نظم: مستقبل کیا ہوگا از اقراء اقبال

نظم: مستقبل کیا ہوگا از


مستقبل کیا ہوگا
یہ میری قوم کے لوگ کہاں جارہے ہیں
یہ ھاتوں میں آ گ پکڑے مزے اڑا رہے ہیں
ماں بیٹی کو بیٹی ماں کو سرے عام نچا رہی ہے
جو پوچھو تو خوشی سے ٹک ٹاک بنا رہی ہے
مغرب کو سامنے رکھ کر دین تعلیم بھول کر
یہ میری قوم کے نوجوان مستقبل بنارہے ہیں
ضرورت ہے جس طاقت کی وہ لاحاصل ہے
اپنے ھاتوں سے نسلوں کے گھر جلا رہے ہیں
کہاں ہے اقبال کے مرد مومن اور شاہین
بے مقصد زندگی پر بزرگ آ نسو بہارہے ہیں
ابھی وقت ہے گری ہوئی کلیوں کو چن لو
ہو گا دل خوش مسلمان واپس آ رہےہیں


اقراء اقبال

6 اگست 2024

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں