واجدہ تبسم کی فکشن نگاری | Wajida Tabassum ki fiction nigari
واجدہ تبسم کی فکشن نگاری (۱۹۳۵-۲۰۱۱)
صغرا مہدی کی معاصرین میں واجدہ تبسم بھی شامل ہیں۔ ان کا شمار حیدر آباد کی ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے عہد کے عصری مسائل سے پردہ اٹھایا۔ انھوں نے اپنے اسلوب، تکنیک اور موضوعات کے لحاظ سے اردو ادب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی پیدائش ۱۶ مارچ ۱۹۳۵ میں مہاراشٹر کے امراوتی میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم نویں کلاس تک امراوتی میں ہی ہوئی ۔
تقسیم ہند کی بھاگ دوڑ میں حیدرآباد (دکن) کو اپنا مسکن بنایا اور آگے کی تعلیم حیدر آباد میں ہی حاصل کی۔ واجدہ تبسم نے بہت چھوٹی عمر میں ہی کہانیاں لکھنا شروع کر دی تھی مگر با قاعدہ طور پر تقسیم ہند کے بعد ان کے قلم میں زور پیدا ہوا۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ۱۹۶۰ میں شہر ممنوع کے نام سے شائع ہوا جس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
ان کے افسانوں کے پے در پے سات مجموعے منظر عام پر آئے۔ افسانوں کے علاوہ انہوں نے ناول بھی تخلیق کیے۔ ان کے افسانوں اور ناولوں میں مختلف قسم کی عورتوں طوائفوں ، لڑکیوں، بوڑھیوں، بچے پیدا کرنے والی عورتوں کی نفسیات کا ذکر ملتا ہے اس کے علاوہ حیدر آبادی ماحول کے پروردہ محلوں میں رہنے والے مرد کی نفسیات کا بھی بیان ملتا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر متوسط اور پسماندہ طبقے کی زندگی کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا ہے۔
واجدہ تقسیم کے افسانوں کا پہلا مجموعہ شہر ممنوع ہے۔ اس میں ان کے شروعاتی دور کے افسانے شامل ہیں ۔ اس باعث اس میں فارم اور تکنیک کی سطح پر روایت سے جڑے ہوئے افسانے ہیں ۔
شہرممنوع افسانے میں مختلف عنوانات کے تحت مخصوص واقعات یا کردار پر توجہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر کہانی کی ابتدا تل کے عنوان سے ہوتی ہے جس میں ایک کردار نوری کی پنڈلی کے ایک تل کے گرد کہانی کا تانہ بانہ بنا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: واجدہ تبسم، فرخندہ لودھی اور طاہرہ اقبال کے افسانوں کا تقابلی جائزہ pdf
یہ تل مدن دیکھ لیتا ہے اور اس پر اس طرح فدا ہوتا ہے کہ شادی کر کے ہی دم لیتا ہے اور اسی طرح مختلف عنوانات پیش کیے گئے ؟ ہیں جیسے ایک تھی شہزادی ، گرتی دیواری اندھیرا، گڑھا پار، سہارا اور پھر آخری عنوان ‘ شہر ممنوع رکھا گیا ہے مگر ان تمام واقعات کو اس طرح ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا گیا ہے کہ واقعات تسلسل کے ساتھ بیان ہوتے چلے گئے ہیں جس سے افسانہ کس قدر طویل ہو گیا ہے مگر اس سے یہ مجموعی تاثر قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: واجدہ تبسم کے افسانوی ادب کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ مقالہ pdf
واجدہ قسم کے ابتدائی افسانے مساج کے مسائل کی آئینہ دار نظر آتے ہیں۔ ان کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے حیدر آباد کی معاشرت کو اپنا موضوع بنایا تو یہ راستے سے بھٹک گئیں اور ان پر جنس حاوی ہو گیا مگر بعد میں اپنے آپ کو صرف جنس اور عورت کے مسائل تک محدود کر لیا اور یہ کہ ان کے افسانوں میں تنوع نہیں ملتا بلکہ ان کی زیادہ تر کہانیاں ایک خاص طبقہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔
یہ تمام باتیں کسی حد تک تو درست کہی جاسکتی ہیں مگر ان میں پوری سچائی نہیں ہے کیونکہ واجدہ تقسیم کے افسانوی مجمو عے ہر ممنوع آیا بنت رے لکھی اور نتھ کا بوجھ میں جتنی کہانیاں ہیں وہ عام طور پر عام معاشرے کی زندگی کو پیش کرتی ہیں، ان کہانیوں میں زیادہ تر روایتی قسم کی ان لڑکیوں کی داستان بیان کی گئی ہے جو جوانی کی اولین دہلیز پر قدم رکھتے رکھتے خوابوں کی کلیاں چنے لگتی ہیں۔ کبھی وہ تعبیر کے پھولوں کی مسکراہٹ حاصل کر لیتی ہیں اور کبھی نا کامی کی ٹھوکروں سے لہو لہان ہو جاتی ہیں۔
ان افسانوں میں وہ روایتی خواتین موجود ہوتی ہیں جو نو جوانی سے بھر پور ہوتی ہیں۔ ایسے کردار ہر معاشرے اور ہر عہد میں پائے جاتے ہیں جو جنس مخالف کی کشش کا سامان ہوتے ہیں مگر ایک خاص وقت کے بعد یہ معدوم بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ روایتی محبت اور شادی کے بندھن میں بندھ کر ایک عام انسانی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔
واجدہ تبسم کے نتھ کے بوجھ افسانوی مجموعے کی کہانیاں عام طور پر سیدھی سادہ اور رومانی کہی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا افسانہ نتھ کے بوجھ کی کہانی پر نظر ڈالی جاسکتی ہے جس میں ایک لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر اپنا بچپن گزارتی ہے مگر شادی ہونے کے ساتھ وہ گھر اس کے لیے پرایا ہو جاتا ہے۔ پھر سرال میں اس کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
اس کی اس زندگی میں چاہے خوشی ہو یا غم اس کے والدین اس کو اس کا مقدر کہ کر پال جھاڑ لیتے ہیں۔ اس طرح وہ لڑکی میکے اور سسرال کے فرق کو محسوس کرنے لگتی ہے۔ میکے میں جہاں اس کو ماں باپ کی محبت میسر تھی ، سرال میں وہیں اس کو ساس نندوں اور خاوند کی لعن طعن سننے کو ملتی ہے جس سے اس کی نئی زندگی موت سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ زندگی بھر سہنا اس کا مقدر ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
ہندوستانی معاشرے کی یہ پرانی روایت رہی ہے کہ مرد باہر جا کر سب کچھ کر سکتا ہے مگر عورت گھر کی چہار دیواری میں رہ کر کچھ بول بھی نہیں سکتی ۔ آج جب کہ ہماراملک ہندوستان آزاد ہو چکا ہے اور عورت اور مردشانہ بہ شانہ چل سکتے ہیں مگر آج بھی عورت کو مرد کے مقابلے آزادانہ بولنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے جس کے باعث عورت شادی اور نتھ کا بوجھ سہنے پر آج بھی مجبور و بے بس ہے۔
یہ عام اور سادہ موضوع ہر زمانے اور عہد کا ترجمان نظر آتا ہے جس کو واجدہ تبسم نے پیش کر کے کوئی نایاب کام نہیں کیا ہے ۔ لیکن جب ہم ان کے افسانوی مجموعے اترن نتھ اترائی اور روزی کا سوال پڑھتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ واجدہ تبسم کو اس بات کا علم تھا کہ زندگی کی رنگا رنگ تصویر میں اور چھوٹی چھوٹی جزیات کسی طرح جذبات اور ماحول کی ترجمان بنتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ان افسانوں میں غیر معمولی انداز بیان اپنایا ہے اور اپنے سیکھے انداز بیان سے وہ جس طرح کرداروں کے ماحول کے پس منظر بیان کرتی ہیں، ان میں انسانی ہمدردی اور فنکارانہ صلاحیت دونوں موجود رہتی ہے۔
اترن افسانے میں واجدہ تقسیم نے اونچے طبقے کے نوابوں کی برائیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اس افسانے میں چپکی ایک ایسا کردار ہے جو نواب کے گھر نوکری کرتی ہے اور ان کے گھر کی خواتین کے اترے ہوئے کپڑے اس کو پہننے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ وہ ان کپڑوں کو سب کے سامنے زیب تن کرتی ہے لیکن ان کو پینے کی چھن اس کو زخمی کرتی رہتی ہے۔ ان اترن کپڑوں کی خلش اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ انتقامی جذبے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
جس وقت نواب اپنی نازوں پہلی لڑکی شہزادی پاشا کی شادی کرتے ہیں اس وقت مہمانوں کی بھیڑ میں گھر کے لوگوں کا چپکی کی طرف کوئی دھیان نہیں جاتا جس کا فائدہ اٹھا کر چپکی شادی کے ایک دن پہلے شہزادی کے دولہا میاں کو ملیدے کی رسم کی ادائیگی میں دولہا کو میدہ کھلانے جاتی ہے اور اپنی خوبصورت جوانی کا ناجائز استعمال کرتی ہے اور
دولہا کو وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جو جائز نہیں مانا جاتا ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ہلدی مہندی کی ریتوں رسموں سے تھکے تھکائے دولہا میاں اپنی مسیبری پر دراز تھے۔ پر وہ ہلا تو وہ
مڑے اور دیکھتے کے دیکھتے رو گئے ۔
گھٹنوں تک لمباز عفران کرتا کسی کسی پنڈلیوں پر منڈھا ہوا تنگ پاجامہ، ہلکی ہلکی کامدانی کا کڑھا ہوا زعفرانی دو پٹہ، روئی روئی، بھیگی بھیگی گلابی آنکھیں، چھوٹی آستیوں والے کرتے میں سے جھانکتی گداز بانہیں، بالوں میں موتیا کے گجرے پروئے ہوئے ۔
ہونٹوں پر ایک قاتل سی مسکراہٹ یہ سب نیا نہیں تھا لیکن ایک مرد جس کی پچھلی کئی راتیں کسی عورت کے تصور میں بیتی ہوں ، شادی سےایک رات پہلے بہت خطرناک ہو جاتا ہے چاہے وہ کیسا ہی شریف ہو، تنہائی جو گناہوں کی ہمت بڑھاتی ہے۔
چپکی نے انھیں یوں دیکھا کہ وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ گئے ۔ چپکی جان بوجھ کر منہ موڑ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ تلملائے سے اپنی جگہ سے اٹھے اور ٹھیک اس کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے ۔ آنکھوں کے گوشوں سے چپکی نے انھیں یوں دیکھا کہ وہ ڈھیر ہو گئے ۔ ۱۲
واجدہ تبسم نے بے باک انداز میں اپنے خیالات کو بیان کر کے یہ ثابت کر دیا ہے ایک ماہر فن کار حساس دل کا مالک ہوتا ہے۔ اور حالات کے رخ اسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ وہ فرد کے دکھ سکھ کا ساتھی بن جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ” اترن افسانے میں چمکی کی خلش کا انتقام انہوں نے جاگیردار خاندان سے لے لیا جو مظلوم طبقے کو تکبر و نخوت سے دیکھتا آیا ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو واجد و قسم اس بے بس اور مظلوم طبقے کے دیکھ سکھ میں حصہ دار بن جاتی ہیں جو جاگیردارانہ نظام کے تحت کچلا جاتا رہا ہے اور سماجی طور پر معتبر اور معز ز لوگ عیش وعشرت کے نشے میں فرق رہ کر ہر عمل و فعل کو جائز سمجھتے ہیں۔
واجدہ تبسم نے اپنے تجربات و مشاہدات کو اپنے افسانوں میں نمایاں طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے حیدر آباد کے نوابوں کی زندگی پیش کی۔ جہاں انہوں نے نوابوں سے ہٹ کر قلم چلایا وہاں جنسی معاملات نظر نہیں آتے۔ دراصل انہوں نے جنسی موضوع پر کھل کر افسانے لکھتے ہیں۔ مذکورہ افسانہ اترن میں اس کی عمدہ مثال
دیکھی جاسکتی ہے۔
واجدہ تبسم کے یہاں عورت کو ایک پاکیزہ اور اعلی درجہ کی حیثیت حاصل ہے۔ خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتی ہو۔
گھر یلو عورت ہو یا نوابوں کی بیگمات ہو یا ادنی ملازمہ یا کوئی کوٹھے کی طوائف ، عورت کی کمتر سماجی حیثیت کو انھوں نے نمایاں طور پر پیش کیا ہے اور مختلف قسم کی طبقاتی ، سیاسی اور معاشی نظام میں اس کی پامالی پر انھوں نے پر زور آواز اٹھائی ہے۔ اگر چہ ان کی تحریریں جنسی لذت پسندی کا نمونہ نظر آتی ہیں مگر اس میں جس استحصال کی شکلیں دکھائی گئی ہیں وہ کسی نہ کسی طور مظلوم عورت سے منسلک ہیں ۔
ایک مخصوص طبقہ جو عیش وعشرت کے تمام مرحلوں کو طے کر رہا تھا، اس کی عیش و عشرت کا محور عورت تھی۔ وہ عورت جو صدیوں سے نفسیاتی خواہشات کی تسکین اور افزائش نسل کا ایک ذریعہ کبھی جاتی رہی، اس کے ساتھ عیاشی کے تمام مراحل کس طرح طے کیے جاتے رہے ہیں ان سب باتوں کو واجدتبسم نے اپنے افسانوں میں بڑی خوش اسلوبی سے ظاہر کیا ہے۔
واجدہ تبسم نے افسانوں کے علاوہ کئی ناول بھی تخلیق کیے۔ ان میں نتھ کی عزت نتھ کا زخم اور کیسے کانوں رین اندھیری وغیرہ قابل توجہ ہیں۔ ان کے یہاں نتھ” کے عنوان سے ایک پوری سیریز موجود ہے۔ انہوں نے نتھ کو ایک علامتی حیثیت دی ہے اور اس کو عورت کی زندگی کا بنیادی محور مانا ہے۔
یہ ایساز یور ہے جو دلہن سے مخصوص ہے۔ اسے پہننے کے بعد لڑ کی ایک نئی زندگی کے راستے پر گامزن ہوتی ہے جو اس کی اصل زندگی ہوتی ہے۔ یہاں سے سرخرو گزرنا اس کے خاندان اور عورت پن کے غرور کو قائم رکھتا ہے۔ اس نتھ کی اہمیت کو طوائف کی زندگی میں بھی ی اہم سمجھا گیا ہے۔ واجدہ تقسیم نے اپنے زیادہ تر ناولوں میں نوابوں کی عیاشیاں ، ان کی طوائف بازیاں اور ان محلوں میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کی داستان پیش کی ہیں۔
نتھے کی عزت ۶۷ اصفحات پر مشتمل اگر چہ ایک مختصر سا ناول ہے لیکن اس میں حیا نامی طوائف زادی کے جذبات و احساسات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
واجدہ تبسم نے اس کا کردار نہایت مہارت سے تراشا ہے۔ اس ناول میں ” حیا ” طوائف کے گھر جنم لینے والی ان لڑکیوں کی نمائندہ بن کر ابھرتی ہے جو شریف گھرانوں کی عزت دار بیٹیوں کی مانند بیا ہے جانے کی شدید خواہش رکھتی ہیں جو صرف ایک مرد کا ہاتھ تھامنا چاہتی کا ہیں اور گرہستن کی زندگی کو پسند کرتی ہیں لیکن یہ معاشرہ ایسی معصوم لڑکیوں کی خواہش کو اپنے پیروں تلے روند ڈالتا ہے۔
حیا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ نواب شوکت نے اس سے شادی کرنے کا جھوٹا وعدہ کیا اور بہلا پھسلا کر اس کی عصمت دری کی اور شادی کہیں اور کر لی۔ اس سے حیا کے جذبات کسی طرح مجروح ہوتے ہیں اس کی عکاسی اس
اقتباس میں دیکھی جا سکتی ہے :
بڑے ضبط کے ساتھ وہ بولی ” اور عورتوں کے دل کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن میں نے اپنے دل کی گزرگاہ کو بس اتنا ہی کشادہ رکھا تھا کہ اس میں سے دو قدم گزر سکیں ۔ آپ اس میں داخل ہو گئے اور میں نے وہ گزرگاہ ہی بند کر دی۔ آپ تو بڑے خوش نصیب تھے تو اب صاحب کہ ایسی محفل میں قدم رنجہ ہوئے جہاں آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی نہیں آیا لیکن میں وہ سک کر رو پڑی۔ میں کتنی بد نصیب تھی کہ آپ کے دل کی دہلیز تک ہی پانچ پائی داخلہ میرے لیے ممنوع تھا۔
ناول میں حیا کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ دوسری طوائفوں کی طرح برباد ہو کر خاموش نہیں بیٹھتی بلکہ اپنی ماں زمانی بیگم کا گھر چھوڑ کر تو بہ کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور نواب شوکت سے اس کے اکلوتے بیٹے سرفراز کے ذریعہ اپنا انتظام لیتی ہے۔ اس انتقام کی خاطر دوبارہ سال تک مسلسل جدو جہد اور منصوبہ بندی کرتی ہے۔
واجدہ تبسم نے حیا کے کردار کو ایک خالص عورت کے روپ میں پیش کیا ہے۔ اس میں اگر بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں تو بعض فطری نسائی خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ اگر وہ ایک طرف سلیقہ مند، خوش گفتار، خوش کردار ، ارادے کی یکی ، رقاصہ اور مصنفہ تھی تو دوسری طرف وہ ایک کمزور اور بے بس عورت بھی تھی۔
اس لیے وہ نواب شوکت کی چال میں پھنس گئی اور جب ہوش آیا تو سب کچھ لٹ چکا تھا۔ نواب کے کہیں اور شادی کر لینے کے باوجود وہ اس کے سامنے گڑ گڑاتی رہی کہ وہ اس کو خادمہ کے روپ میں ہی محل کے کسی کونے میں ڈال لیں ۔ اسی کمز ور و بے بس عورت کی شکل میں نواب کے ناجائز بچے کا اسقاط کرانے سے بھی انکار کر دینا اس کی نسائی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
کیسے کاٹوں رین اندھیری بھی حیدر آبادی ماحول پر لکھا گیا ایک دلچسپ اور عبرت آموز ناول ہے۔ اس ناول میں اگر چہ کسی طوائف کا مرکزی کردار موجود نہیں ہے لیکن قصے کی ہیروئن دلہن پاشا کے سارے مسائل کی بنیادی وجہ ایک طوائف اختر ہے جس کے دام الفت میں اس کا شوہر قدیر میاں گرفتار ہوتا ہے۔
ناول میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ کسی طرح طوائفوں کے پیچھے خوشحال گھرانے برباد ہو جاتے ہیں۔ حیدر آباد کی سماجی زندگی میں طوائف کے ناسور نے جو تا بیاں مچا رکھی تھیں، اس کی عکاسی دراصل کیسے کانوں رین اندھیری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس اعتبار سے اس ناول کو ایک اصلاحی ناول بھی کہا جا سکتا ہے۔
نتھ کی عزت اور کیسے کانوں رین اندھیری ناول میں حیدر آباد کی خاص مسلم تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔ انتھ کا زخم ایک ایسا ناول ہے جس میں دراصل فلمی کہانی بیان کی گئی ہے اور اس کو فلم کی تکنیک پر لکھا گیا ہے، اس کا اعتراف واجدہ قسم نے اس کے دیباچے میں خود کیا ہے۔ اس لیے اس کو مکمل طور پر ناول کہنا مناسب نہ ہوگا ۔
ان نالوں کے علاوہ واجدہ تبسم نے طویل کہانیاں ( جس کو ناولٹ بھی کہا جا سکتا ہے ) تخلیق کیں۔ ان میں شعلے اور دھنک کے رنگ نہیں ہیں۔ آخر الذکرنا ولٹ میں رومانیت اور حقیقت پسندی کا امتزاج دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا پلاٹ متوسط گھرانے کی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔ رفیق میاں جو اس گھر کے بڑے بیٹے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ لدا رہتا ہے۔
اس کردار کی زندگی کے المیے اور اس کی المناک تنہائی کو واجدہ قیافسانہ نگار ناول میں حیا کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ دوسری طوائفوں کی طرح برباد ہو کر خاموش نہیں بیٹھتی بلکہ اپنی ماں زمانی بیگم کا گھر چھوڑ کر تو بہ کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور نواب شوکت سے اس کے اکلوتے بیٹے سرفراز کے ذریعہ اپنا انتظام لیتی ہے۔ اس انتقام کی خاطر دوبارہ سال تک مسلسل جدو جہد اور منصوبہ بندی کرتی ہے۔
واجدہ تبسم نے حیا کے کردار کو ایک خالص عورت کے روپ میں پیش کیا ہے۔ اس میں اگر بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں تو بعض فطری نسائی خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ اگر وہ ایک طرف سلیقہ مند، خوش گفتار، خوش کردار ، ارادے کی یکی ، رقاصہ اور مصنفہ تھی تو دوسری طرف وہ ایک کمزور اور بے بس عورت بھی تھی ۔ اس لیے وہ نواب شوکت کی چال میں پھنس گئی اور جب ہوش آیا تو سب کچھ لٹ چکا تھا۔
نواب کے کہیں اور شادی کر لینے کے باوجود وہ اس کے سامنے گڑ گڑاتی رہی کہ وہ اس کو خادمہ کے روپ میں ہی محل کے کسی کونے میں ڈال لیں ۔ اسی کمز ور و بے بس عورت کی شکل میں نواب کے ناجائز بچے کا اسقاط کرانے سے بھی انکار کر دینا اس کی نسائی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
کیسے کاٹوں رین اندھیری بھی حیدر آبادی ماحول پر لکھا گیا ایک دلچسپ اور عبرت آموز ناول ہے۔ اس ناول میں اگر چہ کسی طوائف کا مرکزی کردار موجود نہیں ہے لیکن قصے کی ہیروئن دلہن پاشا کے سارے مسائل کی بنیادی وجہ ایک طوائف اختر ہے جس کے دام الفت میں اس کا شوہر قدیر میاں گرفتار ہوتا ہے۔
ناول میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ کسی طرح طوائفوں کے پیچھے خوشحال گھرانے برباد ہو جاتے ہیں۔ حیدر آباد کی سماجی زندگی میں طوائف کے ناسور نے جو تا بیاں مچا رکھی تھیں، اس کی عکاسی دراصل کیسے کانوں رین اندھیری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس اعتبار سے اس ناول کو ایک اصلاحی ناول بھی کہا جا سکتا ہے۔
نتھ کی عزت اور کیسے کانوں رین اندھیری ناول میں حیدر آباد کی خاص مسلم تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔ انتھ کا زخم ایک ایسا ناول ہے جس میں دراصل فلمی کہانی بیان کی گئی ہے اور اس کو فلم کی تکنیک پر لکھا گیا ہے، اس کا اعتراف واجدہ قسم نے اس کے دیباچے میں خود کیا ہے۔ اس لیے اس کو مکمل طور پر ناول کہنا مناسب نہ ہوگا ۔
ان نالوں کے علاوہ واجدہ تبسم نے طویل کہانیاں ( جس کو ناولٹ بھی کہا جا سکتا ہے ) تخلیق کیں۔ ان میں شعلے اور دھنک کے رنگ نہیں ہیں۔ آخر الذکرنا ولٹ میں رومانیت اور حقیقت پسندی کا امتزاج دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا پلاٹ متوسط گھرانے کی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔ رفیق میاں جو اس گھر کے بڑے بیٹے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ لدا رہتا ہے۔ اس کردار کی زندگی کے المیے اور اس کی المناک تنہائی کو واجدہ قیسم
نے بڑی فنی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ناولٹ میں دو متضاد کردار پائے جاتے ہیں، ایک طرف رفیق میاں ہیں جو اپنی محنت کی کمائی کو اپنے گھر والوں پر خرچ کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کے چھوٹے بھائی انور میاں ہیں جو بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے سامنے بوڑھی ماں، بیوہ بہن اس کی بیٹی اور اپنے بڑے بھائی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ وہ صرف اپنی بیوی ‘زہرا کی بات مانتے ہیں جو اپنی سسرال کے کسی بھی فرد کو پھوٹی آنکھ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی۔ یہ تمام کردار سماج کے اس متوسط طبقے کی زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں جو اپنی عزت و آبرو کو معاشرے میں بنائے رکھتے ہیں۔ خواہ ان کے گھر فاقے ہی کیوں نہ ہوں، یہ اپنی عزت کی خاطر اپنا منہ بند رکھتے ہیں۔ اس ناولٹ کے مقاصد کو دیکھا جائے تو اس میں معاشی خوشحالی کی تمنا دیکھی جاسکتی ہے۔ واجدہ تقسیم نے اس میں اپنی معاشی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے روز گار کو اہم مقصد بنا کر پیش کیا ہے۔
واجدہ تقیسم کی فنی بصیرت کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ ان کی تحریروں میں موجود جنسی میلانات کا تذکرہ نہ کیا جائے ۔ ان کی خاص شہرت بے باک اور کھلے انداز کی تحریریں ہیں ۔ مرد اور عورت کے جذباتی مراسم کو وہ رومانیت کے زاویے سے دیکھنے کے بجائے خالصتاً حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ ایسا ہی انہوں نے ناولٹ دھنک کے رنگ نہیں، میں بھی دیکھایا ہے۔
واجدہ تقسیم کا اسلوب نگارش بے حد دل پذیر اور موثر ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں سے وہ اپنی عبارت میں روانی پیدا کرتی ہیں۔ حیدر آباد کی روز مرہ بول چال ان کی انشائیہ کی خاص پہچان ہے ۔ ہر کردار اپنے ماحول علم اور مرتبے کے مطابق بولتا نظر آتا ہے۔ جذبات کے بے ساختہ اظہار میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے ہے۔
بحیثیت مجموعی حیدر آباد کی تہذیب و تمدن کی بے باکانہ عکاسی کرنے میں واجدہ تبسم کو ملکہ حاصل ہے ۔ انہوں نے اپنے اس انداز سے اردو ادب کو نہ صرف اچھے افسانے بلکہ ناول اور طویل کہانیاں بھی عطا کیں۔
پی ڈی ایف سے تحریر: ثمینہ کوثر
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں