مولانا ظفر علی خان تعارف و سوانح
پیدائش
مولانا ظفر علی خان تعارف و سوانح، مولانا ظفر علی خان 19 جنوری 1873ء میں کوٹ میرٹھ وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔
موضوعات کی فہرست
تعلیم
ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول وزیر آباد سے حاصل کی اور گریجویشن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے مکمل کی۔
ملازمت
کچھ عرصہ بہ حیثیت معتمد ( سیکرٹری ) نواب محسن الملک کام کیا۔ اس کے بعد حیدر آباد دکن میں کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ نیز حیدر آباد دکن میں بطور معتمد محکمہ داخلہ بھی رہے اور اخبار دکن ”ریویو“ جاری کیا۔
یہ بھی پڑھیں: دیوان مولانا ظفر علی خان | pdf
1908ء میں لاہور آگئے اور روز نامہ زمیندار کی ادارت سنبھالی ۔ یہ اخبار ان کے والد مولوی سراج الدین نے 1903ء میں جاری کیا تھا۔
مولانا ظفر علی خان کی محنت سے یہ اختبار پنجاب کا ایک اہم اخبار شمار ہونے لگا۔ اردو صحافت کا امام:
اپنی بے پناہ صحافتی سرگرمیوں کی وجہ سے مولانا کو اردو صحافت کا امام کہا جاتا ہے۔
صحافتی سرگرمیوں کے ساتھ مولانا ظفر علی خان نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور کئی شان دار کتب لکھیں ۔
وفات
27 نومبر 1956ء کو وزیر آباد میں وفات پائی۔
تصانیف
آپ کی مشہور کتب میں معركة مذہب و سائنس، غلبة روم، سیر ظلمات، جنگ روس و جاپان شامل ہیں۔
جب کہ ان کی شاعری کی کتابیں، بہارستان، نگارستان اور چمنستان اپنی مثال آپ ہیں۔ جن میں مذہبی ، سیاسی ، تہذیبی اور سماجی موضوعات پر نظمیں شامل ہیں۔
مولانا ظفر علی خان کی نعت گوئی
مولانا ظفر علی خان کی نعت میں جہاں عشق رسول ﷺ موج زن ہیں؛ وہاں انھوں نے اپنے عہد کے مسائل و معاملات کو بارگاہ رسولﷺ میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ باالفاظ دیگر ان کی نعت میں استغاثہ کی کیفیت موجود ہے۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر لکھتے ہیں:
اردو کی ادبی تاریخ میں نعت کا سرمایہ قابل لحاظ ہی نہیں قابل فخر بھی ہے۔ مولانا ظفر علی خان کی حیثیت اس سفر میں رہنما کی سی ہے۔ ان سے پہلے اردو نعت اپنی پیش رو عربی ، فارسی نعت کی طرح رسول ﷺ کے اوصاف و فضائل کے بیان تک محدود تھی لیکن ظفر علی خان نے اسے عصری مسائل سے آمیز کیا اور نعت میں قصیدے کا رنگ پیدا کرتے ہوئے حسن طلب کو عصری مسائل کا آئینہ بنا دیا۔
استغاثے کی یہ روشن ان سے پہلے صرف حالی کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔”
( ڈاکٹر زاہد منیر عامر ، مولانا ظفر علی خان کی نعتوں میں مستقبل کی ایک جھلک ، مشمولہ دھنک نعت رنگ
تعلیمات نبوی کا بیان
مولانا کی نعت کی ایک اور خصوصیت نعت میں تعلیمات نبویﷺ کا بیان ہے۔ انھوں نے حضور ﷺ کی تعلیمات کو اپنی نعت میں سمو کر مسلمانوں کو سیرت کے عملی پہلوؤں کی طرف متوجہ کیا اور نعت سے اصلاح و تبلیغ کا کام لیا۔
ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں:
ان کی نعت گوئی عشق رسول اکرم ﷺکا اظہار تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ حضورﷺ کی تعلیمات اور ارشادات کی بھی آئینہ دار ہے۔ انھوں نے پژمردہ اور مغلوب مسلمانوں کے اندر ایمان کی حرارت اور سعی و عمل کا صور پھونکنے کے لیے اپنی نعت سے ایک تحریک کا کام لیا۔”
( ڈاکٹر ریاض مجید، اردو میں نعت گوئی ص: 439)
تمثیلی اسلوب بیان
مولانا ظفر علی خان نے حضور ﷺ کے حقیقی اوصاف بیان کرتے ہوئے قرآنی و احادیث نبویﷺ کی تعلمیات کا بھی جا بہ جا استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے سیرت طیبہ کے واقعات کو نظم کرتے ہوئے تمثیلی اسلوب اختیار کیا ہے۔
نعت میں ملی شعور کی واضح جھلک بھی ان کے ہاں موجود ہے۔ اپنے عہد کی ضروریات کو پیش رکھا اور نعت میں ان کو سموکر ان سے اصلاح احوال کا کام لیا۔ ان کے اس عمل نے مسلمانوں میں بیداری کی ایک نئی روح پھونک دی۔
نمونہ کلام
سب سے زیادہ مستحق تیری تو جہات کے
ہم ہیں کہ ہم پر آپڑیں سارے جہاں کی مشکلات
تیری نگاہ مہرباں، ہم کو ذریعہ فلاح
تیری دعائے مستجاب ہم کو وسیلہ نجات
عقیدہ ختم نبوت
اس کے علاوہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو ایک تحریک کی شکل بھی مولانا ظفر علی خان نے دی اور نعت میں اس عقیدے کو باقاعدہ ایک موضوع کے طور پر شامل کیا۔
پروف ریڈر نائمہ خان
حواشی
موضوع۔مولانا ظفر علی خان تعارف اور سوانح اور انکی نعت گوٸ۔
کتاب کا نام۔شعری اصناف ۔تعارف اور تفاہیم۔
کورس کوڈ۔9003
مرتب کردہ۔Hafiza Maryam