ناول راجہ گدھ کا تنقیدی مطالعہ | A Critical Study of the Novel Raja Gidh
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر برکت علی
موضوعات کی فہرست
اس تحریر کے اہم مقامات:
- قیوم کے لیے یہ بڑا جذباتی لمحہ ہے وہ حقیقت کو تھوڑا تھوڑا جانے لگتا ہے اور روشن سے شادی کر کے سکون حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اچانک ایک اور بم گرتا ہے روشن حاملہ ہوتی ہے اس کا نیو کلیس افتخار ہے۔۔۔
- امتل اس بازار کی پیداوار ہے جس کے وجود سے سب بیزار ہیں۔ لیکن سب اس کے اسیر بھی ہیں۔۔۔
- حقیقتا سیمی شاہ کا معاملہ اور ہے، وہ اپنے پس منظر کی بھی امیر تھی وہ ایسے بیوروکریٹ گھرانے کی پیداوار تھی جہاں روپیہ پیسہ عزت و دولت سب کچھ تھا۔۔۔
- دوسری جانب سیمی آفتاب کو کھونے کے بعد مسوکیت Masochism یا ایزا سے مسرت حاصل کرتی ہے اس کی جذباتی شخصیت اس کی جسمانی شخصیت سے انقطاع کر لیتی ہے۔۔۔
راجہ گدھ کا تنقیدی مطالعہ
بانو قدسیہ کا ناول ‘راجہ گدھ ہمارے معاشرے میں ذات کی شکست و ریخت ، اخلاقی زوال اور بے سمتی کا آئینہ ہے۔
راجہ گدھا اس پر آشوب دور میں اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ ہماری اکثر اقدار اندر سے اس قدر سر گل چکی ہیں کہ اگر اس صورت حال میں تبدیلی کا اہتمام نہیں کیا گیا
تو معاشرہ اپنی موت سے ہمکنار ہو جائے گا جس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ انسان زبردست ارتقاء کے باوجود اپنی ذات کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہے
ماخذ تحریر: اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ مقالہ
جبکہ جبلی طور پر وہ ابدیت کی خواہش کرتا رہا ہے۔ ناول میں بانو نے انسان کی تخلیق ، اس کے ذہنی و فکری ارتقاء، اس کی جنسی نفسیات ، اس کی تہذیب اور مذہب اور تصوف کے حوالوں سے کا ئنات میں اس کے مقام سے بحث کی ہے
یہ بھی پڑھیں: بانو قدسیہ کے افسانوں کا فکری تنوع
مگر ان سب باتوں کا تانا بان وہ فکری لحاظ سے تصوف وروحانیت سے جوڑ دیتی ہیں اور اپنے ایک اہم کردار پروفیسر سہیل کی وساطت سے قاری پر یہ تاثر چھوڑتی ہیں کہ ہمارے تمام تر معاشرتی مسائل کا حل روحانیت میں پوشیدہ ہے
اور یہ کہ ہماری بد اعمالیوں اور مغربی فلسفوں نے ہماری روح پر جو زخم ڈالے ہیں ان کا علاج فرائڈ کے نسخوں میں نہیں ملے گا کیونکہ اس کا طریقہ علاج روحانیت کو انسانی ذات سے خارج کر کے وضع کیا گیا ہے !
اس تناظر میں بانو قدسیہ نظریاتی کمٹ منٹ کی ناول نگار ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں
لیکن ایک بات واضح رہے کہ بانو کے یہاں کہانی کا پورا پس منظر پاکستانی معاشرہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بانو قدسیہ شخصیت اور فن مقالہ
البتہ جب وہ اپنے نقطہ نظر کو روحانیت یا یوں کہیے کہ مذہب کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتی ہیں تو یہ پیش منظر توسیع اختیار کر کے تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
اس ناول کے تقریباً تمام اہم کردار اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم کھڑے نظر آتے ہیں۔
وہ اپنے گناہوں کی فہرست خود پیش کرتے ہیں خود ہی اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور خود منصف کا رول ادا کرتے ہیں
یہ سب علامتی کردار ہیں جو معاشرے کے مجموعی رویوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان تمام رویوں کے ڈانڈے عشق لاحاصل اور دیوانگی سے جاملتے ہیں۔
سیمی عشق لا حاصل کے آزار میں مبتلا ہے ۔ آفتاب کو وہ دیوانہ وار چاہتی ہے ایک ایسی چاہت کہ جس میں وہ اپنی شدھ بدھ گنوا بیٹھ کر بےتاب ہر جائی بن جاتا ہے۔
وہ ایک ایسا لڑکا ہے جو نہیں جانتا کہ عشق اور وفا کے زندگی میں کیا معنی ہوتے ہیں۔ وہ زندگی بھی بے مقصد گزارتا ہے جب وہ زیبا سے شادی کرتا ہے تو سیمی پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگتے ہیں
اس کی شخصیت مجروح ہو جاتی ہے۔ حقیقت اسے زبردست دچھکے لگاتی ہے اس لیے وہ تصور کی دنیا میں پناہ لیتی ہے۔
اس کی جذباتی شخصیت اس کی جسمانی شخصیت سے انقطاع کر لیتی ہے ایسے میں ایک راجہ گدھ یعنی قیوم جو کہ آفتاب ہی کی طرح اس کا کلاس فیلو ہے اسے اپنے دام میں پھنسا لیتا ہے
اور سیمی کی جذباتی شخصیت کو پرسکون بنانے کے عمل میں ملوث ہو کر اس کی جسمانی شخصیت پر قبضہ کر لیتا ہے
کہ جس کی طرف سے سیمی بے حس ہے۔ وہ سیمی کے مردار جسم پر راجہ گدھ کی طرح منڈلانے لگتا ہے اور اپنی سرشت کے اعتبار سے حرام کاری کا کھیل کھیلتا ہے۔
دوسری جانب سیمی آفتاب کو کھونے کے بعد مسوکیت Masochism یا ایزا سے مسرت حاصل کرتی ہے
لیکن یہ مسرت اسے ذلت کا احساس بھی دلاتی ہے۔ عشق لاحاصل کا یہ انجام انسانی سوچ کے اس پہلو کو نمایاں کرتا ہے جس میں شرکو خیر کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کر دیتا ہے
اور پھر معاشرہ ذلت کی گہرائیوں میں اترنا شروع ہوتا ہے اس کی منطقی وضاحت سیمی کے حوالے سے کچھ یوں پیش کی گئی ہے کہ عموماً محبت میں ناکامی کے بعد یہ لوگ اپنی ذات کی تذلیل میں مصروف ہو جاتے ہیں
جب بند سیپی سے برآمد ہونے والے آبدار موتی کو اصل خریدار نہیں ملتا تو وہ اپنا آپ ریت کے حوالے کر دیتا ہے جہاں لہروں کے ساتھ ڈلنے کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔
اس طرح یہاں پورا نقشہ معاشرہ کے بے وقعت اور بے سمت ہونے کا شاہد بن جاتا ہے دوسری طرف قیوم جو کہ خود عابدہ اور امتل سے باری باری عشق لاحاصل میں مبتلا ہوتا ہے ایک سراب کے پیچھے بھاگتا نظر آتا ہے۔
حقیقتا سیمی شاہ کا معاملہ اور ہے وہ اپنے پس منظر کی بھی امیر تھی وہ ایسے بیوروکریٹ گھرانے کی پیداوار تھی جہاں روپیہ پیسہ پیسہ عزت و دولت سب کچھ تھا
لیکن فرد کا فرد سے جذباتی و روحانی لگاؤ غائب تھا۔ سیمی ایک جگہ خود کہتی ہے:
"جہاں تک مادی مالی اور دنیاوی ساتھ ہے وہ اکٹھے ہیں لیکن وہ (باپ ) ماما کے جذباتی اور روحانی سفر میں ساتھ نہیں دیتا۔ دے نہیں سکتا غریب پایا۔ "(۱۸)
یہاں صاف طور پر انسانی ذات پر مادیت کے غلبے کی وجہ سے اس کے دولخت ہو جانےکا اشارہ ہے یہی وجہ ہے کہ سیمی شاہ حساس لڑکی ہونے کی وجہ سے ہیرا گی بن جاتی ہے
بانو قدسیہ کے ناولٹ ایک دن کا تنقیدی جائزہ | از ڈاکٹر شاہینہ یوسف
اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے خواب آور گولیاں کھانا شروع کرتی ہے پھر ایک دن خود کشی کر لیتی ہے ۔
یہ خود کشی ایک طرف اپنے پس منظر کے عذاب کو بیان کرتی ہے اور دوسری طرف اس پہلو پر زور دیتی ہے کہ عورت مرد کی ذات سے یہ ایک خاص قسم کے نیوککس یا مرکز سے مربوط ہوتی ہے
اگر اس کی ذات سے یہ مرکز خارج ہو جائے تو وہ بے چین ہو جاتی ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی پیدائش سے لے کر موت تک اس کا سفر مرکز سے متحد رہنے کا سفر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بانو قدسیہ کے ناولوں میں اقدار کی شکست و ریخت کا تحقیقی pdf
اب قیوم جبکہ عابدہ اور امقمتل کو ان کے مرکزے کی حیثیت سے پیش کرتا ہے تو دونوں کئی کئی قدم پیچھے ہٹ جاتی ہیں
کیونکہ قیوم تو ” راجہ گدھے م” کی مانند ان کی بوٹیاں نوچ رہا ہے ۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کے نیو کلیس قیوم کی ذات کی دوسری جانب ہیں دراصل عابدہ پہلے ہی شادی شدہ عورت ہے
اس کا شوہر اسے ہر طرح کی تکلیفیں پہچاتا ہے وہ تمام تکالیف محض اس لیے آتی ہے کہ اسے ایک بچہ چاہئے۔
اس مقصد کے کے لیے وہ اتنا آگے بڑھ جاتی ہے کہ قوم سے جنسی روابط قائم کرتی ہے لیکن جب قیوم یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر کے اس سے شادی کرلے تو وہ فوراً اپنے شوہر کے ساتھ وہاں سے چلی جاتی ہے ۔
یہی صورت حال امتل کے ساتھ ہے ۔ امتل اس بازار کی پیداوار ہے جس کے وجود سے سب بیزار ہیں۔ لیکن سب اس کے اسیر بھی ہیں ۔
امتل کا روگ یہ ہے کہ کوئی اسے اپنا بھی لے تو وہ ٹھکرادی جائے گی ۔ اور پھر وہ ہی بازار اس کا مقدر بنے گا لیکن لاشعوری طور پر اپنے نیوکلیس کی تلاش میں نہ معلوم کن کن لوگوں سے رابطہ پیدا کرتی ہے۔
ریڈیو کے وڈیوسروں کے قریب رہتی ہے۔ قیوم کو بھی اپنے سے جدا نہیں کرتی لیکن جب قیوم اسے اپنانے کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو وہ ایک دم اپنا دامن چھڑا لیتی ہے
کیونکہ قیوم اس کا نیوکلیس نہیں بن سکتا تھا۔ آخر کا ر وہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں موت کی نیند سو جاتی ہے۔
قیوم کے لیے یہ بڑا جذباتی لمحہ ہے وہ حقیقت کو تھوڑاتھوڑا جانے لگتا ہے اور روشن سے شادی کر کے سکون حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اچانک ایک اور بم گرتا ہے روشن حاملہ ہوتی ہے اس کا نیو کلیس افتخار ہے
جو سعودی عرب میں ہے۔ قیوم اسے افتخار کے حوالے کر کے خود علیحدہ ہو جاتا ہے۔
بانو قدسیہ نے قیوم کے روبرو دوسرا کردار پروفیسر سہیل کا تخلیق کیا ہے جو اس شعور کی علامت ہے جو تشکیک اور کنفیوژن کے راستے سے ہوتا ہوا متشکل ہوتا ہے۔
خود قیوم جسے اپنے راجہ گدھ ہونے کا شدت سے احساس ہے اور جو گناہ کے راستے سے ہوتا ہوا کسی کی تلاش کی طرف رواں ہے۔ پروفیسر سہیل کا دامن پکڑ لیتا ہے۔
قیوم کے سامنے اپنی پوری گھناؤنی زندگی ہے ۔ لیکن اپنے اطراف میں جاری وساری واقعات سے شدید طور پر متاثر ہو رہا ہے۔
اس کے اپنے اندر کا انسان بار بار پوچھتا ہے کہ ” کیا ہوگا ؟ وہ بھی سیمی شاہ کی طرح دولخت ہے۔
اور اپنی ذات کے دونوں ٹکڑوں کے اتحاد کا متمنی ہے ۔ پروفیسر سہیل جو امریکہ رہ کر آیا ہے اور جس کی نظر سے انسانی تاریخ و تہذیب گزر چکی ہے اپنے انکشاف سے چونکتا ہے اور اس پر واضح ہوتا ہے کہ قیوم یا پورا معاشرہ جن خیالات یا افکار کا اسیر ہے
وہ درآمدی ہیں اور محض مشرق ہی کے پاس اُنکے روگ کا علاج ہے : وہ کہتا ہے:
"مغرب کے پاس حرام و حلال کا تصور نہیں ہے اور میری تھیوری ہے کہ جس وقت رزق حرام جسم میں داخل ہوتا ہے تو وہ انسان کے Genes کو متاثر کرتا ہے۔
رزق حرام میں ایک قسم کی Mutivation ہوتی ہے جو خطرناک ادویات شراب اور Radiation سے بھی زیادہ مہلک ہے۔
رزق حرام سے جو Genes نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں وہ لولے لنگڑے اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ صحیح معنوں میں ان Genes کے اندر ایسی ذہنی پراگندگی پیدا ہوتی ہے
جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے
اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا پکاپڑ جاتا وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں بتاؤ میں نے یہ بات مغرب کے علم سے مستعار لی ہے کہ مشرق سے ؟ (۱۹)
پروفیسر سہیل کی یہ گفتگو یا یہ نقطہ نظر در اصل بانو قدسیہ کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ ان الفاظ میں مذہبی اور متصوفیانہ صداقت پنہاں ہے
اور قیوم ، سیمی شاہ ، امتل ، عابدہ ، روشن اور آفتاب کے انفرادی پاگل پن، مجنونانہ حرکتیں یا اعمال ایک بڑے کینوس پر منتقل ہو کر یہ بتاتے ہیں کہ فرد کا عمل اس کی تاریخ میں پنہاں ہے۔
اس کا سراغ رزق حرام اور اس سے حاصل شدہ دیوانگی میں ملے گا۔ اور یہاں واضح طور پر سے پروفیسر سہیل نے ماڈرن سائنس کو چیلنج کر دیا ہے ۔
ماڈرن سائنس دانوں نے ایسی گولیاں ایجاد کر لی ہیں جو ہر قسم کے مہلک درد کو دور کرنے کے لیے اپنے نشانے پر جا کر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن آج تک انہوں نے رزق حرام کے مادے کی منفی خصوصیات اور مہلک اثرات دریافت نہیں کئے
اور نہ انھیں اس بات کا علم ہو گا کہ رزق حلال بھی Genes پر اس طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ جس طرح رزق حرام کے اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی یہ کہ پاک رزق سے لہو میں ایسی مثبت لہریں پیدا ہوتی ہیں
جن سے روح میں کوئی مغائرت نہیں پیدا ہوتی ۔ جس وقت حلال رزق جسم میں پہنچتا ہے تو انسان رب کی ثنا کا خود بخود پابند ہو جاتا ہے
لیکن رزق حرام سے ہر جرثومہ منفی طور سے متاثر ہوتا ہے اور انسان وقت سے پہلے ٹونٹے لگتا ہے۔
یہاں جس تھیوری کو بیان کیا گیا ہے اس کا بطاہر سائنس سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا
اس لیے کہ ہمارے تصوف یا روحانی علم کا سائنس سے یا ہمارے عقیدے کے مطابق گہرا تعلق ہے۔
مشہور سائنس داں آئین اسٹائین نے ایک بار خود کہا تھا:
"Science without religion is lame and religion without science is blind "
یعنی سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی لولی اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے۔
آئین اسٹائین کے اس قول کو کون جھٹلا سکتا ہے؟ (۲۰)
اس طرح ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سائنس کے تجربات سے اگر روحانیت کے پہلوؤں کو خارج کر دیا جائے گا تو ایسی سائنس نہ صرف لنگڑی لولی ہوگی بلکہ انسان کو ہزار ہا مادی آسائش بہم پہنچانے کے بعد بھی انسان کو ذہنی سکون عطا کرنے سے قاصر رہے گی ۔
ایسی صورت میں صرف روحانیت ہی وقت سے پہلے ٹوٹنے والے انسان کا مداوا ثابت ہوگی ۔
ایک حدیث ہے ۔ "نیک آدمی کے لیے نیک کھانا ہی درست ہے۔” اسی طرح ایک واقعہ ہے کہ ایک شاعر عمرہ بن شداد اعظمی نے آنحضرات صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ایک شعر سنا یا جس کا ترجمہ ہے:
"میں بھوک میں بسر کرتار ہوں اور اس پر قائم رہوں تا کہ اپنے پیٹ کی آگ کو غلط طریقے سے روزی کما کر نہ
بجھالوں۔” (۲۱)
عنترہ بن شداد العبثی کوئی خاص پڑھا لکھا شخص نہ تھا لیکن دور جاہلبیت کا وہ ایسا شخص تھا جو لاشعوری طور سے اس امر سے واقف تھا
کہ رزق حرام تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ یہ نسلوں کی نسلیں اخلاقی طور سے تباہ کر دیتا ہے۔
اب جب کہ آئین اسٹائن نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے، بانو قدسیہ نے بڑی خوبصورتی سے مذہب پر ہمارے معاشرے اور اس کے کردار و اعمال کے حوالے سے راجہ گدھ میں اپنی نظریاتی وابستگی کا اثبات کیا ہے
اس سلسلے میں انھوں نے جابجا جنگل میں راجہ گدھ کے خلاف جو عدالت کے مناظر پیش کئے ہیں وہ ان کے مخصوص نقطہ نظر کو معنویت عطا کی ہے اس سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ کیا انسان جس کو ‘راجہ گدھ“ کے عنوان سے پکارا گیا ہے اپنی سرشت بدلنے پر قادر ہے؟ انسان میں بدی کا تصور کسی وجہ سے پیدا ہوا؟
اور انسان جو کہ ابدیت کا خواہاں ہے کیوں ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے؟ اور اس سے بڑھ کر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی موجودہ سرشت کے پیش نظر کسی طرح ابدیت حاصل کر سکتا ہے کہ نہیں ؟
اس کے لیے جنگل کی عدالت کے ایک منظر سے رجوع کرنا پڑے گا ۔ جہاں منصب سیمرغ کے روبرو کھٹ کھٹ بڑھئی بہت اہم بیان دیتا ہے:
"پہلے آقا انسان کی سرشت میں بدی نہ تھی وہ فرشتوں کی طرح نیک اور آئینے کی طرح پاک تھا
لیکن ایک دن ابلیس نے موقع پاکر اس میں جھانکا اس لمحے انسان کے اندر حق و باطل کی جنگ شروع ہوئی۔
خدا نے انسان کو موقع دیا کہ وہ اپنا آئینہ صاف کر لے اس وقت سے حق و باطل کی جنگ جاری ہے۔
جنگ کا میدان انسان ہے اللہ کی کائنات میں انسان ایسا ہے جو اپنی سرشت بدلنے پر قادر ہے اور اپنے آئینے کو صاف کر سکتا ہے۔
جیت اللہ کی ہوگی لیکن موقع ابلیس کو بھی برابر کا دیا جائے گا۔ آپ دیکھتے نہیں آقا اس جنگ کی وجہ سے انسان کی کیا حالت ہوئی
اگر وہ دیوانہ ہے تو اسی تضاد کے ہاتھوں، اور فرزانہ ہے تو اسی تضاد کی وجہ سے۔ (۲۲)
پھر راجہ گدھ کا بیان بھی اس بات کی تائید کرتا ہے۔ اس کے مطابق شروع میں وہ اپنی سرشت کے سہارے زندگی بسر کرتا تھا لیکن درخت کے نیچے ایک جوگی آیا اور اُس نے موت کو للکارا اور خدا کی طرح دائم ہونے کی صدا لگائی
اور اسی درخت سے لٹکا ہوا ملا۔ اس نے جوگی کی گرہ کھولی ۔ جوگی کا لہو اس میں اتر گیا۔ اسی وقت سے اس کی سرشت بدلی وہ موت سے ڈرنے لگا
اس کی نسلیں حرام کھانے لگیں حتیٰ کہ ان پر دیوانگی کے دورے پڑنے لگے اپنے آپ سے ڈرنے لگے اپنی نا پائیداری کا احساس ان کو کھانے لگا۔
وہ دیوانے ہو گئے ، صدا کے لیے۔ نا پائیدار زندگی میں ہمیشہ کی بقا ڈھونڈ نے لگے۔
دائرہ شروع میں عشق لا حاصل سے جو بات شروع ہوئی تھی اس کا ناطہ یہاں بانو قدسیہ نے بے نام جستجو سے جوڑ دیا ہے۔
اپنی نا پائیداری کا احساس اس کے ساتھ ابدیت کی خواہش ۔ یہ بھی دیوانگی کا حصہ بن گئی۔ انسان نے اپنی دیوانگی کے تحت مسلسل نئے سوالوں کے ناتسلی بخش جواب حاصل کئے جس سے اس میں احساس محرومی ، دینی کنفیوژن اور فکری کج روی پیدا ہونے لگی۔
بے نام جستجو نے اس کی دیوانگی کو نقطہ عروج پر پہنچا دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بانو انسانی جستجو کے سیکولر Secular نظریئے سے اختلاف کرتی نظر آتی ہیں۔
کیونکہ جستجو کا دائرہ روحانیت کے پلیٹ فارم سے جتنا دور ہوتا چلا جائے گا اس کے اثرات اتنے ہی خراب ہوں گے۔
مثلاً سائنس کی اسلحہ کے ذیل میں ہولناک ایجادات نے انسان کے مستقبل کو قطعاً تاریک بنا دیا ہے ۔
حجاب امتیاز علی نے اپنے ناول ‘ پاگل خانہ” میں سائنسی تجربات کے حوالے سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ایک بڑی ایٹمی جنگ ہی ایسی قیامت کو جنم دے گی جس کا ہمارے مذہب میں تذکرہ موجود ہے۔
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ بانو قدسیہ جستجو کو پابند بنانا چاہتی ہیں۔ وہ جستجو کو روحانیت کا لباس پہنانا چاہتی ہیں تا کہ انسان کے جستجو کے نتائج اس کے حق میں بہتر ثابت ہوں
تا کہ وہ جو آج زمان و مکان کی چھتری تلے حقیر شے بن کر رہ گیا ہے با مقصد جستجو کے ذریعے اپنے قد کو زمان و مکان سے بلند ہو کر کے ابدیت حاصل کرلے ۔
ہمارے یہاں تصوف بھی اسی نکتے کو بیان کرتا ہے۔ پروفیسر سہیل ناول کے آخری صفحات میں قیوم سے کہتا ہے
"پہلے انسان اپنی تلاش کرتا تھایا خدا کی ۔ اس کی جستجو بے نام نہیں ہوتی تھی۔
اب آج کا ماڈرن انسان یہ بھی نہیں جانتا کہ آخر ا سے تلاش کس چیز کی ہے؟ پھر وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ کہیں کوئی سادہ سا علاج ہے جو اسے سکون دے سکتا ہے۔ (۲۳)
وہ قیوم پر پیغمبروں کی زندگی واضح کرتا ہے جو بڑے بڑے مشن لے کر اس دنیا میں آئے ۔
بڑی سے بڑی ٹریجڈی ان کو اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکی۔ یعنی یہ کہ انسان کی جستجو بے نام اور تلاش بے مصرف نہ ہو۔
زندگی میں ایک مشن ہونا چاہیے چاہے چھوٹا ہو کہ بڑا۔ اس کا یہ مشورہ نہ آج کے انسانی اعمال کے برعکس ہے ۔
یہاں اس کا رویہ گھٹیا و پست قسم کے فوائد پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر وہ مکر اور حیلہ جوئی سے کماتا ہے بھائی کا حق غصب کرتا ہے۔ اپنوں کی دشمنی میں غیروں سے مل جاتا ہے
ہر آنے والے مال کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بانٹ کر نہیں کھاتا بلکہ چھین کر کھاتا ہے اور حرام روزی کمانے کے لیے اس کو اتنے گر آتے ہیں کہ جتنے طریقے چیل کو گھونسلے بنانے کے آتے ہیں۔
پروفیسر سہیل کا نقطہ نظر بڑا اہم ہے ۔ مثلا یہ کہ انسان پہلے یا تو خود اپنی تلاش کرتا تھایا اپنے خدا کی ۔
لیکن صورت حال یہ ہے کہ آج نہ تو وہ اپنی تلاش کر پاتا ہے اور نہ خدا کی ۔ کیوں کہ وہ جس قسم کی دیوانگی اور عشق لاحاصل کے قریب میں مبتلا ہے
انھوں نے اسے بے سمتی ، اخلاقی پستی اور گناہ کی شاہراہ پر دھکیل دیا ہے جہاں اس کی مراجعت ضروری ہے ۔
پر یہ مراجعت اس وقت اپنا دائرہ مکمل کر سکے گی جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ انسان ایک مادی حقیقت کے ساتھ ساتھ روحانی حقیقت ہے
اور جب روحانی حقیقت والے نظریئے کو تسلیم کر لیا جائے گا تو پھر اس نظریئے کو بھی تسلیم کیا جائے گا کہ انسان کی زخمی روح کا علاج بھی روحانیت میں ملتا ہے ۔
اصل ناول میں دوقسم کے دیوانے پن کا تذکرہ ہے ۔ ایک دیوانگی وہ ہے جو جسم کو لاغر نحیف کرنے کے علاوہ روح کو لنگر الولا کر دیتی ہے
اور دوسری دیوانگی مثبت یعنی اکل حلال کی جانب رغبت اور رب کی ثنا ہے جس سے روح میں توانائی آتی ہے
اور وہ ایک ہی جست میں کئی کئی منزلیں پار کرتی ہے۔ روح کا ایک ہی جست میں کئی کئی منزلیں پار کرنا بانو قدسیہ کے مخصوص نقطہ نظر کو مستحکم کرتا ہے
اور اس پر ان کی کہانی کی اساس ہے ۔ آخر میں قیوم آفتاب کی سمت بدلنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ وہ اپنے ابنارمل بچے افراہیم کو ماہر نفسیات کے کلنک میں علاج کے لیے لاتا ہے ۔
یہاں یہ ابنارمل یا مافوق العادت بچہ ناول میں ایک اور بعد یا Dimension کا اضافہ کرتا ہے۔
جس سے وہ تمام بحث تکمیل کا درجہ حاصل کر لیتی ہے جو آغاز سے آخر تک کرداروں کے حوالے سے سامنے آتی ہے ۔
آفتاب سوچتا ہے کیا کبھی اس کے آباؤ اجداد نے رزق حرام سے اپنے آپ کو آلودہ کیا تھا کہ افراہیم اس کی سزا بن کر اس کے مقابل کھڑا ہو گیا ہے؟
بانو کے نزدیک یہ بچہ ہمارے بگڑے معاشرہ کی شکل کے طور سے آیا ہے جو ایک منفی دیوانگی سے مثبت دیوانگی کی جانب جست لگانے کے لیے بے تاب ہے۔
وہ اپنی دیوانگی میں چیخ اُٹھتا ہے۔ابو آپ کو نظر نہیں آتا وہ گمند ۔ اس کے Dome کے نیچے چودہ طاق ایک طرف اور دیکھئے وہ کبوتر اڑ رہے ہیں۔ مدینے کی سڑکوں پر لوگ بھاگ رہے ہیں اس گنبد کی طرف۔ روی ، امریکی افریقی اذان ہو رہی ہے ابو . (۲۴)
ابنارمل افراہیم کچھ دیر کا نپتا ہے اور پھر منہ کے بل سجدے میں گر جاتا ہے ۔ اس طرح افراہیم خوابوں کی آخری سیڑھی پر سر بسجود ہو گیا۔
بانو قدسیہ کا ناول بھی ان خوابوں کی بازیافت کرتا ہے جو ہمارے معاشرہ کے ہیں انہیں عالمگیر سطح پر ذہنی و روحانی سکون سے عاری لوگ بھی دیکھا کرتے ہیں ۔
بانو اپنی اپروچ Approach میں صاف طور سے کمٹیڈ Committed نظر آتی ہیں ۔ ایک ایسا کمٹ میرٹ جو ان کی امید پرستی میں مرتکز ہے۔ خواب خود امید کا حصہ ہوتے ہیں۔ انسان کا حال لاکھ خراب سہی وہ مستقبل میں سکون کی تمنا یا آرزو کرتا ہے۔
مشہور انگریزی شاعر ایکرہ نڈر پوپ Pope کا مشہور مصرعہ ہے۔
"Man Never is but always to be blest” (25)
اور اس مصرعہ میں یہ ہی نکتہ پوشیدہ ہے ۔ اس طرح یہ ناول ہماری اپنی دھرتی کا وہ ناول ٹھہرتا ہے جس میں ہم زمینی جڑیں Roots تلاش کرنے کے بجائے اپنی روحانی جڑیں تلاش کرتے ہیں اور اس سے ہم آہنگ ہونے کی جستجو رکھتے ہیں۔ خاص طور سے تصوف اور روحانیت کے حوالے سے یہ ناول ایک جرأت مندانہ مہم جوئی ہے
اور اپنی ذات میں اور ریجنل بھی کیونکہ اس میں ایک بیمار معاشرے کی منظر کشی کے ساتھ ساتھ نظریاتی کمٹ مینٹ بھی ہے۔
جس کے ڈانڈے سیکولر خیالات کے مقابلے میں ہماری اپنی روحانی جڑوں سے اتصال کرتے ہیں ۔
اس پر بہت سے ناقدین کو اعتراض ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارا اب تک کا ذہن یہ رہا ہے کہ ادب میں روحانیت کو گائیڈ لائن Guidline کی حیثیت سے نہ برتا جائے بلکہ سیکولر نقطہ نظر کی ترویج کی جائے اور انسان کی فکری کج روی کو مادیت پرستی ہی کے حوالہ سے پہچانا جائے
اور مادیت پرستی ہی کے حوالہ سے انسان کے دکھوں کے سد باب کا سراغ لگایا جائے مگر بانو قدسیہ نے اپنے ذاتی وژن Vision کی عکاسی کے لیے ناول کو بہتر طور سے ذریعہ بنایا ہے
جو کہ اچھی بات ہے۔ بانو نے جس انداز سے کہانی کے سفر کو عشق لاحاصل ، لا متناہی تجسس منفی دیوانگی اور مثبت دیوانگی کی منزلوں سے گزار ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے۔
خاص طور سے ناول کے پلاٹ کو انہوں نے جس طرح جنگل کی عدالت اور انسانوں کی کہانی میں منقسم کیا ہے اس نے ان کے نظریاتی کمٹ مینٹ کی معنویت کو خاصا اجاگر کیا ہے ۔
ہمارے پرانے ادب میں حکایات کے حوالے سے انسانوں کے مجموعی رویوں کی عکاسی کی گئی ہے اور اخلاقی اقدار اور روحانیت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے بانو نے بھی یہی پیرا یہ اختیار کیا ہے۔
ایک سطح پر وہ اپنے کرداروں کو مشق لا حاصل ، دیوانگی اور گناہ کے جوہر میں پھنسا ہوا دکھاتی ہیں تو دوسری سطح پر وہ انسان کے جاگتے ضمیر کی عکاسی اور روز ازل سے لے کر آج تک کی ارتقائی کہانی بیان کر جاتی ہے
جسے انھوں نے حیات اور موت کی علامتوں کی مدد سے جاذبیت بخشتی ہے ، مغرب میں بھی لوگوں نے اسی اسٹائیل Style کو اپنایا ہے جن میں جانور اور پرندوں کو سب پلاٹ Sub-Plot کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے
ان کے یہاں سوچ کا کینولیس وسیع اور ابعادی Dimensional ای لے ہے کہ کرداروں کے افعال چھوٹی سطح سے اٹھ کر بڑی سطح پر برے جارہے ہیں
جس میں انسان کی پوری داستان روز ازل سے لے کر جدید دور تک موجود ہے۔ پھر میدان ہستی میں خیر و شر کے حوالے سے انسان کی شرکت مختلف نظریات ،
مادیت کا عروج ، اخلاقی زال اور اس کے داخلی انتشار اور خود غرضانہ اقدار کے مقابلے میں روحانیت پر مبنی اقدار کی جستجو ہر لحاظ سے ایسا کینویں بناتی ہے
جس میں ماضی اور حال سب سمٹ آتا ہے اس لحاظ سے راجہ گدھ کو ایک شاہ کار ناول قرار دے سکتے ہیں۔