نظم خلش از سانول رمضان


آرزو تھی کہ ترے در پہ کبھی آؤں میں
من میں امید لیے، ہاتھ میں کشکول لیے
جن کو بنتے ہوئے اک عمر لگی ہے مجھ کو
ان سبھی خوابوں خیالوں کا کوئی غول لیے
پر مرے پاؤں میں حالات کی زنجیریں تھیں
میرے خوابوں کی مرے سامنے تعبیریں تھیں
ان سے کس طور میں منہ پھیر کے جا سکتا تھا
اور قبائل کی گرہ بندی کو اے جاں! تو بتا
میں ترے ساتھ بنا کیسے گرا سکتا تھا
پر بھروسہ تھا کہ خیرات تو مل جانی تھی
گر ترے در پہ کسی وقت صدا دیتا میں
کچھ چبھن،آگ، تمنا تو ترے دل میں بھی تھی
گرمیء دل سے اے کاش! اس کو جگا دیتا میں
بس تعلق تھا فقط اتنا گلی ایک رہی
آرزو ایک رہی، اور صدا ایک رہی
فرق اتنا رہا دونوں ہی صدا دیتے رہے
ایک دوجے کی سماعت سے کہیں دور پرے
اپنی تنہائی میں، اپنے ہی چراغوں کے تلے
روشنی کرتے رہے خواب نئے بنتے رہے

✍ سانول رمضان
M Sanwal Ramzan

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں