نذیر احمد کے ناول نگاری میں مکالمہ
ناول میں مکالمہ نگاری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ واقعات اور کرداروں کی باطنی کیفیات کو مکالموں ہی سے اجاگر کیا جاتا ہے۔
نذیراحمد کو مکالمہ نگاری میں بڑا درک حاصل ہے۔ انہیں زبان و بیان پر جو بے پناہ قدرت حاصل تھی اس کا اظہار ان کے مکالموں میں بخوبی ہوتا ہے۔
ان کی زبان دہلی کی ٹکسالی زبان ہے وہ جب عورتوں کے مکالمے لکھتے ہیں ، تو آمد اور فطری پن کی انتہا کر دیتے ہیں۔
ان کے فن کے متشدد نقاد ان مکالمہ نگاری کے مداح ہیں علی عباس حسینی لکھتے ہیں کہ: بے شک وشبہ مولانا عورتوں کے مکالمے کے بادشاہ ہیں۔
نذیر احمد کے مکالموں میں جب غم وغصہ نفرت و حقارت یا جوش انتقام کا موقع آئے تو ان کی مکالمہ نگاری کے جو ہر پوری طرح کھلتے ہیں ۔
نذیر احمد کے مکالمے ان کے فن کا کمال بھی ظاہر کرتے ہیں اور نقص بھی۔
عورتوں کے مکالمے ان کے کمال فن کی دلیل ہیں لیکن مردانہ مکالموں میں وہ اکثر پند و موعظت اور مذاکرے و مناظرے کے دفتر کھول دیتے ہیں۔
نذیر احمد کا اسلوب
نذیر احمد کا اسلوب بیان بھی ان کے فن کی طرح منفرد ہے۔ ان کا فن خواص وعوام دونوں کے لئے تھا اس لئے ان کی زبان بھی ایسی ہے، جو علی بھی ہے اور عوامی بھی۔
مولوی صاحب دہلی کی بیگاتی اور عوام زبان اور محاورات و امثال کے بادشاہ ہیں۔ ان کی زبان عربی و فارسی الفاظ و ترکیب سے بوجھل ہے مگر ان تقلیل عناصر کو انہوں نے اپنی رواں دواں تحریروں میں اس خوبصورتی سے دکھایا ہے کہ ان کی ساری عبارتیں پر خروش نغمہ بن گئی ہیں۔
دراصل ان کی تحریروں میں موجود پرخروش آہنگ کے لئے ثقیل اور بلیغ الفاظ و تراکیب ہی موزوں تھے ، جنہیں انہوں نے کمال مہارت سے استعمال کیا ۔
عوام دوستی کے جذبے اور عوامی زندگی سے گہرے لگاؤ کی بنا پر وہ زبان کے معاملے میں اشرافی تکلفات اور چھوت چھات کے قائل نہیں ۔ دہلی کی ٹکسالی زبان ان کی تحریروں کا خاصہ ہے دلی کا روز مرہ اور محاورہ ان کے اسلوب نگارش میں عجب بہار دکھاتا ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں