غزل ہم فقیروں کا جو رکھ لو گے بھرم، آتے ہیں

ہم فقیروں کا جو رکھ لو گے بھرم، آتے ہیں

  • ہم فقیروں کا جو رکھ لو گے بھرم، آتے ہیں
  • حرف یہ کہتے ہوئے زیر قلم آتے ہیں
  • اور تو کچھ نہیں آتا ہے جوابی خط میں
  • میرے بھیجے ہوئے اوراق ہی نم آتے ہیں
  • مہوشو! آو کوئی بزم سجائیں پھر سے
  • ” سوئے میخانہ سفیران حرم آتے ہیں "
  • جو ترے غم سے بہلنے کو غنیمت جانیں
  • ان کے حصے میں کہاں لوح وقلم آتے ہیں
  • اے مرے قاصد من! خیر تو ہے، کچھ تو بتا
  • وہ کئی دن سے مرے خواب میں کم آتے ہیں
  • ڈھونڈنے پر بھی نہیں آج تلک مل پائے
  • جو مجھے کہہ کے گئے تھے ابھی ہم آتے ہیں
  • بات منوانے میں سانول° ابھی پختہ نہیں تو
  • لفظ در لفظ تری بات میں خم آتے ہیں

✍ سانول° رمضان

M Sanwal Ramzan

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں