موضوعات کی فہرست
ناول علی پور کا خلاصہ
اردو زبان کا پہلا ضخیم ناول "علی پور کا ایلی (1961ء) اور دوسرا لہو کے پھول (1969ء) ہے۔ جس کے مصنف حیات اللہ انصاری ہیں۔ علی پور کا ایلی ممتاز مفتی کی تصنیف ہے۔ اس کے بارے میں انہوں نے متعدد انٹرویوز اور اپنی تحریروں میں اعتراف کیا ہے کہ یہ 1947 ء تک ان کی آپ بیتی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا ہے کہ اس میں انہوں نے جھوٹ نہیں بولا ہے اور سچ کے اظہار کو مقدم جانا ہے۔
اردو میں خود نوشت ناولوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ اکثر ایسے ناول بھی خودنوشتانہ رجحان کے ذیل میں نہیں آتے ، مصنف کی زندگی کے واقعات فطری طور پر در آتے ہیں یا اس کی زندگی سے متعلق یا غیر متعلق کوئی نہ کوئی کردار اپنی بھر پور قوت کے ساتھ آن موجود ہوتا ہے۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ ماجرے کے واقعات غیر خود نوشتانہ پہلوؤں پر بنی ہوں۔ انگریزی ادب سے جارج ایلیٹ اور ہمارے ادب سے عظیم فنکارہ قرۃ العین حیدر کی مثالیں دی جا سکتی ہیں اس کے ساتھ ڈاکٹر احسن فاروقی کے غیر مطبوعہ ناول ” دل کے آئینہ میں“ کی مثال دینا ضروری ہے۔
جو کتابی شکل میں 1992ء تک نہیں آیا تاہم ادبی جریدہ سیپ میں یہ قسط وار چھپا ہے۔ اسے ہم علی پور کا ایلی ہی کی مانند خود نوشت ناول کہہ سکتے ہیں۔ اس میں بھی ڈاکٹر احسن فاروقی نے اپنی زندگی کے واقعات کو کامیابی سے فکشن بنایا ہے اور اپنی بشری کمزوریوں کو خوب اجاگر کیا ہے۔
جب ممتاز مفتی یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ناول میں اپنی حیات رقم کی ہے اور قطعاً جھوٹ نہیں بولا ہے تو اس سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ ان کی اپنی اور دیگر کرداروں کی زندگیوں کی جو منظرکشی انہوں نے کی ہے وہ نہ صرف سچی بلکہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اس تناظر میں کہانی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے تا کہ ان کے دعوی کی تصدیق کی جا سکے۔
واضح رہے کہ ایسے خود نوشت ناول جس کے متعلق مصنف کا یہ دعویٰ ہو کہ اس میں بلا کم وکاست بیچ بولا گیا ہے تو اس کے کرداروں کا ہمہ گیر انسانی نفسیات کے حوالے سے سچا اور حقیقی ہونا ضروری ہے اور اس مقام پر ..بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستان کے لیے کی گنجائش کم رہ جاتی ہے البتہ کرداروں کی تکمیل کے لیے قوت متخیلہ کا مبالغہ سے آزاد استعمال اپنی جگہ ضروری ہوتاہے تا کہ حقیقت قابل قبول فکشن یا فسانہ بن سکے۔
ناول میں شروع ہی سے دو کردار واضح طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ایک ایلی یعنی مصنف خود اور اس کا باپ علی احمد ۔ ایلی کو بچپن ہی سے شرمیلا ، دبلا پتلا اور احساس کمتری کا مارا ہوا بتایا گیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ علی احمد عورت کے دیوانے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جنسی جنونی ہیں۔ وہ عاشق اور رنگیں مزاج ہیں۔ اپنی پہلی بیوی حاجرہ اور وہ عادات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے دور ہیں۔
حاجرہ صابر قسم کی بیوی ہے اور علی احمد اور اس کی دوسری بیویوں کی خدمت کو اس نے شعار بنا لیا ہے۔ ایلی حاجرہ ہی سے ہے اور اسی کی طرح مغلوب ذہنیت کا حامل ہے۔ اپنے باپ کے کمرے میں ہونے والی حرکتوں سے وہ سخت نالاں ہے۔ مصنف نے علی احمد کے لیے نین کا سپاہی کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس کی بدنما آوازوں سے ایلی اور اس کی ماں ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔
صفیہ علی احمد کی دوسری جوان بیوی ہے۔ اتفاق سے تھوڑے ہی دنوں بعد وہ مر جاتی ہے بعد میں وہ شمیم سے شادی کرتے ہیں اور کمرے میں بند ہو کر وہ ٹین کا سپاہی بن جاتے ہیں۔ جب شمیم سے علی احمد اکتا جاتے ہیں تو ایک طوائف راجو اس کے پاس کھلے بندوں آنے لگتی ہے۔
اس کی بہن سا جو بھی وہاں آنے لگتی ہے اس عرصے میں راجو نے زہر کھا لیا جس پر علی احمد گھبرا گئے لیکن ان کی خصلتیں جاری رہیں اور ایلی کی شخصیت کے توڑ پھوڑ میں حصہ لیتی رہیں۔ ایلی نے میٹرک کر لیا تھا اس لیے اسے دولت پور کے کالج میں داخلہ دلا دیا گیا۔
لا غر ایلی چوں کہ سمجھ دار ہو چکا تھا اس لیے اپنے باپ کی گھناؤنی عادتوں کا اس قدر اثر لیا کر کہ وہ اپنے آپ کو نامرد سمجھنے لگا۔ اس کی سوچ اس کو ایک جانب پژمردہ بنا رہی تھی تو دوسری جانب ہے اس میں عورت پر فتح اور غلبے کے جذبات بھی ابھار رہی تھی حالانکہ اسے مہندی والے ہاتھوں سے چڑ بھی تھی لیکن عورت سے قربت کی خواہش آتش فشاں کا لاوا بن کر ابلی پڑتی تھی۔
یہیں سے اس کی بانا شادی شدہ عورت شہزاد سے تعلق ناول میں کہانی کو دل آویزی عطا کرتا ہے۔ اس کا شوہر شریف مجہول شخصیت ہے۔ لگتا ہے جیسے اسے شہزاد کے جو بن کا علم ہی نہ ہو جسے ایلی نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ لطف اندوز بھی ہوتا تھا۔
ایلی کو ماں کی کیفیت والی عورت پسند تھی جو اس کے ناز اٹھائے ، لپٹائے اور اپنا آپ اس کے حوالے بھی کر دے۔ایلی کو یہ حجتیں نصیب ہی نہیں ہو ئیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن اس نے شہزاد کے سفید بازو پر ہونٹ رگڑنا شروع کر دیئے اور پھر اس کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور یہ حرکتیں دوبارہ دونوں کو اتنا قریب لے آئیں کہ شریف کی جگہ اگر کوئی معقول شوہر ہوتا تو شاید دونوں کو عالم اشتغال برایت میں قتل کر دیتا۔ اس عرصے میں ایلی فیل ہوا تو علی احمد نے اسے امرتسر میں داخلہ دلا دیا۔ وہاں ایلی کا رابطہ لڑکوں سے ہوا اور اس کے جذبات میں شہزاد سے زیادہ قربت کی خواہش جاگی ۔ واپسی پر اس نے شہزاد پر کئی جنسی وار کیے لیکن ہمیشہ ناکام رہا۔
خفت اور شرمندگی اس کا مقدر بنی۔اس منظر نامے کو مصنف نے اس وقت تبدیل کیا جب ایلی کو بی-اے کرنے کے لیے لاہور آنا پڑا۔ لاہور میں باجی اور سادی دو بہنوں کا قصہ کہانی میں مزید جان ڈالتا ہے۔ سادی سے ایلی کا عشق پروان چڑھتا رہا۔ دونوں بہنوں کا بھائی انصار منصر ایلی کا دوست بن گیا۔ وہ اسے ہوٹلوں میں لے جا کر شراب پلانے لگا۔
سادی ایلی جیسے غیر متاثر کن لڑکے ساتھ بھاگنے پر بھی تیار تھی ۔ دونوں زیورات سے بھرے سوٹ کیس کے ساتھ پکڑے بھی گئے ۔ ایلی نے سادی سے اپنے عشق اور اس کے ساتھ فرار کا انصار منصر سے اعتراف کر لیا اور یہ شادی نہ ہوسکی۔
ایلی پھر شہزاد کی جانب متوجہ ہوا لیکن ایک دن جب اس نے شہزاد کو صفدر نامی شخص کے ساتھ دیکھا تو اس کا مان ٹوٹ گیا لیکن اس نے تعلقات نہیں توڑے اس عرصے میں اس نے ٹیچر ٹریننگ کورس بھی کر لیا تھا اور ٹیچر بن گیا تھا۔ اس کا ادھر ادھر تبادلہ کر دیا گیا۔
اس کے بقول سادی والے لوگ بڑے آدمی تھے جہاں سے خود اسے اور ایلی کو اہمیت نہ ملنے کا یقین تھا۔ناول میں اکثر نقطہ عروج آتا ہے اور گزر جاتا ہے اور ایسا بار بار ہوتا ہے۔ ویسے بھی ضخیم ناول نگار کے لیے اس فنی پیٹرن Pattern کو اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ ماجرے میں تجسس کا عنصر قائم و دائم رہے۔
ممتاز مفتی ذہین ناول نگار ہونے کی وجہ سے اس خصوصیت کو برقرار رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک نئی صورت حال یہ تخلیق کی کہ چار سال کے وقفے کے بعد ایلی میں شہزاد کے لیے ایک ایسی کشش پیدا کی کہ وہ صفدر کے مرنے کے بعد اس چھ بچوں کی ماں کو بھگا کر لے گیا۔ عجیب اتفاق تھا کہ اب شہزاد کا حسن بھی ماند پڑ چکا تھا لیکن ادھر ایلی بھی ایک جنسی بیماری کا شکار تھا جو ٹھیک ہو جاتی ہے۔
شریف نے شہزاد کو غائب پا کر ایلی اور علی احمد کے خلاف خوب ہنگامہ کیا لیکن جب شہزاد خود مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئی اور شریف کی مخالفت میں بیان دیا تو وہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا اور اس نے رشید بانو نامی کسی لڑکی سے شادی کر لی۔ایلی حاجرہ کے پیر سے ملا ، انہوں نے کہا ۔۔۔۔ آوارگی منزل پر بھی لے جاتی ہے۔
اپنی ماں کے پیر کے اس جملے نے اس پر تیر کی طرح اثر کیا۔ اس نے بلند سخت نامی مطلقہ عورت سے شادی کر لی جس کا شوہر عین شادی والے دن طلاق دے کر رفو چکر ہو گیا تھا۔ ایلی میں اعتماد کی قوت بیدار ہوگیا اب وہ ایک کامیاب انسان کے روپ میں سامنے آگیا۔
اس مقام پر پاکستان کے قیام کا تذکرہ ہے۔ ایلی لاہور سے پھنسا تھا۔ لیکن اس کے سوتیلے بھائی ایک ٹرک میں چھپتے چھپاتے اس کے ماں باپ اور بیوی کو لاہور لے آئے ۔ یوں علی پور کے ایلی کو نجات اور خوشی حاصل ہو گئی۔
ناول علی پور کا ایلی کا تنقیدی جائزہ
یہ ایک ضخیم ناول کی کہانی تھی۔جس سے علی احمد، ایلی اور شہزاد کے کردار نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں ۔ کہانی کے ایک حصے میں علی احمد کی جنسی فتوحات کا تذکرہ ہے اور دوسرے حصے میں ایلی کی غالب داستان حیات ہے جس میں اس کی جانب سے اپنی مردانہ خود اعتمادی کو حاصل کرنے کی تگ و دو کا بیان ہے۔ کہانی کا وہ حصہ جو اس کے سادی کے گھرانے سے میل جول پر مبنی ہے اپنی جگہ اہم ہے اور اسے بھی ہم ایلی کی خود اعتمادی کے حصول کی جدو جہد پر محمول کر سکتے ہیں۔
لیکن اگر سادی ایلی کو مل جاتی تو یہ ضخیم ناول اپنے ماجرے کی نصف توانائی کھو بیٹھتا اور پاکستان کی تخلیق کے ساتھ ایلی کی زندگی کا جو نئی صورت حال میں ایک نیا سفر شروع کرنے کا ارادہ تھا وہ ظہور میں نہیں آتا جبکہ ممتاز مفتی کے مطابق ان کی زندگی کی یہ حقیقی تصویر پاکستان کے قیام پر اپنے جلوے دکھاتی ہے۔ اس سے ناول کو ایک یہ نقصان پہنچتا ہے کہ ایلی کی ماں کے پیر کے ادا کیے ہوئے الفاظ … آوارگی منزل پر بھی لے جاتی ہے۔ اپنی معنویت کھو بیٹھتے۔
اسلوب علی پور کا ایلی کا ایک پہلو جو کہ مصنف کے اسلوب سے تعلق رکھتا ہے اور اسے یوچ اور لچر بننے سے بچاتا ہے وہ جنسی مخلوق کا استعاراتی ، علامتی اور اشارتی پہلو ہے۔ اس راہ میں عزیز احمد فرانس کی نیچرل ازم تحریک کے زیر اثر خاصے ناکام رہتے ہیں اور اس کے براہ راست اور کیمرہ مین شپ والے طرز اظہار کی وجہ سے اکثر تنقید کی زد میں رہے ہیں۔
جبکہ اس مقام پر ممتاز مفتی استعاروں ، علامتوں اور رمز یہ اشاروں کے استعمال سے منظر کو ایک اسلوبیاتی جہت عطا کر دیتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس پر بھی کچھ لوگ اعتراض کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جنس کا بیان براہ راست نہ بھی ہو تب بھی قارئین کو ایک مخصوص تلذذ میں مبتلا کر دیتا ہے۔
بیگم افضل کا ظمی اپنے مضمون ” ارد ناول کے پچیس سال مطبوعہ افکار جو ایلی نمبر 1970، صفحہ 163ء میں ایلی اور شہزاد کے تعلقات کے تذکرہ کو بے معنی قرار دیتے ہوئے لکھتی ہیں ۔ (جنسی تعلقات اور جنسی جذبے کے تذکرے سے پوری کتاب بھری پڑی ہے اور یہ تذکرہ بے معنی انداز میں کیا گیا ہے جس سے کسی صداقت پر روشنی نہیں پڑتی)
اپنی اس رائے کی بنیاد پر وہ اسے ناکام ناول قرار دیتی ہیں لیکن اس رائے پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہوگا کہ ایلی کے بچپن کے احساس محرومی ، اس کے تاریک پس منظر جس پر اس کا پست ذہنیت، بے غیرت اور جنس زدہ باپ علی احمد مسلط ہے، اس کی فحش حرکتوں فیٹی زم ہے (Fetishism)
کہ جس کے تحت محبوبہ کے کپڑوں اور دیگر اشیاء سے جنسی لطف حاصل کیا جاتا ہے، سادیت پسندی، مسوکیت اور اس جیسے دوسرے جنسی و نفسیاتی پہلوؤں کے حوالے سے ناول کے ڈھانچے ہی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے ۔
پھر اس میں جہاں تک صداقت کے نہ پائے جانے کا تعلق ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ جنسی اور نفسیاتی علوم کے حوالوں سے فکشن میں مندرجہ بالا وارداتوں کا تذکرہ کرنا نا گزیر ہو جاتا ہے ورنہ ناول میں کردار نگاری اپنا جواز ہی کھو بیٹھے گی ۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں