ناول گئودان پر ایک نظر | A Glimpse at the Novel "Gaban”
موضوعات کی فہرست
تحریر: پروفیسر آف اردو وٹسپ کمیونٹی اراکین
ناول گئودان پر ایک نظر
ناول گئودان اردو اور ہندی کے مشہور ادیب پریم چند کی آخری اور سب سے مشہور تخلیق ہے۔ یہ ناول ہندوستانی دیہی سماج کی حقیقت پسندانہ تصویر پیش کرتا ہے اور اسے اردو اور ہندی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار ہوری ایک غریب کسان ہے جو دیہی ہندوستان کی مشکلات، سماجی دباؤ، اور معاشرتی ناہمواریوں کا سامنا کرتا ہے۔ ہوری کی سب سے بڑی خواہش ایک گائے کا مالک بننا ہے، جو دیہی سماج میں خوشحالی اور مذہبی اہمیت کی علامت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گئودان کا تنقیدی مطالعہ
ہوری اپنی زندگی میں قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے، زمینداروں، بنیوں اور سماج کے دباؤ کا شکار ہوتا ہے، اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرتا ہے، اور اپنی اخلاقیات اور دیہی روایات کے درمیان جدوجہد کرتا ہے۔
پریم چند نے اپنی تحریر میں حقیقت پسندی، جذباتی گہرائی، اور سادہ زبان کا استعمال کیا ہے۔ ان کا انداز بیان دیہی زندگی کو حقیقی انداز میں پیش کرتا ہے اور قارئین کو کرداروں سے جڑنے پر مجبور کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ناول گئودان کا پلاٹ
"گئودان” صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ہندوستانی دیہی زندگی کا سماجی، ثقافتی، اور معاشی تجزیہ ہے۔ یہ ناول آج بھی ادب کے طالب علموں کے لیے یکساں طور پر دلچسپ اور فکر انگیز ہے۔
اس ناول میں سماجی کشمکش، سامراجی طاقتوں کی برتری، امیر کی طاقت اور غریب کی پریشانی کا ذکر بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
پریم چند کا ناول گئودان اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ چونکہ منشی پریم چند کا شمار اردو ادب کی ترقی پسند تحریک سے ہوتا ہے، ان کے ناولوں میں سماجی و سیاسی پہلو زیادہ نظر آتے ہیں۔
گئودان میں بھی انہوں نے ہندوستانی معاشرے کو ایک نئے انداز کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کسانوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔ ان کے رسم و رواج کو بھی ایک واضح انداز کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ منظر نگاری میں پریم چند نے اس میں ایک نیا روپ ڈالا ہے۔
گئودان پریم چند کا آخری ناول ہے جسے انہوں نے پہلے ہندی میں لکھا تھا اور بعد میں اردو میں ترجمہ کروایا تھا۔ پریم چند کے تجربات کا نچوڑ اس ناول میں اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔
گئو کے معنی گائے کے ہیں، اور دان خیرات، صدقہ کو کہتے ہیں۔ یوں گئو دان کا مطلب گائے صدقہ، خیرات کرنا ہے۔ ہندو گائے کو مقدس سمجھتے ہیں اس لئے وہ گائے کو احتراماً گئو ماتا کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مشکلات یا بیماری وغیرہ کے موقع پر خیرات یا صدقے میں گائے دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دان محصول، ٹیکس کو بھی کہتے ہیں۔
اس ناول میں ایک غریب کسان کو مجبوراً اپنی گائے کو محصول ادا کرنے کے لیے دینا پڑا، جو ان کے گھر کی تمام ضروریات کو پورا کرتی تھی۔ یہ گائے ان کے لیے بہت اہم تھی، لیکن محصول ادا کرنے کے لیے ان کو دینا پڑی۔ یوں اس ناول کا نام دونوں معنوں پر پورا اترتا ہے۔
یہ ناول منشی پریم چند کے دیگر افسانوں اور ناولوں کی طرح اس وقت کے کسانوں پر روا رکھے جانے والے مظالم سے متعلق ہے۔ انہی مظالم میں سے ایک ظلم یہ تھا کہ کسانوں کو زمین کے استعمال کے بدلے بھاری لگان (ٹیکس) ادا کرنا پڑتا تھا۔ بعض اوقات کسان محنت کرنے کے باوجود اس لگان کو ادا نہ کر سکتا تھا کیونکہ اس دور کے مہاجنوں نے سود کی لعنت سے غریب کسانوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔
اس ناول میں منشی پریم چند نے اس دور کے غریب کسانوں کو درپیش مسائل کو نہایت سادہ اسلوب میں بیان کیا ہے جو کہ انہی کا خاصہ ہے۔ وہ ناول اس انداز میں تحریر کرتے ہیں کہ قاری خود کو ناول میں موجود حالات اور کرداروں کے درمیان پاتا ہے۔ ان کا کردار نگاری کا انداز بھی نرالہ ہے۔
ان کے افسانوں اور ناولوں میں کردار غریب کسان یا نیچ ذات کے ایسے افراد ہوتے ہیں جو اس وقت کے معاشرے میں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ وہ اس دور کے شرفاء اور ایلیٹ کلاس کے لوگوں کے کرداروں کو بھی اپنے ناول کا حصہ بناتے ہیں اور ان کی غریب لوگوں سے برتاؤ اور ان کی سوچ کو اپنے ناول میں بیان کرتے ہیں۔
درحقیقت، وہ اس دور کے طبقاتی کشمکش کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ ہر دور میں موجود ہے۔ منشی پریم چند کا اسلوب ناول نگاری نئے ناول نگاروں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے افسانوں اور ناولوں میں ان کے دور کے عام کردار، سماجی و معاشی مسائل، اور اعلیٰ طبقات کے نچلے طبقے پر ہونے والے مظالم آشکار ہوتے ہیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں