مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ کی تشریح

شکیب جلالی کی مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ کی تشریح

شکیب کی غزل (انتخاب)

مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ

تشریح :دن ڈھلے: شام کے وقت)
کالی جھیل: مراد ہے فنا کے گھاٹ

تشریح:

کِھلے ہوئے پھول آنکھوں کو بہت بھلے لگتے ہیں اور یہ منظر ہر دیکھنے والے کو پسند آتا ہے۔ مگر خزاں کا موسم اس رنگین فضا کو زیادہ دیر رہنے نہیں دیتا۔ ان کھلے پھولوں کو دیکھنے والے اس وقت کو بھی ملاحظہ کر جب یہ مرجھانے لگتے ہیں۔

اگرچہ میں سورج کی مانند منور اور دوسروں کو روشنی دینے والا ہوں مگر مجھے بھی آخر زوال آتا ہے۔ خاص طور پر ڈوبنے سے ذرا پہلے میری رنگت زرد پڑ جاتی ہے۔ یہ عروج سے زوال کی کہانی کا خوبصورت انداز میں بیان ہے۔

موضوعات کی فہرست

شعر 2

کاغذ کی کترنوں کو بھی کہتے ہیں لوگ پھول
رنگوں کا اعتبار ہی کیا ، سونگھ کے بھی دیکھ

لغت: کاغذ کی کترنیں: بناوٹی پھول

تشریح:

لوگوں کی باتوں کا کیا بھروسا، وہ تو نقلی پھولوں کو بھی اصل بتاتے ہیں۔ حالانکہ کبھی کاغذ سے بھی ایسا ممکن ہے۔ سنی سنائی روایت پر ایمان لانے کی بجائے پرکھ کر دیکھ لینا ضروری ہے تا کہ ان پھولوں کی اصلیت معلوم ہو جائے۔ اس شعر میں حقیقت تک رسائی کے لیے تحقیق کرنے کا کہا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شکیب جلالی ایک مطالعہ

شعر 3

ہر چند راکھ ہو کے بکھرتے ہیں راہ میں
جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ

لغت: راکھ : جل کر خاکستر

تشریح:

(پرندہ کہتا ہے) یہ سچ ہے کہ میرے پر جل کر خاکستر ہو ہو کر راستے میں گرتے جا رہے ہیں مگر اس بات کو نہ بھول کہ میں نے جلتے ہوئے پروں کے ساتھ ہی اڑان بھری تھی مجھے اس بہادری پر داد دے۔ یہاں بھی انسان کو پرندے سے تشبیہ دے کر مشکلات و مصائب کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کڑے وقت اور ظلم کے پہاڑ ٹوٹنے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری بلکہ اپنی ہمت اور طاقت سے اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شکیب جلالی میں شاعری میں غم و یاسیت

شعر5

عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تذکرے بھی دیکھ

لغت: شاہ کار: بہترین تخلیق۔ دیمک : کاغذ ،لکڑی کو کھانے والا کیڑا، مراد وقت کی دھول

تشریح:

وہ فن پارہ ( شعر ، تصویر، کہانی، مورت ) جس نے اپنے زمانے میں بہت شہرت پائی اور جس کو اعلیٰ و عمدہ تخلیق ہونے کا شرف بخشا گیا ۔ جس کی شان و شوکت کے بڑے چرچے تھے۔ وہ وقت کی دھول میں گم ہو چکا ہے۔

زمانے گزرنے کے بعد اس کو دیمک نے چاٹ لیا اور وہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا۔ اس شعر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ عزت ، شہرت، دولت، حسن، جوانی وغیرہ فانی ہیں ایک دن یہ سب معدوم ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا انسان کو یہ سبق ہمیشہ ازبر رکھنا چاہیے ۔ بادشاہوں کے محلات جو کھنڈرات میں بدل چکے اس کی سب سے عمدہ مثال ہیں۔

شعر 5

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پر بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

لغت: ڈھانپ؛ چھپانا ، مطلب آنکھیں چرانا

تشریح:

دوران سفر تم نے خود یہ کہا تھا کہ میرا وجود کشتی پر فالتو بوجھ ہے اور مجھے سوار نہیں ہونا چاہئے تھا۔ چنانچہ بیچ منجدھار اب جب میں نے کشتی سے چھلانگ لگا دی ہے اور غوطے کھانے لگا ہوں تو تم نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ تم میرے ڈوبنے کا منظر دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔

تمھیں چاہیے کہ مجھے موت کے منہ میں جاتا دیکھو کہ دراصل میں تمھارا ہی حکم بجا لا رہا ہوں۔ شکیب عشق و عاشقی کے پیرائیہ میں زیست کے سنجیدہ مسائل بھی شعر میں بیان کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ یہ ظالم کے پچھتاوے اور مظلومیت کی جیت کا استعارہ ہے۔

شعر6

اس کی شکست ہو نہ کہیں تیری بھی شکست
یہ آئینہ جو ٹوٹ گیا ہے اسے بھی دیکھ

لغت: شکست : ہار ،ٹوٹ جانا

تشریح:

یہ آئینہ جو ٹوٹ کر بکھر گیا ہے ایسا نہ ہو تیری ذات بھی اسکے ساتھ کرچی کرچی ہوگئی ہو۔ اس شکستہ آئینے کو غور سے دیکھ اور سوچ کہ جو تجھے تیر عکس دکھاتا تھا تمھیں اپنے حال سے باخبر رکھتا تھا، وہ اب نہیں رہا۔ اسے فقط آئینے کا نقصان سمجھ لینا عقل مندی نہیں ۔

قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ اب تجھے اپنی ذات سے آشنائی کون دے گا۔ اپنی شخصیت سے لا علمی بھی حقیقت میں شکست کی ہی ایک شکل ہے۔ دوست کا نقصان اور نفع در اصل سانجھا ہوتا ہے۔ اس شعر میں لطیف پیرائے میں ادھر بھی اشارہ ہے۔

شعر 7

بچھتی تھی جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں
اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ

لغت: پھولوں کی چادریں: ہر طرف آؤ بھگت، خدمت
گھاس کے پیروں تلے : خاک سے بھی کم حیثیت

تشریح:

ایک وہ دور تھا کہ ہم بہت قیمتی تھے۔ جدھر جاتے ہماری تعظیم کی جاتی۔ آؤ بھگت ہوتی۔ اب زمانے نے کروٹ لی اور ہم وہیں در بدر ہو گئے۔ خاک و خاشاک سے بھی نچلے درجے پر پہنچ گئے ہیں۔ اس شعر میں شاندار ماضی کا زوال زدہ حال سے تقابل کیا گیا ہے۔

شعر 8

کیا شاخِ با ثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو
نظریں اٹھا شکیب کبھی سامنے بھی دیکھ

لغت : با ثمر : پھلوں سے بھر پور

تشریح:

یہ نظریں نیچی کرنے والے سے سوالیہ انداز میں خطاب ہے کہ اس طرح فرش کو دیکھنا کیا معنی؟ یہاں شاعر خود سے مخاطب ہے۔ کہتا ہے کہ کیا تو کوئی پھلوں سے لدی شاخ ہے جو اپنے بوجھ سے جھکی ہوئی ہے۔ شکیب اپنے وجود سے باہر نکل کے کچھ سامنے بھی دیکھ تمھارے آگے کیا ہے اسے پہچان۔

پروف ریڈنگ: وقار حسین

حواشی

کتاب کا نام: شعری اصناف تعارف و تفہیم,کوڈ : 9003,صفحہ: 140,موضوع: شکیب کی غزل مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ کی تشریح ,مرتب کردہ: ثمینہ شیخ,پروف ریڈنگ: وقار حسین

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں