مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

پیشہ توسیہ گری بھلا کا تنقیدی جائزہ

تحریر از ڈاکٹر تحسین فاطمہ
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا: 9 اگست 2025

مقالہ نگار کا تعارف

ڈاکٹر تحسین فاطمہ ایک سنجیدہ، باریک بین اور باصلاحیت محقق ہیں جنہوں نے اردو ادب، بالخصوص تنقید کے میدان میں نمایاں علمی خدمات انجام دی ہیں۔

ان کا تحقیقی و تنقیدی انداز منفرد اور مدلل ہے، جو علمی معیار اور ادبی نزاکتوں کو یکجا کرتا ہے۔ بطور محققہ، وہ نہ صرف موضوع کے تہہ در تہہ پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں مہارت رکھتی ہیں بلکہ قاری کو فکری طور پر مائل بھی کرتی ہیں۔

ان کی تحقیق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو میں پروفیسر ڈاکٹر عزیزہ پروین کی نگرانی میں مکمل ہوئی، جو علمی تحقیق میں ایک معتبر نام ہیں۔


پیشہ توسیہ گری بھلا (١٩٩٠ء)

یہ کتاب آٹھ متنوع موضوعات پر مشتمل ہے جسے گجرات اردو اکادمی گاندھی نگر نے اکتوبر ١٩٩٠ء میں زیور طباعت سے آراستہ کیا۔

کتاب ٢٥٤ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا انتساب بھی محمد علوی کے نام ہے اور اس مجموعے کا آخری مضمون بھی "محمد علوی کی شاعری” ہے۔

اس کا پیش لفظ وہی ہے جو وارث علوی کے سابقہ مجموعے "کچھ بچا لایا ہوں” میں شامل ہے اور سیکرٹری گجرات اکادمی ڈاکٹر ہسویاکنگ کا لکھا ہوا ہے۔

اس مجموعے میں بھی تنقید کے منفی اور مدرسانہ انداز کی مذمت کے ساتھ ساتھ ناول اور شاعری پر عملی تنقید بھی شامل ہے۔

مدرجہ ذیل مضامین اس مجموعے میں شامل ہیں:

پیشہ توسپہ گری بھلا
پیروی مغربی
قصہ قدیم و جدید
آئیڈیا لوجی کا مسئلہ
اوان گارد
شعر مرا بہ مدرسہ کہ برد
خواجہ احمد عباس کا ناول "انقلاب”
محمد علوی کی شاعری

منفرد طرز نگارش کی حامل وارث علوی کی یہ کتاب "پیشہ تو سپہ گری کا بھلا” آٹھ مضامین پر مشتمل ہے۔

شاعر اور ادیب اپنا فن بہ طور ٹول یعنی اوزار استعمال کر کے معاشرے کے منفی رویوں کے خلاف سپہ گری کرتے ہیں۔

مغرب کی پیروی کے ضمن میں علوی صاحب مغرب سے استفادہ کے قائل ہیں لیکن نقالی کے نہیں۔ یقینا نقالی فن کے لیے موت ہے۔

مغربی تنقید سے کسب فیض کرنا بری بات نہیں بلکہ اس سے نقاد کی شخصیت میں کشادگی اور وسیع نظری پیدا ہوتی ہے۔

"قصہ قدیم و جدید” میں وارث علوی قدیم و جدید ادب کے بارے میں ان سے پوچھے گئے سات سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔

وارث علوی کے خیال میں قدیم و جدید ادب دونوں کی اہمیت برقرار رہے گی۔ بڑے ادیب وہ ہوتے ہیں ماضی کے اقدار اور ادب کے باوجود ان کی مکمل پیروی نہیں کرتے۔

موجودہ تعلیمی صورت حال کو علوی صاحب نے اپنے مضمون "شعر مرا مدرسہ کے برد” میں بیان کیا ہے۔

تحصیل علم کے مقاصد، تعلیمی اداروں کے نصاب اور تعلیمی طریقوں پر سیر حاصل گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وارث علوی نقاد اور ماہر تعلیم بھی ہیں۔

وارث علوی نے کتاب میں شامل ایک مضمون میں خواجہ احمد عباس کے ناول "انقلاب” پر تبصرہ کیا ہے۔

یہ ناول تحریک آزادی کے پس منظر میں انسان دوستی کا مواد لیے ہوئے ہے۔ فنی اعتبار سے یہ قابل قدر ناول شمار نہیں ہوتا۔


حوالہ جات

مقالے کا عنوان: وارث علوی بطور نقاد
محقق: ڈاکٹر تحسین فاطمہ
نگران: پروفیسر ڈاکٹر عزیزہ پروین
یونیورسٹی: شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
سال: 2019
صفحات:
پروف ریڈنگ تحریر ماخوذ ہونے کے بعد: آینزہ سلیم بی ایس اردو ادب 7سمسٹر


اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں