ہم فقیروں کا جو رکھ لو گے بھرم، آتے ہیں
- ہم فقیروں کا جو رکھ لو گے بھرم، آتے ہیں
- حرف یہ کہتے ہوئے زیر قلم آتے ہیں
- اور تو کچھ نہیں آتا ہے جوابی خط میں
- میرے بھیجے ہوئے اوراق ہی نم آتے ہیں
- مہوشو! آو کوئی بزم سجائیں پھر سے
- ” سوئے میخانہ سفیران حرم آتے ہیں "
- جو ترے غم سے بہلنے کو غنیمت جانیں
- ان کے حصے میں کہاں لوح وقلم آتے ہیں
- اے مرے قاصد من! خیر تو ہے، کچھ تو بتا
- وہ کئی دن سے مرے خواب میں کم آتے ہیں
- ڈھونڈنے پر بھی نہیں آج تلک مل پائے
- جو مجھے کہہ کے گئے تھے ابھی ہم آتے ہیں
- بات منوانے میں سانول° ابھی پختہ نہیں تو
- لفظ در لفظ تری بات میں خم آتے ہیں
✍ سانول° رمضان
M Sanwal Ramzan