نذیر احمد کی ناول نگاری ان کی ذاتی زندگی کا پرتو
نذیر احمد کے ناولوں میں ان کی اپنی زندگی اور مشاغل کا بڑا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ ان کے فن کو سمجھنے کے لئے ان کے فکری نظام ان کی افتاد طبع اوران کے نفسیاتی پس منظر کا مطالعہ ضروری ہے۔ ان کی زندگی کے اہم واقعات کا جائزہ ان کی شخصیت اور فن کو سمجھنے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
نذیر احمد ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد سعادت علی بھی ایک عالم تھے۔ نذیر احمد کا خاندان ، ددھیال اور نھیال دونوں طرف سے مولویوں کا خاندان تھا۔ اسی مذہبی فضا میں مولوی صاحب پیدا ہوئے اور اسی فضا اور ماحول میں انہوں نے تربیت پائی ۔ ان کا خاندان مذہبی تو تھا ہی غریب بھی تھا۔ ابتدائی تعلیم کچھ مکتب میں ہوئی اور کچھ والد کے زیر سایہ۔
اس کے بعد ایک ڈپٹی کلکٹر کے گھر کی خوشحالی کا حال انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس لئے خوشحال زندگی کی امنگ ان کے دل میں لامحالہ پیدا ہوئی ہوگی ، اور اسے حاصل کرنے کے لئے مذہبی علم کے علاوہ دنیوی علم کی اہمیت ان کے دل میں جاگزیں ہوئی ہوگی، کیونکہ انہوں نے دنیوی تعلیم کے فوائد کوڈ پٹی کلکٹر کی زندگی میں جلوہ فرما دیکھا تھا۔
نذیر احمد کی زندگی کا اہم موڑ وہ تھا جب انہیں چودہ برس کی عمر میں مولوی عبد الخالق کے مدرسے میں داخل کر دیا گیا۔ یہاں انہیں محلے سے روٹیاں مانگ کرلانا پڑتی تھیں۔ مولوی عبد الخالق کے گھر میں بھی خدمات انجام دینی پڑتی تھیں۔ یہاں ان کے ذہن میں اور بھی احساس کمتری پیدا ہوا اور مادی اقدار کی برتری کا نقش ذہن پر قائم ہو گیا۔
یہیں انہیں دہلی کے شریف گھرانوں کی عورتوں کو بڑے قریب سے دیکھنے ہوئی ان کی نفسیات کو سمجھنے اور ان کے معاملات خانہ کو جاننے کا موقع ملا۔ یہیں رہ کر انہوں نے دہلی کی ٹکسالی زبان سیکھی۔ گویا مولوی عبد الخالق کا گھر نذیر احمد کے لئے ایک عملی مدرسہ ثابت ہوا۔نذیر احمد کی آئندہ زندگی میں قدامت وجدت اور عقبی و دنیا کا تصادم ان کے شعور میں نظر آتا ہے۔
نذیر احمد کی ناول نگاری میں مقصدیت
ڈپٹی نذیر احمد ایک اعلیٰ درجے کے زبان دان ، مترجم، مقرر اور عالم تھے ۔ ان کی مذہبی تصانیف اور قانونی کتابوں کے ترجموں کی بڑی اہمیت ہے لیکن لوگ انہیں سب سے زیادہ ایک قصہ نویس کی حیثیت سے جانتے ہیں، اور واقعی اگر وہ صرف قصہ نویس ہی ہوتے تو بھی ان کی عظمت میں کوئی فرق نہ آتا۔
نذیر احمد سرسید کی تحریک اصلاح سے متاثر تھے۔ ان کا شمار سرسید کے رفقا میں ہوتا ہے۔ مہدی افادی نے اردو کے جن نامور ادیوں کو اردو کے عناصر خمسہ کہا ہے، نذیر احمد ان میں سے ایک ہیں۔ وہ دہلی کالج کے تعلیم یافتہ تھے۔
ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب ” مرحوم دہلی کالج” میں لکھا ہے کہ یہی وہ پہلی درسگاہ تھی جہاں مشرق و مغرب کا سنگم قائم ہوا۔ ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی جماعت میں مشرق و مغرب کا علم ساتھ ساتھ پڑھایا جاتا تھا۔
اس ملاپ نے خیالات کے بدلنے، معلومات میں اضافہ کرنے اور ذوق کی اصلاح میں جادو کا سا کام کیا، اور ایک نئی تہذیب اور نئے دور کی بنیاد رکھی اور ایک نئی جماعت ایسی پیدا کی جس میں ایسے پختہ روشن خیال اور بالغ نظر انسان اور مصنف نکلے جن کا احسان ہماری زبان اور ہماری سوسائٹی پر ہمیشہ رہے گا۔
نذیر احمد کی ناول نگاری میں معاشرتی عکاسی
اپنے زمانے کے متوسط طبقہ کے مسلمان گھرانوں کی سماجی حیثیت سے نذیر احمد کو ایک خاص لگاؤ تھا۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کی تصویر کھینچی ہے۔ ان کے ناولوں میں واقعات و حالات کے پس منظر کی جو فضابندی کی گئی ہے وہ دراصل ناول نگار کے اپنے ماحول کی بعینہ تصویر ہے۔
ان کے کردار جس تہذیب و معاشرت میں پلے بڑھے ہیں ان کی حرکات و سکنات اور بول چال سے اس تہذیب و تمدن کی بو باس چھلکی پڑتی ہے۔
انتظار حسین کا افسانہ ‘آخری آدمی’ کا خلاصہ، مرکزی خیال اور فکری و فنی جائزہ | The summary of intizar Husain Short story ‘Aakhri Aadmi,’ along with an analysis of its central themes
متعلقہ سوالات
اردو کا پہلا کامیاب ناول نگار کون ہے؟
ڈپٹی نزیر احمد
نذیر احمد کا سخت گیر نقاد کون ہے؟
ڈاکٹر احسن فاروقی
نذیر احمد کو ملائے مسجد کا نے کہا؟
علی عباس حسینی
نذیر احمد کے اکثر کردار۔۔۔۔۔۔ہوتے ہیں ؟
اسم بامسمی
نذیر احمد کو مکالموں کا بادشاہ کا نے کہا؟
علی عباس حسینی
نذیر احمد کا اسلوب عوام کا ہے یا خواص کا؟
عوام کا
نذیر احمد کو تحریک سے متاثر تھے؟
علی گڑھ تحریک