کتاب کا نام: اردو شاعری 2
صفحہ: 36
موضوع: محمد ابراہیم ذوق
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
مختصر سوانحی خاکہ:
محمد ابراہیم ذوق کا تعارف
شیخ محمد ابراہیم ذوق 23 اگست 1790 ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام شیخ محمد رمضان تھا جو ایک غریب سپاہی تھے۔ ذوق نے ابتدائی تعلیم دہلی میں ہی حافظ غلام رسول شوق کے مکتب میں پائی ۔ یہیں شاعری کا شوق پیدا ہوا ۔ مولانا آزاد کا قول ہے کہ لڑکپن میں پہلا شعر حمد میں اور دوسرا شعر نعت میں کہا تھا ۔ بعد میں غزل کی اصلاح کے لئے شاہ نصیر کے شاگرد ہوئے۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہا۔ نو جوانی میں ہی شاعری کا ایسا ملکہ پیدا کر لیا کہ لوگ استاد ماننے لگے ۔ انیس برس کی عمر میں اکبر شاہ کے دربار میں ایک قصیدہ پڑھا جس پر انہیں خاقانی ہند کا خطاب عطا ہوا (آب حیات) – آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو اپنی ولی عہدی ہی کے زمانے سے شعر و شاعری سے گہری دلچسپی رہی تھی ۔ اکثر مشہور شعراء ان کی صحبت میں اکھٹے رہتے ۔ وہ ابتداء میں شاہ نصیر سے اصلاح لیا کرتے تھے بعد میں یہ خدمت ذوق کے حصے میں آئی جو آخر تک جاری رہی ۔ ذوق کو شاعری کے علاوہ دیگر علوم سے بھی گہری دلچسپی تھی ۔ سر شاہ محمد سلیمان نے ” قصائد ذوق کے صفحہ نمبر 9-8 پر لکھا ہے ” تفسیر و تصوف میں دخل کامل تھا۔ ابتداء زمانہ میں موسیقی سے بھی شوق تھا ۔ نجوم و رمل بھی نہ چھوڑا علم طب پر بھی عبور تھا ۔ محمد ابراہیم ذوق نے اپنی زندگی میں اپنے کلام کو جمع کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیا اس لئے ان کی شاعری کا بڑا حصہ ضائع ہو گیا ۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ان کے شاگرد غلام رسول ویران نے ذوق کا ایک مختصر سا مجموعہ مرتب کر کے شائع کیا جس کے بعد مولانا محمد حسین آزاد نے دیوان ذوق مرتب کیا ۔ ذوق نے 64 برس عمر پائی اور 16 نومبر 1857ء کو جمعرات کے دن صبح کے وقت انتقال کیا۔
2 ذوق کے عہد تک اردو قصیدے کی روایت
اردو میں قصیدہ نگاری کا باقاعدہ رواج دکن کی ریاستوں میں ہوا ۔ دکنی شاعری میں ہمیں جن قصیدہ نگاروں کا سراغ ملتا ہے ان میں قلی قطب شاہ غواصی، نصرتی اور ولی دکنی کا نام بہت نمایاں ہے۔ نصرتی کی اہمیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے فارسی قصائد کو سامنے رکھتے ہوئے فنی اصولوں کے مطابق قصیدہ لکھا۔
شمالی ہند میں اور نگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد جب اردو شاعری کو رواج ملنا شروع ہوا تو قصیدے کے فن کو بھی بھر پور توجہ حاصل ہوئی ۔ اردو شاعری کے دور اول میں شاکر ناجی فغاں اور شاہ حاتم وغیرہ نے دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ قصائد بھی لکھے۔ لیکن قصیدے کے فروغ کا عمل زیادہ تر ہمیں اردو شاعری کے دوسرے دور میں دکھائی دیتا ہے۔ اس عہد میں سودا ہی کا نام نمایاں ہے۔ سودا اس عہد کے ایک ایسے بڑے شاعر ہیں جنہیں قصیدہ نگاری میں بہت بلند مقام حاصل ہوا ۔ انہوں نے فارسی قصائد کے مقابلے میں اردو میں قصیدہ لکھا۔ اور اس فن کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ زور تخیل اور زور بیان دونوں خصوصیات میں عروج پر دکھائی دیتے ہیں۔ سودا کے علاوہ اس عہد میں میر تقی میر نے بھی قصیدہ نگاری کی طرف توجہ دی وہ غزل کے بہت بڑے شاعر ہیں لیکن قصیدے میں ان کا مزاج بھی دھیما ہے اور الفاظ میں بھی وہ شکوہ موجود نہیں جو اس فن کی ایک لازمی شرط ہے۔
لکھنو میں غزل کے علاوہ مرثیہ ایک مقبول صنف تھی لیکن قصیدہ بھی لکھا گیا ۔ لکھنو میں مصحفی اور انشاء کا نام اہم قصیدہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
دہلی میں قصیدے کا دوسرا بھر پور دورا اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کے عہد اقتدار میں سامنے آتا ہے۔ ذوق اسی عہد کے شاعر ہیں۔ ان کے معاصرین میں غالب اور مومن نے بھی قصیدہ لکھا ہے لیکن قصیدہ نگاری کی روایت میں ذوق کو دوسروں پر فوقیت دی جاتی ہے۔
ذوق کے عہد تک اردو قصیدہ ارتقاء کی کئی منزلیں طے کر آیا تھا ۔ لہذا جب انہوں نے اس فن کی طرف توجہ دی تو ان کے سامنے اچھی شاعری کی کئی مثالیں موجود تھیں اس لئے انہیں اس فن کو آگے بڑھانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی ۔
قصیدے کی روایت ذوق کے بعد زیادہ دیر جاری نہ رہی اگر چہ بعد کے دور میں داغ ، امیر جلال اور محسن کا کوروی وغیرہ کے نام مل جاتے ہیں مگر یہ صنف شعر چونکہ درباروں کے ساتھ وابستہ تھی لہذا بادشاہت – کے زوال کے ساتھ ہی قصیدے کی صنف کی مقبولیت بھی کم ہو گئی۔