2024 اگست

نظم خلش از سانول رمضان

آرزو تھی کہ ترے در پہ کبھی آؤں میںمن میں امید لیے، ہاتھ میں کشکول لیےجن کو بنتے ہوئے اک عمر لگی ہے مجھ کوان سبھی خوابوں خیالوں کا کوئی غول لیےپر مرے پاؤں میں حالات کی زنجیریں تھیںمیرے خوابوں کی مرے سامنے تعبیریں تھیںان سے کس طور میں منہ پھیر کے جا سکتا تھااور

اردو شاعری, ,

کوئی تو غور سے سنتا ہے داستاں اپنی، ہماری اور بھی کچھ کھڑکیاں کھلی ہوئی ہیں | سانول رمضان

دلوں کے بیچ یونہی دوریاں بنی ہوئی ہیںہمارے ہونٹوں پہ اب پپڑیاں جمی ہوئی ہیں ضرور گل سے کوئی ہاتھ کر گیا ہو گاکہ زیر- نخل کئی پتیاں گری ہوئی ہیں یہ انتظام کسی خاص کے لیے تو نہیںکواڑ بند ہیں اور بتیاں بجھی ہوئی ہیں ہم ایسے خانہ بدوشوں کو بھی ٹھکانہ ملاکہ اپنے

اردو شاعری
جھوٹے روپ کے درشن

جھوٹے روپ کے درشن راجہ انور | تبصرہ از سانول رمضان

” سارے نابالغ ایک سائیڈ پر ہو جائیں اور کان پکڑ لیں!”یہ فقرہ ہم سب کے لیے عجیب تھا، ہمیں بلوغت کی دیواریں عبور کیے مدت ہو چکی تھی۔لہذا ہم سامنے کھڑے ڈشکرے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ ڈشکرے نے شیطانی قہقہہ لگایا اور کہا "جس جس نے ‘ جھوٹے روپ کے درشن ‘ پڑھی

دیگر تنقیدی مضامین اور جائزے, ,