پنجابی زبان کی تاریخ
موضوع پنجابی زبان کی تاریخ کا تعارف ، قدیم زمانے میں جس علاقے کو سپت سندھو یا بیت ہندو کہا جاتا تھا ، پنجاب بھی اسی میں شامل تھا۔
موضوعات کی فہرست
یہ علاقہ وہی ہے جہاں آریہ لوگوں نے وسط ایشیا سے آکر اپنی مقدس کتاب ، وید مرتب کی۔
ایک زمانہ تھا جب اس علاقے کی تاریخ انھی آریہ لوگوں سے شروع کی جاتی تھی اور اس حوالے سے اس خطے کی زبانوں پر بھی انھی یعنی آریاؤں کی حکمرانی مانی جاتی تھی
جس کے نتیجے میں سنسکرت کو پنجابی کا ماخذ تصور کیا جاتا تھا مگر جدید دور کے آغاز میں ہڑپہ، کوٹ ڈیجی ( پنجاب ) ، موہنجو دڑو ( سندھ ) نال ( بلوچستان ) وغیرہ کی کھدائی کے بعد یہاں سے قدیم تہذیبوں کے جو آثار نمودار ہوئے انھوں نے اس نظریے کو باطل قرار دے دیا ہے۔
اب یہ نظریہ یقین کی حد تک مانا جانے لگا ہے کہ آر یہ قبائل کی آمد سے پہلے یہاں جو تہذیبیں آباد تھیں اور جو تقریبا 5 ہزار سال قدیم تھیں ان میں خصوصاً ہڑپائی اور دراوڑی ، ترقی یافتہ تہذیب سے ہوا اور انھوں نے یہاں کی تہذیب پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے خاصا اثر قبول بھی کیا۔
یہی اصول زبانوں کے معاملے میں بھی کار فرما رہا لیکن یہ لوگ چونکہ پنجاب میں آ کر آگے گنگا جمنا کے علاقے کی طرف جاتے رہے ( یعنی پنجاب کے مقامی لوگوں نے ان کو یہاں ٹھہر نے نہیں دیا اور آگے کی طرف بھگا دیا ، اس لیے جو آریہ یہاں رہ گئے وہ تعداد میں کم تھے
جس کے باعث ان کی زبان نے مقامی زبانوں کو کم متاثر کیا۔
اب آئیے ان نظری باتوں کی عملی صورت کو دیکھتے ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق آر یہ قبائل اس حصے میں 1500 سے 2500 قبل مسیح کے دوران وارد ہوئے اور یہ سلسلہ ایک ہزار برس تک چلتا رہا۔
اس ایک ہزار برس میں انھوں نے چار وید مرتب کیے ۔ جن زبان میں آریاؤں نے وید لکھے اس کو ویدک یا ویدک سنسکرت کہا جاتا ہے ۔
چار سو قبل مسیح میں جب پانینی رشی (یہ نام تقدیق شدہ نہیں) نے گرامر بنائی تو اس وقت تک ویدک اور سنسکرت میں بہت سے مقامی عناصر شامل ہو چکے تھے۔
اس کا ثبوت سنسکرت میں موجود وہ اصوات ہیں جو آریائی کنبے کی دوسری زبانوں (جن میں لاطینی، فارسی، جرمن وغیرہ شامل ہے ) میں موجود نہیں ہیں۔
دوسری طرف یہی اصوات دراوڑی کنبے کی دوسری زبانوں تامل ، براہوئی یا منڈا قبیلے کی زبانوں منڈا روی وغیرہ میں موجود ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ویدک سنسکرت اور سنسکرت کے علاوہ مقامی سطح پر عوام میں جو زبانیں بولی جاتی تھیں
خاص طاقت رکھتی تھیں جس کے باعث ان کی باقیات آج بھی ان زبانوں کی اصوات میں موجود ہیں ۔
اس طرح دیکھا جائے تو اس خطے میں زبانوں کے دو بڑے گروہ سامنے آتے ہیں ایک وہ گروہ جو وسط ایشیا سے آنے والے آریاؤں کی زبانوں ویدک سنسکرت اور سنسکرت پر مشتمل تھا
اور دوسرا گروہ جو مقامی لوگوں (گول ، دراوڑ اور منڈا قبیلے کے لوگوں ) میں بولی جانے زبانوں کا تھا۔
اس دوسرے گروہ کی زبانوں کو ماہرین لسانیات نے پراکرت کا نام دیا ہے
جس کے معنی ہیں دوسروں کی زبان (پرا، بمعنی پرانی یا دوسروں کی اور گرت بمعنی زبان ) ۔
ان ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ سنسکرت ( لفظی معنی شده یا خالص ) کے قواعد بنے یا اس کے ایک خاص طبقہ ( برہمنوں) کی زبان قرار پانے سے پراکوتوں کی ترقی میں اضافہ ہوا
کیونکہ آریاؤں نے اپنا تفوق برقرار رکھنے کے لیے ذات پات کو رواج دے کر زیریں طبقہ کے لوگوں کو اپنی دیو بانی سیکھنے یا بولنے کی سخت ممانعت کر دی تھی
چنانچہ مقامی لوگوں کی اکثریت بدستور مقامی پراکتیں استعمال کرتی رہیں
اور یہ بتدریج آگے بڑہتی ہوئی مختلف روپ اختیار کرتی چلی گئیں حتیٰ کہ اشوک کے زمانے میں جو پراکرت رائج تھی اور جس میں بدھ تعلیمات کو عوام تک پہنچایا گیا وہ پالی کہلاتی تھی۔
جہاں تک پنجابی کا تعلق ہے تو پنجاب کو قدیم زمانے میں پشاچ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اسی مناسبت سے پنجاب میں بولی جانے والی زبانوں ( جن میں پنجابی کی تمام علاقائی بولیاں اور لہجے یعنی dialect ، شامل ہیں ) کا تعلق مقامی پراکرتوں کی ایک شاخ پشاچی اپ بھرنش سے بنتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پشاچی اب بھرنش نے ترقی کرتے کرتے موجودہ پنجابی کا روپ کب اختیار کیا ؟
اس سلسلے میں یہ بات خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ پنجابی زبان نے پنجابی کا نام اپنے وجود میں آنے کے بہت بعد میں اختیار کیا۔
مسعود سعد سلمان لاہوری کے نزدیک گیارہویں صدی عیسوی میں جو زبان ہندوی، ہندوئی ، بعد میں زبان جناں پنجاب، ہندی وغیرہ کہلائی وہ پنجابی ہی تھی ۔
خود حافظ عبدالکریم نے ”نجات المومنین” میں اور احمد یار نے قصہ کام روپ میں اسے ہندوی ہی لکھا ہے ۔
حافظ برخوردار (1080ھ) نے اپنی کتاب مفتاح الفقہ میں پہلی بار اس کے لیے پنجابی کا نام استعمال کیا اور اس کے بعد اب تک یہ اسی نام سے پکاری اور لکھی جا رہی ہے۔
آئیے اب یہ دیکھیں کہ پنجابی زبان نے اپنا الگ تشخص کب قائم کیا ؟ یہ بات تقریبا سبھی ماہرین لسانیات ( جن میں غیر مسلم اور مسلم دونوں شامل ہیں ) جان چکے ہیں
کہ پنجابی نے اپ بھرنش کے اندر اپنے الگ سفر کا آغاز 712ء میں محمد بن قاسم کی فتح سند کے زمانے کے آس پاس کیا۔
جو مسلمان بزرگ اسلامی لشکر کے ساتھ آئے تھے انھوں نے اپنے قول و عمل سے اس علاقے کے لوگوں کے ذہنوں میں ایک فکری انقلاب بر پا کر دیا۔
ان بزرگوں نے عوامی سطح پر اسلام کے فروغ کے لیے یہاں کے لوگوں کی زبان اپنائی جبکہ یہ اپنے ہمراہ عربی ، فارسی اور ترکی لے کے آئے تھے جن کی برسوں کی لسانی اور ادبی روایات تھیں ۔
ان زبانوں کا مقامی زبانوں پر اثر انداز ہونا ایک فطری امر تھا۔
چنانچہ برسوں ایسا ہوتا رہا اور یوں عوامی سطح پر جو زبان وجود میں آئی اس کی لسانی روایت میں اسلامی روح
گہری ہوتی چلی گئی ۔
آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی تک کو برصغیر میں مسلمانوں کا دور کہا جاتا ہے
جس میں پہلے پانچ سو سال تک اسلام ، سندھ ، دکن اور جنوب کی طرف سے برصغیر میں آیا اور بعد کے پانچ سو سال حکمرانوں کے دین کے حوالے سے پنپتا رہا۔
اس عرصے میں سے آٹھویں صدی عیسوی سے بارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر تک کے دستیاب ادبی نمونوں پر غور کیا جائے تو اگر چہ یہ پنجابی زبان کی طرف ایک سفر کرتی ہوئی زبان کے نمونے ہیں
مگر یہاں بھی ایک بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ یہ سفر سست نہیں بلکہ خاصا تیز رفتار ہے۔
یہاں پنجابی زبان ، اب بھرنش اور رج بھاشا سے اپنی آپ کو الگ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
یہاں تک کہ حاجی بابا رتن گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی ) جب کہتے ہیں ” ر و ا محمد سونا خدائے ۔ دونہ وج دنیا گوتا (غوطہ ) کھائے روپا بمعنی چاندی ، یعنی محمد چاندی ہیں اور خدا سونا ہے۔
دنیا دونوں کے درمیان غوطہ کھا رہی ہے ) تو پنجابی زبان و ادب کی پہچان اور اس کے اس الگ تشخص کی صورت سامنے آنے لگتی ہے۔
حواشی
پنجابی زبان کی تاریخ،کتاب کا نام || پاکستانی زبانوں کا ادب،کوڈ کورس 5618،صفحہ نمبر 155تا157،مرتب کرده… مسکان محمد زمان