ڈراما اندر سبھا کا خلاصہ اور اندر سبھا کا تنقیدی جائزہ

ڈراما اندر سبھا کا خلاصہ اور اندر سبھا کا تنقیدی جائزہ

ڈراما اندر سبھا کا خلاصہ

اندر سبھا کا خلاصہ:اندر سبھا کا قصہ یوں بیان ہوتا ہے کہ راجہ اندر کی سبھا منعقد ہوتی ہے۔

راجہ اندر سبھا میں آنے کے بعد پریوں کو گانے اور رقص کرنے کا حکم دیتا ہے چنانچہ پکھراج پری نیلم پری اور لال پری باری باری آکر مختلف چیزیں گانے اور ناچنے کے بعد راجہ کی بغل میں کرسی پر بیٹھ جاتی ہیں ۔

آخر میں سبز پری سبھا میں گانے آتی ہے تو راجہ کو نیند آجاتی ہے اور وہ اپنے تخت پر سوار ہو جاتا ہے۔

سبز پری اب باغ میں جا کر کالے دیوے گلفام کو اٹھا لانے کو کہتی ہے جسے راستے میں اختر نگر کے لال محل کی چھت پر سوتا ہوا دیکھ کر اس پر عاشق ہوگئی تھی اور اپنا سر نگوں کا املا اسے پہنا آئی تھی ۔ کالا دیو اسے سوتا ہوا اٹھا لاتا ہے۔

سبز پری جب نیند سے اسے جگاتی ہے تو جاگنے کے بعد اجنبی لوگ اور اجنبی مقام کو دیکھ کر گلفام بہت گھبراتا ہے۔ سبز پری اسے تسلی دیتی ہے۔

ایک دوسرے کا تعارف ہوتا ہے تو سبز پری اسے بتاتی ہے کہ راجہ اندر کی سبھا میں ناچنا گا نا اس کا کام ہے۔ پھر اظہار عشق کرتی ہے۔ شہزادہ گلفام اس کے عشق کو اس شرط پر قبول کرنے کو تیار ہوتا ہے کہ وہ اسے اندر کی سبھا دکھا لائے جس کا اس نے دنیا میں بہت نام سنا ہے ۔

سبز پری وہاں کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے وہاں جانے سے منع کرتی ہے۔ لیکن شہزادہ ضد کرتا ہے یہاں تک کہ گلا کاٹ کر مر جانے کی دھمکی دیتا ہے۔ آخر کار سبز پری مجبور ہو کر اسے اندر کی سبھا لے جاتی ہے۔ وہاں سبز پری سب کی آنکھ بچا کر اسے پیڑوں کی آڑ میں چھپا دیتی ہے اور خود اپنے گانے میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اتفا لال دیو گلفام کو پیڑوں کی آڑ میں چھپا ہوا دیکھ لیتا ہے۔

راجہ کو خبر کرتا ہے وہ بہت غضبناک ہوتا ہے کیونکہ پرستان میں انسان نہیں آسکتا۔ ساری حقیقت معلوم کر لینے کے بعد گلفام کو قاف کے اندھے کنویں میں قید کرنے اور سبز پری کو بال و پر نوچ کر سبھا سے نکال دیے جانے کا حکم دیتا ہے۔

سبھا سے نکالے جانے کے بعد مسبز پری جوگن کا بیس بنا کر گلفام کی تلاش میں ادھر ادھر درد بھری گیت گاتی ہوئی بھٹکتی پھرتی ہے۔

کالا دیو راجہ اندر کو خبر دیتا ہے کہ پرستان میں ایک جوگن آئی ہے جو حسن و جمال میں یکتا ہونے کے ساتھ ساتھ گانے میں بھی بے مثال ہے۔ گانوں کا رسیا راجہ اندر سے فوراً سبھا میں لانے کا حکم دیتا ہے۔ وہاں راجہ کی فرمائش پر وہ گانا سناتی ہے۔

راجہ خوش ہو کر اسے گلوریاں دیتا ہے جسے لینے سے انکار کر کے وہ دوسرا گانا شروع کر دیتی ہے۔ راجہ پھر اسے ہار دیتا ہے ۔ وہ اپنا منہ مانگا انعام چاہتی ہے ۔ راجہ منہ مانگا انعام دینے کا وعدہ کر لیتا ہے تبھی جو گی گلفام کو مانگ لیتی ہے ۔

اب راجہ پہچانتا ہے کہ یہ تو سبز پری ہے۔ اپنی غلطی پر پچھتاتا ہے لیکن وعدہ کر لینے کی وجہ سے گلفام کو سبز پری کے حوالے کرنے کا حکم دیتا ہے ۔

کالا دیو گلفام کو کنویں سے نکال کر سبز پری کے حوالے کرتا ہے۔ پھر سبز پری گلفام کے گلے میں با ہیں ڈال کر اور تمام پریوں کو ساتھ لے کر مبارک باد گاتی ہے اور یہیں ڈراما ختم ہو جاتا ہے ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: اردو ڈرامہ نگاری بنیاد مباحث

ڈراما اندر سبھا کا تنقیدی جائزہ

اندر سبھا1852-آغا حسن امانت لکھنوی نے حاجی مرزا عا بدعلی عبادت کی فرمائش پر ایک منظوم ڈراما اندر سبھا کے نام سے 1268ھ مطابق 1852 کو واجد علی شاہ کے عہد میں لکھا۔

ڈراما اندر سبھا پہلی بار 1270ھ بمطابق 1854 میں کھیلا گیا یعنی اسٹیج پر پیش کیا گیا۔

اندر سبھا پہلی بار 1271ھ مطابق 1855 میں شیخ رجب علی کی فرمائش پر مطبع محمدی لکھنوی میں شائع ہوا۔ناقدین نے اندر سبھا کو اردو کا پہلا باضابطہ ڈراما تسلیم کیا ہے ۔

اندر سبھا ایک مکمل منظوم ڈراما ہے جس کے مکالمے بھی منظوم ہیں ۔

اس تمام نظم کو اس دور کی مقبول عام راگ راگنیوں میں ادا کیا گیا ہے۔

اندر سبھا کے جواب میں کئی اندر سبھائیں لکھی گئی ہیں حالانکہ ڈرامے کے نام کے طور پر سب سے پہلے لفظ اندر سبھا کا استعمال آغا حسن امانت لکھنوی نے اپنے اس ڈرامے کے نام کے لیے کیا تھا۔

بعد میں ہر ڈرامے کو اندر سبھا کہا جانے لگا تھا۔اندر سبھا میں پندرہ گیت ہیں۔

ڈاکٹر مسیح الزماں نے لکھا ہے کہ اندر سبھا جب لکھنو میں کھیلا گئی تو لوگوں نے اس نئی چیز کو بہت پسند کیا۔ ہر طرف اس کا چرچا ہونے لگا۔

اس نے ہمارے ڈرامائی ادب کو اسٹیج کا راستہ دکھایا اور وقت کی شاہراہ پر ایسی مشعل جلائی جس کی روشنی میں اردو ڈرامے اور تھیٹر کا کارواں چل پڑا۔

آغا حسن امانت کے اس ڈرامے میں اندر کی سبھا کا تصور جو اس کہانی کا بنیادی تصور ہے اور جس پر پورا قصہ تعمیر ہوا ہے ہندو دیو مالا سے لیا گیا ہے جو اس وقت عوامی قصے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔

ڈراما اندر سبھا میں سبز پری کی آمد کے بعد جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں (سوائے جو گن والے قصے کے ) زیادہ تر مثنوی سحر البیان اور گلزارنسیم، میں مل جاتے ہیں ۔

امانت نے اپنی اندر سبھا کا قصہ مثنویوں، داستانوں اور اس وقت کے مروج عوامی قصے کہانیوں سے لیا ہے۔اندر سبھا کا پلاٹ اکہرا اور سادہ ہے۔

کرداروں کی پہچان:

اندر سبھا میں کل آٹھ کردار ہیں جن میں چار پر یوں کے کردار ہیں۔ راجہ اندر سبھا منعقد کرتا ہے اور جس کے سبھا میں پریاں رقص کرتی ہیں۔

گلفام جس پر سبز پری اختر نگر کے لال محل کی چھت پر سوتا ہوا د یکھ کر عاشق ہوگئی تھی ۔ سبز پری، راجہ اندر کی سبھا کی رقاصہ اور گلفام کی معشوقہ ہے جو گلفام کے لیے جو گن بن کر درد بھرے گیت گاتی بھٹکتی رہتی ہے۔

سبز پری کا کردار تمام پریوں میں سب سے اہم ہے۔پکھراج پری نیلم پری ، لال پری، یہ تینوں بھی راجہ اندر کی سبھا کی رقاصائیں ہیں ۔کالادیو جو سبز پری کے کہنے پر گلفام کو سوتے میں اٹھا لاتا ہے۔لال دیو جو راجہ اندر کو گلفام کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہاں ایک انسان آگیا ہے۔

اندر سبھا کے متعلق مختلف آرا و خیالات

امانت نے اس خلا کو اس طرح پر کر دیا کہ گویا اس وقت ڈراما کی دیوی جاگ اٹھی اور بہت سے دوسرے شاعروں نے امانت کی تقلید میں اندر سبھائیں لکھیں ۔

(احتشام حسین )

اندر سبھا ہندوستانی ناٹک کی بے روایت کی انگڑائی تھی اور راجہ گوپی چند مغربی ذوق کی تقلید تھی۔

(احتشام حسین)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں