نظم

اسے کہنا نہیں ہوتا مکمل کچھ بھی دنیا میں

پس پردہ کہانی بھی ہزاروں رخ بدلتی ہے

کہیں دھوکہ، کہیں دوری، کہیں پھر جان ظلمت میں

کہیں یوسف بازاروں میں،کہیں معراج پر احمد

کہیں پہ خود ملاقاتی ، کہیں پہ آل نیزے پر

چاہے ہیں عشق کے شائق مگر پھر نا مکمل ہیں

اسے کہنا ادھورا ہے تمھارا چاند سا چہرہ

چمکتے چاند کی خاطر گھنی راتیں ضروری ہیں

محبت نامکمل ہے تو نفرت بھی ادھوری ہے

اسے ہم پا نہیں سکتے جو ہوتا بھی ضروری ہے

اسے کہنا بہت مشکل ہے جس کو عشق کہتے ہیں

بنا سمجھے سبھی جس کا دیوانے درد سہتے ہیں

اسے کہنا ادھوری ہے ہاں بالکل یہ ادھوری ہے

میری عاطف یہ راۓ بھی قسم سے نامکمل ہے (سرفراز عاطف)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں