فیض احمد فیض ( ۱۹۱۱ – ۱۹۸۴ء) ہماری ایک عظیم قومی تہذیبی شخصیت ہیں اور ہمارے لیے نہایت فخر کا مقام ہے کہ ان کی تہذیبی خصوصاً تخلیقی خدمات کا اعتراف ہماری قومی سطح کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی عالمی سطح پر بھی کیا گیا اور اعتراف عظمت کا یہ سلسلہ مستقل طور پر توسیع پذیر ہے۔ فیض کی تہذیبی خدمات متنوع عملی اور دینی شعبوں میں ہیں، جن میں سے سب سے بڑا شعبہ ان کے تحریری کاموں کا ہے، جو نثر میں بھی ہیں اور شاعری میں بھی۔ ان ساری متنوع تہذیبی خدمات میں مرکزی اہمیت ان کی شاعری کو حاصل ہے۔ اس مرکزی اہمیت کے پیش نظر موجودہ انتخاب کا غالب حصہ ان کی شاعری ہی کے متعلق مضامین پر مشتمل ہے۔فیض ایک بڑے سماجی آئیڈیل سے والہانہ وابستگی رکھنے والے شاعر ہیں اور یہ اپنی اپنی قومی اور مذہبی شناختوں کی تنسیخ کیے بغیر دنیا بھر کے محنت کش عوام اور عوام دوست دانش وروں اور فن کاروں کا مشتر کہ سماجی آئیڈیل ہے جو موجود سے مستقبل کی طرف ایسی مثبت ماورائیت ہے جس میں انسان کی شخصیت کسی بھی طبقاتی تحدید کے بغیر ہمہ پہلو اور آزادانہ نشوونما پا سکے۔ فیض نے اس آفاقی سماجی آئیڈیل کی معروضی معنویت کو اپنی شخصی معنویت کے ہمراہ اپناتے ہوئے اس کی عالی مرتبہ شعری تحقیقی ترجمانی کی ہے۔محض کسی بڑے سماجی آئیڈیل یا بڑی آئیڈیا لوجی کی ترجمانی سے کوئی بھی ادیب بڑا ادیب نہیں بنتا اور نہ بن سکتا ہے۔ ادب کے ادب ہونے کی پہلی اور لازمی امتیازی شرط اس کا فنی و جمالیاتی مظہر ہوتا ہے۔ ہمارے فیض بھی ایک بڑے شاعر اسی لیے ہیں کہ انھوں نے اپنے بڑے سماجی آئیڈیل کے ساتھ معنوی اعتبار سے کثیر پہلو اور عالی مرتبہ فنی و جمالیاتی شعری ہیتیں تخلیق کی ہیں جن میں ان کے سماجی آئیڈیل کی معروضی معنویت کا ان کی شخصی معنویت کے ہمراہ انفرادیتکے ساتھ اظہار ملتا ہے۔ ان کی شاعری معروضی سماجی آفاقیت اور موضوعی انفرادیت کے تخلیقی اتحاد کا منظر و فنی و جمالیاتی مظہر ہے۔ فیض کی شاعری نے متعدد نسلوں کے شاعروں اور قارئین کو متاثر کرتے ہوئے ان کو تخلیقی تحرک بھی عطا کیا اور ان کی فنی و جمالیاتی تعلیم و تربیت بھی کی اور اس دو گونہ تاثیر کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ہر بڑا ادیب ادبی تنقید اور ادبی نظریے کو مستقل طور پر نئی سے نئی آزمائش میں ڈالے رکھتا ہے اور یہی خوبی فیض کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ ہرنئی نسل کے اہم ادبی نقادوں اور ادبی نظریہ سازوں نے ان کی شاعری کو ضرور اپنا موضوع بنایا ہے اور یقینی طور پر آئندہ نسلوں کے ادبی نقاد اور ادبی نظریہ ساز بھی اس عمل سے بیگانہ نہیں رہیں گے۔ کسی شاعر کی عوام میں مقبولیت اپنے طور پر ایک بڑی بات سہی لیکن معیار شناسی کا کام ادبی ماہرین ہی کرتے ہیں۔ زیر نظر مرتبہ مجموعے کے لیے فیض کی شاعری پر مضامین کا انتخاب کرتے ہوئے ہمارے سامنے مجموعی طور پر یہ موقف رہا ہے کہ ادب اپنی فطرت میں ایک مقرون مظہر ہے جس کا اپنا کوئی مخصوص و محدود مواد موضوع نہیں ہے۔ اس میں فطرت ، سماج اور فکر۔ و احساس کے سارے مظاہر کی تمثیلیں اور رشتے آپس میں گھلے ملے ہوئے ہوتے ہیں، لہذا ادب کی اس مقرونیت کا تقاضا ہے کہ ادبی تنقید بھی زیادہ سے زیادہ مقرون ہو اور ادبی تنقید کی اس مقرونیت میں ادب کی لازمی امتیازی خصوصیت نظر انداز نہ ہو ۔ ادبی تنقید کے ادبی ہونے کے لیے لازم ہے کہ و وادب میں سے معروض یا موضوع کے کسی ایک پہلو یا ایک سے زیادہ پہلوؤں سے متعلقہ مواد سے محض مبادلات دریافت کرنے تک محدود نہ رہے بلکہ ان دریافت شدہ متبادلات کا ادب کی امتیازی خصوصیت ۔۔۔۔فنی و جمالیاتی ہیئت کے ساتھ رشتہ بھی تلاش کرے یا کم از کم فنی و جمالیاتی پہلوؤں کی تقسیم وتحسین میں معاون ہوں ۔ اس فریضے کی تعمیل ہی سے ادبی تنقید ادیب کا حق بھی بہتر طور پر ادا کر سکتی ہے اور فنی و جمالیاتی تخلیق اور تعلیم و تربیت کے سلسلے کو بھی آگے بڑھا سکتی ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو فیض کی شاعری نے ادبی تنقید اور ادبی نظریے کو جن نئے امکانات سے روشناس کرایا ہے، ان کو دریافت کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور مسلسل دریافت کے اس عمل میں خود ہماری ادبی تنقید اور ادبی نظریہ جامعیت اور پختگی کی بلند تر سطحوں تک پہنچ رہی ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی مظہر کی کوئی سائنسی صداقت ایک بار ہی دریافت ہوتی ہے مگر اس کی جمالیاتی قدر بار بار دریافت ہوتی ہے، فیض کی شاعری خود ایک اعلیٰ فنی و جمالیاتی مظہر ہے، اس پر یہ بات اور بھی زیادہ صادق آتی ہے۔
بشکریہ: یوسف حسن،ڈاکٹر روش ندیم
20 اکتوبر 2010ء
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں