغوب پھل ہے۔ یہ دیکھو اسکی بناوٹ۔گول، بیضوی اور دل کی شکل جیسا ہے۔
ممانی جان لیچی اٹھاے سب سے مخاطب ہوئیں۔ موسم گرما کا خوش ذائقہ، لذیذ اور میٹھا پھل، اسکا چھلکا آنکھوں کو خوش نما معلوم ہوتا۔ رنگت ہلکی سرخ بھوری، سفید گودا جس میں ایک گھٹلی ہے۔ اسکا پودا سدا بہار ہوتا ہے۔اس سے اچار، چٹنی، جوس مربع جات بناے جا سکتے ہیں۔ سب لیچی کے مزے لینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے چٹکلے کرتے، مان لو بڑے چھوٹے سب برابر تھے۔ صبح فجر پڑھ کر ہمیں گھر کے لیے روانہ ہونا تھا۔
سب کے چہروں پر اداسی چھائی تھی۔
ایک دوسرے سے ملتے جاتے اور روتے بھی۔
فاصلے قرب کی پہچان ہوا کرتے ہیں۔
بے سبب لوگ پریشان ہوا کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے جہاں ٹوٹ کر چاہا جاے
وہاں بچھڑنے کے امکان ہوا کرتے ہیں۔”
ان لفظوں سے خود کو تسلی بخشی اور روانہ ہو گے۔
حافظہ قاریہ بنت سرور