کتاب کا نام: میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ: 5611
موضوع: میر تقی میر کی شاعری میں المیہ کے عناصر
صفحہ: 62 سے 65
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
میر تقی میر کی شاعری میں المیہ کے عناصر
لیکن اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ الجھاؤ ، بے اطمینانی ، احساس تنہائی ، نا کامی ، سماجی و سیاسی خلفشار و غیره کے پیدا کردہ دردوغم سے میر نے نباہ کسی طرح کیا ؟ کیا وہ اپنے اور زمانے کے مصائب میں اس طرح کھو گئے کہ اُنھیں سوائے غم کے دنیا میں اور کچھ سجھائی نہ دیا اور کیا ان کی الم پرستی ،
مردم بیزاری کی صورت اختیار کر گئی یا اس کی شکل وصورت مختلف نوعیت کی حامل ہے۔ مزید برآں میر کی دردوغم کی شاعری قارئین پر کسی قسم کے اثرات مرتب کرتی ہے۔ دراصل ان کی شاعری انتہائی شائستگی اور وقار کے ساتھ اپنے زمانے کے کرب واضطراب کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کا تصور غم
وہ اپنے دور کی بد حالی اور نجی سانحات زندگی سے بغاوت کی حد تک نا آسودہ تھے ۔ البتہ ان کے لہجے میں بغاوت کا مہذب اور پر تمکنت احساس ملتا ہے۔ وہ غم کو محض رونے دھونے کا ذریعہ نہیں بناتے بلکہ غم کے وقار کو قائم رکھتے ہیں ۔ وہ غم کو اعلیٰ تخلیق کا ذریعہ بناتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کلام میر میں عشق کا تجرباتی اظہار
اُنھوں نے اپنی بے کسی کو ظاہر کرنے کے باوجود استغنا، بے نیازی اور قناعت کو اپنا یا شیوہ بنایا۔ ان کے غم میں اگر چہ یاس کا رنگ قدرے تیکھا ہے تا ہم ان کے غم انگیز اشعار پڑھ کر طبیعت یا سیت کا شکار نہیں ہوتی بلکہ ان کا غم انتہائی پر لطف معلوم ہوتا ہے اور ان کے غم میں شریک ہونے کو جی چاہتا ہے۔ ان کے لیجے کا دھیما پن اور پرسوز انداز قارئین کے دلوں میں یاسیت کی بجائے نرماہٹ پیدا کرتا ہے۔
یہی ان کے غم کی توانائی ہے۔ ان کے غم میں دوسرں کا شریک ہو جانا ، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا غم ، دراصل انسان کا غم ہے۔ ان کے غم میں خلوص اور سچائی ہے۔ ان کے غم میں جی مار کر بیٹھ رہنے کی بجائے حرکت و ہنگامہ اور زندگی کی حرارت پائی جاتی ہے :
بے قراری جو کوئی دیکھے ہے سو کہتا ہے
کچھ تو ہے میر کہ اک دم تجھے آرام نہیں
محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بیکار پھرا کرتے ہیں ۔
ہنگامہ گرم گن جو دل ناصبور تھا
جہاں سے دیکھیے اک شعر شور انگیز نکلے ہے۔
قیامت کا ساہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
میر میں اجتماعی دردو غم
میر نے اپنے دور کے اجتماعی اضطراب اور تہذیبی اکھاڑ پچھاڑ کے المیے کو اپنی تخلیقی شخصیت میں جذب کر کے اسے شاعری کے آہنگ میں سمو دیا ہے ۔ چنانچہ ان کا غم اپنے دور کی ایک حقیقت اور صداقت کا اظہار بن جاتا ہے۔
اگر وہ اس حقیقت و صداقت کا اظہار نہ کرتے تو یہ اپنے عصر سے منہ موڑنے کے مترادف ہوتا۔ لیکن میر نے اپنی شاعری میں اپنے عصر کے درد و غم ہی جمع نہیں کیے بلکہ غموں کو ایک مثبت تخلیقی شکل دے کر اپنے عصری شعور کا بھی احساس دلایا ہے۔ غم میر کے ہاں انسانی زندگی کا ایک حصہ بن کر آتا ہے۔
اسی لیے اس غم میں ٹھہراؤ کی کیفیت موجود ہے۔ ان کا غم شکستگی کا باعث نہیں بنتا۔ مزید برآں چونکہ میر کے اپنے غم میں غم دوراں بھی شامل ہے لہذا میر جو ا جن حالات سے دوچار ہوئے ، اُنھوں نے اس کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ وہ غم جاناں اور غم دوراں کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ قارئین غم کو بھول کر اس کے حسن بیان میں کھو جاتے ہیں ۔
گویا وہ اپنے غم کے اظہار سے اپنے قاری کو پستی سے اٹھا کر بلندی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان کا غم انسان کو زندگی سے منقطع نہیں کرتا بلکہ انسان میں احساسِ لطافت پیدا کرتا ہے۔ اس طرح غم زندگی کی ایک نئی قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
میر کے ہاں ایک اور چیز بھی لائقِ مطالعہ ہے۔ غم کے اظہار کے باوجود ان کے ہاں کائنات کے حسن و جمال کی خوبصورت تصویر میں ملتی ہیں اور زندگی ایک انتہائی پرکشش چیز بن جاتی ہے۔ وہ انسانی عظمت کے بھی دل سے قائل تھے چنانچہ ان کا احساس غم زندگی کی بنیادی حقیقت بن جاتا ہے ۔
میر کے ہاں کمال کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے طرز بیان سے غم والم کو کچھ اور بنا دیتے ہیں۔ جس کا اثر پسپائیت لیے ہوئے نہیں ہوتا ، بلکہ مثبت ہوتا ہے ان کے طرز بیان میں ایسا حسن موجود ہوتا جس سے قارئین محظوظ ہوتے ہیں ۔
ان کے چند ایک ایسے اشعار دیکھیے جن سے غم والم ، ناکامی ، موت اور فنا کے ذکر کے باوجود یاسیت کسی طور بھی طاری نہیں ہوتی :
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
غم کے جانے کا نہایت غم رہا
دل پر خوں کی اک گلابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
اس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا
رہ طلب میں گرے ہوتے سر کے بل ہم بھی
شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا
نامرادی کی رسم میر سے ہے
طور یہ اس جواں سے نکلا
صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا
جاتا ہے یار شیخ بکف غیر کی طرف
اے کشتہ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
تاب کس کو جو حال میر سے سنے
حال ہی کچھ اور ہے مجلس کا
کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
میر کا غم انسانی آرزؤں کی شکست ، تنہائی کے احساس اور زندگی میں انسان کی بے چارگی اور موت کے مقابل فرد کی بے مائیگی کے شعور سے پیدا ہوا ہے لیکن میر جب اپنے غموں سے باہر نکل کر دوسروں کے دکھ درد پر نظر ڈالتے ہیں اور اپنے غموں کا مواز نہ معاشرے کے دیگر افراد کے دکھوں سے کرتے ہیں۔
تو اُنھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دکھ درد معاشرے کے دوسرے آلام و مصائب کے مقابلے میں کچھ زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔
بلکہ دوسرے افراد کو بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسرے تو مصائب کے ہاتھوں خاک ہو گئے ہیں ۔ کائنات کے مقابل انسان کی کم مائیگی کا احساس میر کو یہ شعور عطا کرتا ہے کہ اگر چہ نا کامیوں سے میر کو واسطہ پڑا ہے۔
لیکن دوسرے افراد تو تاریخی جبر اور دیگر قوتوں کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتر گئے ہیں ۔ دوسرے افراد کے مصائب کے مقابل میر کا غم کیا چیز ہے۔ اس احساس کے حامل دو ایک شعر دیکھیے :
زیر فلک بھلا تو رووے ہے آپ کو میر
کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہو گیا ہے
ناکام رہنے ہی کا تمہیں غم ہے آج میر
بہتوں کے کام ہو گئے ہیں کل تمام یاں
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں