فہرست:
افسانہ نیا قانون کا خلاصہ
استاد منگو ایک ان پڑھ تانگہ بان ہے، مگر اپنی برادری میں اس کی حیثیت ایک سوجھ بوجھ والے کوچوان کی ہے، اس کی معلومات کا دارو مدار اس کے تانگے میں بیٹھنے والی سواریوں کی گفتگو پر ہے، جو وہ مختلف موضوعات پر کرتی ہیں ،
انہی سنی سنائی باتوں سے وہ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق اپنی مرض کے معانی اخذ کر لیتا ہے، اور پھر اڈے پر بیٹھنے والے کوچوانوں پر اپنے علم اور تجربے کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، اس کی سواریوں میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، مگر وہ صرف انگریز گوروں سے نا خوش رہتا ہے،
کیونکہ اسے اُن سے حد درجہ نفرت ہے، وہ ان کے ہاتھوں تنگ رہتا ہے کیونکہ وہ ہندوستان کے حکمران ہونے کی جہ سے اسے ناجائز زچ کرتے ہیں، اپنی مرضی کی جگہوں پر لے جاتے ہیں اور کرایہ بھی پورا ادانہیں کرتے ، اس وجہ سے اُس کی پچھلے سال ایک گھورے سے لڑائی بھی ہوئی تھی، اُس کی ان غیر ملکی حاکموں کے خلاف نفرت کے یہ اسباب ہیں ۔
(الف) وہ اس سے بدسلوکی کرتے ہیں۔
(ب) اس کے ساتھ حقارت و نفرت کا برتاؤ رکھتے ہیں، گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔
(ج) گورے اس کے ملک پر نا جائز قابض اور غیر قانونی حکمران ہیں ۔طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں۔
اُن کی حیثیت ایسی ہے کہ آگ لینے آئے اور گھر کے مالک بن گئے ۔
استاد منگو ان کے خلاف موقعہ بہ موقعہ اپنی نفرت و حقارت کا اظہار کرتا ہے
وہ ان کو :زندہ گلی سڑی لاش قرار دیتا ہے۔اُس کے خیال میں انگریز ، بندروں کی اولاد ہیں۔ وہ انہیں سفید چو ہے کہتا ہے۔اُس کی نظر میں گورے کوڑھ اور مردار ہیں۔وہ اُس کے ملک (ہندوستان) پر سکہ چلاتے ہیں۔
ایک عام محب وطن شخص کی طرح وہ اپنے ملک کو غیر ملکی آقاؤں کے تسلط سے آزاد دیکھنے کا، خواہش مند ہے اور اُس دن کا منتظر ہے کہ کوئی نیا قانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ چنانچہ ایک روز جب اُسے اپنے تانگے کی سواریوں کی زبان علم ہوا کہ ملک میں یکم اپریل کو نیا قانون (انڈیا ایکٹ)نافذ ہونے والا ہے۔
اس کے نفاذ سے منگو کے خیال میں بڑی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی ۔ انگریز راج کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے اور اسے گوروں کے ہاتھوں توہین آمیز سلوک سے نجات ملے گی اور اگر انہوں نے نئے قانون کے نفاذ کے بعد بھی اس کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روار کھنے کی کوشش کی تو وہ انہیں ایسا سبق سکھائے گا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
اس کے تانگے پر سوار ہونے والے دو مار واڑیوں ، دو بیرسٹروں اور گورنمنٹ کالج کے تین طالب علموں کی گفتگو سے اُسے بڑا حوصلہ ہوا کہ نیا قانون ہمہ گیر انقلاب کا باعث بنے گا۔ سود ختم ہو جائے گا، بے روزگاری سے نجات ملے گی ، پڑھے لکھے لوگوں کو ڈھنگ کی نوکریاں دستیاب ہو سکیں گی۔ سیاست میں آزادی کو فروغ ملے گا، انتخابات میں لوگ اپنی مرضی کے نمائندے چنیں گے۔
گویا ہر کسی کو اُس کی بساط و آزاد کے مطابق کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملے گا۔ البتہ بیرسٹروں کی گفتگو سے اُس نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ نئے قانون کے خلاف ہیں اور ملک کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتے، چنانچہ اُس نے دل ہی دل میں اُنہیں ٹوڈی بچے ” کہہ کر اپنی نفرت کا اظہار کیا۔اسے یکم اپریل کی آمد کا بڑی شدت سے انتظار رہتا ہے۔
31 مارچ کو اُس نے نئے قانون کی خوشی میں اپنے گھوڑے کے لئے نئی کلغی خریدی اور گھوڑے کے سر پر سجالی یکم اپریل کو وہ صبح سویرے ہی تانگہ لے کر گھر سے نکل پڑا تا کہ نئے قانون کی برکتوں کو اپنی آنکھوں سے سب سے پہلے دیکھ سکے۔ ابھی دکانیں وغیرہ تو بند تھیں مگر یہ خیال اُس کے لئے تسکین کا باعث تھا کہ کچہریوں میں بھی کام نو بجے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے،
اس سے پہلے قانون کہاں نظر آسکے گا۔ گورنمنٹ کالج کے پاس سے گزرتے ہوئے کالج کے گھڑیال نے نو بجائے تو وہ انار کلی کی طرف چل نکلا۔ بازار کی آدھی دکانیں کھل چکی تھیں، لوگوں کی آمد ورفت شروع ہو چکی تھی۔ مگر وہ تو صرف نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا اور نیا قانون تھا کہ اُس کے دُور دُور تک کوئی آثار نہ تھے۔
انار کلی سے نکل کر وہ مال روڈ پر چل نکلا اور نیا قانون تھا کہ اُس کے دُور دُور تک کوئی آثار نہ تھے۔ انار کلی سے نکل کر وہ مال روڈ پر چل نکلا ۔ یہاں اُسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔
اُس نے اسے اچھا شگون سمجھا کہ شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتہ چل جائے ۔ واپسی پر اُسے سواری کی صورت میں ایک گورا مل گیا، جس کے ساتھ پچھلے سال بھی اس کی جھڑپ ہو چکی تھی ، کہ اس گورے کو ہیرا منڈی جانا تھا، اُستاد منگو کی انگریزوں کے خلاف تمام تر نفرت و حقارت عود کر آئی ۔
دونوں کی نظریں ملیں تو یوں لگا جیسے دونوں کی آنکھوں سے دو گولیاں نکلی ہیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولے کی شکل اختیار کر کے اوپر کو اڑ گئی ہیں۔
منگو نے اُسے بڑے طنزیہ لہجے میں پوچھا: ” کہاں جانا مانگٹا ہے ۔ کرایہ پانچ روپے ہو گا ۔ گورے نے بد تمیزی یہ کی کہ اپنی بید کی چھٹری سے اُستاد منگو کی ران کو چھوا۔ استاد منگو کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اُس نے گورے کی تھوڑی کے نیچے زبردست گھونسہ مارا اور دھکا دے کر اُسے نیچے گرا دیا اور دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فو۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فو۔۔۔
اب ہمارا راج ہے بچہ وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے اب نیا قانون ہے میاں نیا قانون !’ پولیس آئی اور منگو کو گرفتار کر لیا گیا۔ راستے میں تھانے کے اندروہ نیا قانون۔ نیا قانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک سنی۔ نیا قانون، نیا قانون ، کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا ۔ اور اُسے حوالات میں بند کر دیا گیا۔
افسانہ نیا قانون فنی و فکری جائزہ
زیر نظر افسانہ منٹو کی زیر کی، ذہانت اور نفسیاتی سوجھ بوجھ کا مظہر ہے۔ سیاسی موضوعات پر اس کے دیگر افسانوں کے مقابلے پر نیا قانون کو ایک شاہ کار کی حیثیت حاصل ہے۔
افسانے کا ہیرو استاد منگو خان ، حب وطن، آزادی، انقلاب اور وطن میں ایسی تبدیلیوں کا خواہشمند جس سے معاشرے کے نچلے مملوکہ مشہور طبقے کو خوشی کے چند لمحے مل سکیں۔
استاد محترم ڈاکٹر عبادت بریلوی تحریر کرتے ہیں:
‘نیا قانون، یوں دیکھنے میں تو ایک کو چوان استاد منگو کے بعض خیالات اور چند حرکات و سکنات سے متعلق ایک کہانی ہے، لیکن ان سب کو پیش کرتے ہوئے منٹو نے اس زمانے کی سیاسی حالت کی ایک تصویر بھی بنائی ہے اور سیاسی حالات نے جس کشمش کو پیدا کیا ہے، اس کا نقشہ بھی کھینچا ہے لیکن کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے اس کشمکش کا کوئی حل بھی نکل سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: منٹو کے خطوط | pdf
منٹو کی پرواز اس حد تک نہیں ہے، اس کی نظر تو صرف کشمکش میں کھو کر رہ جاتی ہے۔ ویسے اس کیفیت کی ترجمانی اس نے بڑی ہی چابک دستی سے کی ہے۔
دراصل منٹو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ استاد منگو، جسے سب عقلمند آدمی سمجھتے ہیں، ایک ہونے والی سیاسی تبدیلی کونہیں سمجھتا، اس کا فریب کھاتا ہے، یہ نہیں جانتا کہ حقیقت کیا ہے اور اس کے نتیجے میں اُسے جیل خانے کی ہوا اُٹھانی پڑتی ہے ۔”۔
ایک اور فاضل مصنف کا یہ تجزیہ ملاحظہ فرمائیں:
منٹو کے اس افسانے میں ان کے ہاں منفرد قسم کا طبقاتی شعور اُبھرتا ہے۔ یہ افسانہ ہمارے معاشرے کا ، ہماری عملی زندگی کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر عہد کا انسان اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔
آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کسی بھی طرح اس کی معنویت متاثر نہیں ہوتی ۔ آج نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود منگو کو چوان جیسے لوگ ہے تو قیر میں ، ان کو بھیڑوں بکریوں کی طرح ہانکا جا رہا ہے۔ وہ لوگ جو انگریز کے عہد میں قابل تو قیر تھے، آج بھی اپنے اپنے منصب پر فائز ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو نیا قانون کی آفاقیت پر دلیل کا درجہ رکھتا ہے۔ حکومتیں بنتی ہیں،
یہ بھی پڑھیں: منٹو اور اس کا عہد
حکومتیں گرتی ہیں۔ انقلاب آتے ہیں، قوانین بنتے ہیں، قوانین ٹوٹتے ہیں لیکن جن لوگوں پر حکومت کی جاتی ہے یا جن کی وجہ سے حکومت وجود میں آتی ہے، ان کی معاشی و معاشرتی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں آتا۔ کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔
وہ سب کے سب ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔ ہر کوئی اس تبدیلی کے لئے تعجیل پسندی کا مظاہرہ کرنے کی فکر میں ہے اور حقیقی آزادی کا خبط ہر کسی کے اعصاب پر چھایا ہوا ہے۔ نہ جانے کتنے منگو ہر صبح اس امید پر جاگتے ہیں کہ آج کوئی نہ کوئی تبدیلی ضرور واقع ہوگی ۔
ہر منگو دنیا کو نیا چولا پہنے ہوئے دیکھنے کا آرزومند ہے لیکن دنیا اسے پرانی ہی لگتی ہے۔ وہ ارباب اختیار سے الجھتا ہے، اس کے گلے پڑتا ہے اور نتیجہ وہی جو کہ غلامی کے بعد کے دور میں ملتا تھا۔’
سید وقار عظیم اپنے مخصوص انداز میں منٹو کے اس لازوال افسانے پر اپنی رائے یوں تحریر فرماتے ہیں:
اگر چه نیا قانون ہندوستان کی آزادی کے تناظر میں لکھا گیا افسانہ ہے اور منگو کو چوان، انگریزی قانون سے بغاوت کا استعارہ ہے، مگر اس کردار کو آج کے دور کے قانون پر بھی بخوبی منطبق کیا جاسکتا ہے، کیونکہ منٹو نے اس افسانے میں جس خوبصورت اور دلکش اور پُر اثر پیرائے میں سیاسی انقلاب کے بارے میں خامہ فرسائی کی ہے،
اس کی احتیاج آنے والے دور کو بھی محسوس ہوگی ، اور ہر زمانے میں یہ آئینہ اُس دور کے عیوب اور برائیاں دکھانے کا فریضہ انجام دے گا اور نہ صرف احساس دلائے گا بلکہ ہمیں انقلاب کے خواب دیکھنے والوں سے عملی تعاون کے لئے بھی تشویش و تحریک کا موجب ہو گا۔”
ڈاکیر ابواللیث صدیقی فرماتے ہیں:
‘اس افسانے میں منٹو کا کوئی کمزور پہلو نہیں اُبھرتا۔ یہ ہماری سیاسی جدوجہد کے دور کا آئینہ دار ہے۔ جس میں ہماری آرزویں اور امنگیں تمنائیں اور نا کا میاں جھلکتی ہیں اور فنی معیار سے بھی یہ ایک کامیاب افسانہ ہے ۔۔۔اچھے مختصر افسانے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں واقعات کا تانابانا زیاہ نہ بکھرا ہوا ہو بات سے بات نکل کر طوالت نہ پیدا ہو جائے۔ مرکزی خیال ایک رہے کردار، واقعات اور مکالمات اس ایک خیال کو اجاگر کرنے اور تاثیر میں شدت پیدا کرنے میں مدو معاون ثابت ہوں ۔
یہ بات بھی یہاں پوری طرح حاصل ہوگئی ہے کہ کردار صرف ایک ہی ہے، اُستاد منگو واقعات اور مکالمات، مناظر اور پس منظر کا محور بھی ایک ہے۔ یعنی نئے قانون کے نفاذ کا انتظار۔’
منٹو نے جہاں معاشرے کے سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے، وہاں اس کی سیاس و نفسیاتی بصیرت اور معاشرتی مطالعے مشاہدے کی گہرائی و گیرائی کا بخوبی اندازہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر انوار حماس افسانے کے انہی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوے فرماتے ہیں:
‘اس افسانے میں منٹو کے سیاسی و سماجی شعور میں نفسیاتی شعور اور فنی ریاضت و معروضیت گھل مل گئے ہیں ۔ اُستاد منگو عالمی ادب کے زندہ جاوید کرداروں میں سے ہے۔
وہ بر صغیر کے معصوم انسانوں کا نمایندہ ہے جو غلامی اور استحصال سے نفرت تو کرتے ہیں مگر اس کے اظہار کے لئے مناسب موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر ان کی خبر اور بے خبری میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا ،مگران کے خواب اور تعبیر میں بہت فاصلہ ہوتا ہے.”
استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ اس کے ہندوستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں، مگر اس کے تنفر کی سب سے بڑی وجہ یہی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے، گویادہ ایک ذلیل کرتا ہے ۔”
وارث علوی نیا قانون کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘نیا قانون منٹو کا بہت ہی مشہور افسانہ ہے۔ یہ خیال کہ نیا قانون آتے ہی ہندوستان آزاد ہو گا اور انگریزوں سے نجات ملے گی ۔ منگو کوچوان کے اعصاب پر چھا جاتا ہے۔ منگو ایک سیدھا سادا، بے وقوف اور ان پڑھ آدمی ہے جو باتوں کا دھنی ہے۔
اس کے کردار کا یہ پہلو کہ وہ تعجل پسند ہے اور کوئی بھی خیال ہو اس پر خبط میں کی طرح چھا جاتا ہے۔ منٹو نے بڑی نفسیاتی دروں بینی سے ابھارا ہے۔ یکم اپریل کو منگو کو چوان اس طرح اٹھتا ہے، جس طرح بچے عید کے دن جاگتے ہیں ۔
وہ دنیا کو بدلی ہوئی اور نیا چولا پہنے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے لیکن دنیا تو اسے وہی پرانی لگتی ہے، نیا قانون آگیا پھر بھی سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے پہلے تھا، کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ اس نا امیدی کے عالم میں اسے وہی گورا ملتا ہے جس سے اس کی ٹھنی ہوئی تھی ۔
پھر جھگڑا ہوتا ہے اور منگو کو چوان گورے کو مارتا ہے اور جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ افسانہ کی جان منگو کو چوان کا کردار ہے، ایک عام اور معمولی آدمی میں دلچسپی کے اتنے پہلو پیدا کرنا منٹو کی کردار نگاری کا امتیازی وصف ہے۔
ایک اور فاضل مصنف نے اس افسانے کے تناظر میں منٹو کی افسانہ نگاری کی بعض فکری وفنی خوبیوں کو اس طرح آجاگر کیا ہے:
منٹو کے اس افسانے نیا قانون کے تنقیدی جائزہ سے اس کی بہت سی فنی اور فکری خوبیاں سامنے آتی ہیں۔ اس افسانے کا ایک ہی کردار ہے اور وہ ہے منگو کوچوان جو افسانے کی جان ہے۔ اس کردار کے ذریعے منٹو نے سیاسی و معاشرتی زندگی کو جھنجھوڑا ہے اور کوچوان کو ایک انقلابی باغی سوچ رکھنے والا ظاہر کیا ہے۔
منگو کے کردار کو اصل میں منٹو نے اس افسانے میں ایک بغاوت کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے جو معمولی قسم کا ان پڑھ اور جاہل ہونے کے باوجود قومی درد سے سرشار ہے اور ہر لحظہ اپنے ملک اور قوم کی بہتری و خوشحالی اور آزادی کے خواب دیکھتا ہے۔ ہر ادیب اپنے عہد کے لئے لکھتا ہے اور وہ اپنے ہم عصروں اور اپنے عہد تک محدود نہیں رہتا،
یعنی اس کی تخلیقات صرف اس کے اپنے عہد تک ہی با معنی ثابت نہیں ہوتیں بلکہ وہ آنے والے زمانے میں اور ہمیشہ با معنی ثابت ہوتی ہیں اور یہ وصف منٹو اور اس کی تخلیق یعنی اس افسانے میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی تخلیق کار اپنے ہم عصر کا آئینہ ہوتا ہے، بلکہ آئینہ ہوتا ہی نہیں بلکہ آئینہ دکھاتا بھی ہے اور یہ آئینہ جس قدر مجلا ہوگا، اتنی دیر تک ہی وہ گرد ایام کی نذر نہ ہو سکے گا۔’
افسانہ نیا قانون کو اشاعت
منٹو کا یہ افسانہ 1938ء کے ہمایوں میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا ۔ اسے بہر حال نہ صرف منٹو بلکہ اُردو کے شاہ کار اور زندہ افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وارث علوی لکھتے ہیں:
اس افسانے (نیا قانون) میں برطانیہ کی اُن آئینی مراعات پر زہر خند کی برق پاشی کی گئی ہے جو 1935 ء کے انڈیا ایکٹ کے تحت نو آبادیات کی رعایا کو دی گئی تھیں ۔اس افسانے کے فکری وفنی جائزے کے ضمن میں پروفیسر گلزار حمد تحریر کرتے ہیں۔ اس افسانے میں منٹو کے سماجی اور سیاسی شعور میں نفسیاتی شعور اور فنی ریاضت و معروضیت گھل مل گئی ہیں ۔
افسانہ نیا قانون کی کردار نگاری
اُستاد منگو عالمی ادب کے زندہ جاوید کرداروں میں سے ہے۔ وہ برصغیر کے ان معصوم انسانوں کا نمائیندہ ہے جو غلامی اور استحصال سے نفرت تو کرتے ہیں، مگر اس کے اظہار کے لئے مناسب وقت اور موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اگرچہ ان کی خبر اور بے خبری میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا مگر ان کے خواب اوران کی تعیر میں بڑے فاصلے ہوتے ہیں۔ ذاتی دکھ کی طرح قومی صورت الثتیار کر لیتے ہیں،
منگو کی انگریزوں سے نفرت سے واضح ہو جاتا ہے۔’منٹو کی کردار نگاری پر سابقہ صفحات میں بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی ہے، یہاں اُس کی تکرار تحصیل حاصل ہوگی، اس لئے یہاں صرف استاد منگو کے کردار پر نظر ڈالنا ہی کافی ہوگا۔ منٹو کا کردار ایک زندہ جاوید کردار ہے۔ اگر چہ ناخواندہ اوران پڑھ ہے، تاہم ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کا اسے ادراک ہے اور وہ مزید سہولتوں اور مثبت تبدیلیوں کا خواہاں ہے ۔
وہ جذباتی اور نجات پسند اور جلد باز ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ محب وطن اور غیرت مند بھی ہے۔ غیر مکی آقاؤں سے اُسے سخت نفرت ہے، جس کا اظہار وہ مختلف انداز سے مختلف اوقات میں کرتا رہتا ہے اور یوں وہ اپنے جیسے سیدھے سادے مگر باشعور عوام کا نمایندہ ہے۔
ایک نقاد اس کے بارے میں یوں تحریر پرداز ہیں۔اس کردار ( منگوخان ) کے پیرائے میں منٹو نے ملکی سیاست اور سیاسی ماحول پر گہر طنز کیا ہے اور عوام کے دلوں میں چپھے اس بغاوت کے جذبے کی نشاندہی کی ہے، جس کے تحت منگو ایک گورے کو پیٹتا ہے۔
اس کردار کے ذریعے منٹو نے عوام کی سیاسی و سماجی بیداری اور انقلابی و اصلاحی جذبات کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں ان کا رویہ ترقی پسندانہ ہے اور اس افسانے میں ان کے انداز فکر کی ندرت اور قدرت بیان کے جابجا ثبوت ملتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اور فاضل مصنف منگو کے کردار پر یوں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس افسانے میں اُستاد منگو خان کا کردار در اصل نیم پڑھے لکھے لوگوں کا بھی نمائیندہ ہے اور ہماری عجلت پسند جذباتی اکثریت کا بھی نمایندہ ہے۔ ہماری قوم اور خصوصاً برصغیر کے رہنے والے انسان بنیادی طور پر جذباتی واقع ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ حالات کا غیر جذباتی تجزیہ کرنے کے بجائے خوابوں کے سہارے اپنے فیصلے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیڈر حضرات ہماری اس کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمارا مسلسل استحصال کر رہے ہیں ۔
ہم ہر آنے والے سے اچھے دنوں کی اُمید وابستہ کر لیتےہیں، جو بہت غلط ہے۔ نیا قانون کا استاد منگو خان نئے آئین، نئے قانون کی خبر سن کر اسی قسم کی جذباتیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اُستاد منگو نئے قانون کی خبر سن کر آیا ہے
اور یہ خبر کسی دوسرے تک پہنچانے کے لئے بے قرار ہے۔ اتنے میں نتھو گنجا اڈے پر آتا ہے، منگو بلند آواز سے اس سے کہتا ہے۔
ہاتھ ادھر لا ، ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے تیری اس گنجی کھوپڑی پر بال اُگ آئیں ۔ نیا قانون کا مرکزی کردار استاد منگوخان ، انگریزوں سے بڑی نفرت کرتا ہے۔ اس کا یہ رویہ بھی عوام الناس کی جذباتی سطح کا نمایندہ ہے کیونکہ پسے ہوئے لوگ اپنے دگرگوں حالات کا ذمہ دار انگریزوں کو سمجھتے تھے۔ اُستاد منگو خان کہتا ہے ۔
قسم ہے، بھگوان کی ، ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اُٹھاتے تنگ آگیا ہوں ۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں، رگوں میں خون کھولنے لگتا ہے، کوئی نیا قانون دانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے ، تیری قسم جان میں جان آجائے ۔”
استاد منگو خان اپنے تانگے میں بیٹھنے والی پڑھی لکھی ، سواریوں کی گفتگو بڑے غور سے سنتا ہے، مگر وہ ان سے نتائج اپنی مرضی کے اخذ کرتا ہے۔ وہ بعض جگہوں پر روس کے بادشاہ کے حوالے سے بھی بات کرتا ہے،
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روسی انقلاب کے متعلق بھی کچھ معلومات رکھتا ہے کہ وہاں پر لوگوں کے مسائل کس طرح حل ہوئے ہیں اور وہ دنیا میں نئے قانون کے لئے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔منٹو نے منگو کو چوان کو ایک علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ منگو انقلاب اور حریت کی علامت ہے جو بر صغیر کے اکثر لوگوں کی طرح گو پڑھا لکھا نہیں ہے،
مگر دو تین امور کے بارے میں اس کے پاس واضح رد عمل اور طرز فکر موجود ہے۔ انگریزی استعمار سے دشمنی ، اپنے استحصال کا بھر پور احساس اور تبدیلی کی خواہش ! منٹو کے اس شاہکار افسانے کے لازوال کردار ” استاد منگو کے بارے میں ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر کا یہ تبصرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں:
نیا قانون کا مرکزی کردار استاد منگو ہماری مجلسی زندگی کا وہ کردار ہے جو مستعار روشنی سے اپنی دانشوری ، بصیرت اور سیاسی سوجھ بوجھ کی دھاک ہم مجلسوں پر جمائے ہوتا ہے۔ وہ شہر بھر میں گھومتا ہے، بھانت بھانت کی سواریاں، طالب علم، وکیل، تاجر مقدمے باز ، دیہاتی ، مارواڑی ، سیاسی سماجی ، اخباری کارکن اور نجانے کون کون اس کے تانگے میں سفر کرتا ہے۔
سفر کے دوران ، ان کی باتوں اور بحثوں سے اسے سیاسی ، سماجی ہر طرح کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ کچھ باتیں اسے سمجھ آتی ہیں، کچھ نہیں، تاہم عام انسانوں کی طرح اس کے بھی اپنے جذبات ، خیالات، احساسات اور نظریات ہیں، اس کی اپنی توجیہات ہیں۔ وہ سواریوں سے اخذ شدہ معلومات کی بنا پر پیشن گوئیاں اور سیاسی تبصرے بھی کرتا ہے۔ وہ اپنی طرز کا خود ساختہ عوامی دانشور ہے انگریزوں سے اُسے سخت نفرت ہے۔
نئے قانون کے نفاذ سے اس نے عجیب و غریب توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، چنانچہ یکم اپریل کو نئے قانون کے نفاذ کے تصور سے سرشار ایک انگریز کو قومی غیرت کے جذبے کے تحت پیٹ ڈالتا ہے کہ وہ ہیرا منڈی جانا چاہتا ہے اور اُستاد منگو سے بد تمیزی کرتا ہے ۔ افسانے میں یکم اپریل کی تاریخ بھی انگریز حاکموں کی طرف سے ہندوستانی قوم کو فرسٹ اپریل فول بنانے کی طرف واضح اشارہ ہے ۔
نیا قانون کا اسلوب
آخر پر پروفیسر گلزار محمد کا افسانے کے اسلوب کے متعلق یہ اقتباس دیکھتے ہیں:
منٹو نے نیا قانون میں اسلوب بیان کے تمام وسائل سے کام لیا ہے ۔ یہ افسانہ جہاں فکری لحاظ سے ایک شاہکار ہے، وہاں اس کی فنی عظمت کی دلیل میں ہے۔ اس کے آغاز و انجام اور درمیان کے واقعات کا فنی اُتار چڑھاؤ، نازک اور پیچ در پیچ اور شدید قسم کا نقطہ عروج اور تضاد، موضوع کے لحاظ سے اہم بھی ہے اور منٹو کے اسلوب کا خاصہ بھی !!
ڈاکٹر سلیم اختر کے ان الفاظ پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں:
منٹو کا بہت چرچا رہا ہے، ان کی زندگی میں بھی اور انتقال کر جانے کے بعد بھی منٹو کی ایک اپنی لفظیات تھی۔ اس کے کردار جس زبان میں گفتگو کرتے تھے وہ صرف منٹو ہی قلمبند کر سکتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سیدھے سادے انداز میں کہانی بیان کر رہا ہے۔
اسے روحانی افسانہ نگاروں کی طرح بہار یہ قصیدہ کی تشبیب جیسی منظر نگاری کا شوق نہ تھا، نہ وہ اپنے کرداروں کا لمبا چوڑا تعارف کرواتا اور نہ اسے سراپا نگاری سے خصوصی شغف تھا لیکن اس کے باوجود چند کاٹ دار فقروں کی مدد سے وہ اپنے کردار کے باطن میں بر پا حشر کی تصویر کشی کر دیتا۔ منٹو کی زبان کی تیزی کا یہ عالم تھا کہ الفاظ تیزاب میں ڈوبے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔
افسانہ: افسانہ راہ نجات کا تنقید جائزہ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں