موضوعات کی فہرست
فیض احمد فیض کی شاعری
ویسے تو فیض کا شعری سرمایہ بہت تھوڑا ہے لیکن جتنا کچھ ہے، وہ اپنی جگہ اس قدر ٹھوس اور وزنی ہے کہ بہت سے ہم عصر شعراء کا ضخیم شعری سرمایہ اس کے سامنے سبک اور کم تر معلوم ہونے لگتا ہے۔
فیض کی اس چھوٹی سی وسیع دنیا میں وہ سب کچھ ہے جو دوسروں کے یہاں ملتا ہے اور وہ سب کچھ بھی ہے، جو دوسروں کے یہاں نہیں ملتا۔ فیض کی شاعری کو ہم دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں
پہلا دور وہ ہے جس میں اس نے رومانی نظمیں اور عشقیہ اشعار کہے۔
فیض احمد فیض کی شاعری کا پہلا دور
اس دور کو ہم رومانی دور کہہ سکتے ہیں۔ اس دور میں فیض نے زیادہ تر داخلی دنیا میں دن گزارے عشق کی تلخ جامی، غموں کی زہرہ گدازی، لبریز آہوں کی سیہ پوشی اور ناکام نگاہوں سے دوچار ہوا اور حسینہ کے رسیلے ہونٹ ، معصومانہ پیشانی اور حسین آنکھوں کے سہارے زندگی کے دن گزارے۔ اس دور کی شاعری میں بورژوائی یاس و قنوطیت زیادہ جھلکتی ہے وہ اب غم اٹھانے کی تاب نہیں رکھتا ۔
دعوائے صبر و شکیب غلط ثابت ہوتا ہے، خاطر بے تاب کا قرار قبضہ سے باہر ہو جاتا ہے۔ خمار خواب سے لبریز احمریں آنکھیں سفید رخ پر پریشاں عنبریں زلفیں ، دراز قد اور لچکیلا گداز جسم ، سرخ ہونٹوں پہ تبسم کی ضیائیں حسن محبوب میں پنہاں جنتیں ، خمار شباب، بیاض رخ پر سحر کی کی صباحت اور مخملیں با ہیں اس کے لیے مادی دنیا سے زیادہ قابل التفات اور بیش بہا ہیں ۔ اس دور میں وہ زندگی سے گریزاں نظر آتا ہے۔
وہ دنیا کے ہر ذرے اور ہر چیز کو محبت کے نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے اور دنیا کی ہر چیز پر عشق و محبت کے حسین افسانوں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس دور میں اس کی محبوبہ محض خیالی ہے، جس کا تصور اس کے لیے جان آفریں اور روح فزا ہے۔ اس دور میں اس کی شاعری زیادہ تر روایتی شاعری ہے۔ لیکن اس روایتی شاعری میں بھی اس کی انفرادیت الگ جھلکتی ہے۔
وہ بہت سے گذشتہ شعراء کا تاثر قبول کیے ہوئے معلوم ہوتا ہے لیکن ان تمام تاثرات و احساسات پر اس کا اپنا انفرادی تاثر غالب معلوم ہوتا ہے اور لاشعوری طور پر ایک جدا و منفر د راستہ خود بخود نکل آتا ہے۔ اس دور میں وہ کہنہ پیکر میں نئی روح آباد کرتا ہے اور اس نئی روح کو عشقیہ روایات میں تحلیل کر دیتا ہے۔
پہلے دور میں آخری خط ، حسینہ خیال سے ، مری جان اب بھی … سرود شبانہ، انتہائے کار ، آج کی رات اور ایک رہگذر پر اچھی نظمیں ہیں۔ فیض کی شاعری کا دوسرا دور وہ دور ہے جس میں وہ زندگی کا کافی مشاہدہ تجربہ کیے ہوئے معلوم ہوتا ہے اور وہ فراریت جو پہلے دور میں نمایاں طور پر مترشح ہوتی ہے ۔
فیض احمد فیض کی شاعری کا دوسرا دور
دوسرے دور میں تقرب اور وابستگی میں بدلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
عشق اس دور میں بھی اس کی روح اور جان ہے لیکن محبوب کے گداز سینے پر سر رکھے ہوئے اس کی نظر ان گنت صدیوں کے بہیمانہ ظلم، بہتی ہوئی پیپ اور گلتے ہوئے ناسوروں پر بھی جاپڑتی ہے اور وہ تڑپ اٹھتا ہے ۔
محبت کا شدید جذبہ ایک دم گم ہو جاتا ہے اور خاک میں لتھڑے ہوئے اور خون میں نہلائے ہوئے جسموں کے خیال سے وہ کانپ جاتا ہے اور تھوڑی دیر کے لیے وہ حسن کی دلکشی بالکل بھول جاتا ہے اور زمانے کے دکھ اور درد کو محبت پر ترجیح دینے لگتا ہے اور زمانے کی راحتوں کو وصل کی راحتوں سے زیادہ پسند کرنے لگتا ہے۔ پاپ کے پھندے اور ظلم کے بندھن ، دنیا کے غم ، ناتوانوں کے نوالوں پر چھٹتے ہوئے عقاب کہ جو پر تولے ہوئے چاروں طرف منڈلا رہے ہیں اس کی نظروں کے سامنے آجاتے ہیں ۔
شاہراہوں پر غریبوں کا بہتا ہوا لہو اس کے لیے نا قابل برداشت ہو جاتا ہے ۔ جسم کی مایوس پکار دل کی بے سود تڑپ ، عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی ، سفاک مسیحا اور مدقوق جوانی دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتا ہے اور ہر تباہی و بربادی کو نظر انداز کرتے ہوئے مظلوم غریبوں کو سرکشی اور بغاوت پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اور اس ذلیل و خوار زندگی پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔ کیونکہ موت غم سے نجات کا اہل ذریعہ ہے:
(راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری | ڈاکٹر فیض الرحمن)
ہم نے مانا جنگ کڑی ہے سر پھوٹیں گے
خون بہے گا خون میں غم بھی بہہ جائیں گے
ہم نہ رہیں غم بھی نہ رہے گا
یہ دور اس کی شاعری کا بہترین دور ہے ۔ تمام مشہور نظمیں جن پر اس کی شہرت کا زیادہ دارو مدار ہے اس دور کی پیداوار ہیں ۔ مجھ سے پہلی سی محبت میری محبوب نہ مانگ ،سوچ، رقیب سے، چند روز اور میری جان، کتے اور موضوع سخن وغیرہ اسی دور کی بہترین نظمیں ہیں۔ فیض کی شاعری کی سب سے اہم اور نمایاں خصوصیات اس کے خیالات کی سنجیدگی، شخصیت کا متوازن پن، ذہنی ٹھہراؤ اور شعری اعتدال ہے۔
وہ واقعہ سے شدت کے ساتھ ضرور متاثر ہوتا ہے اور اسے دل کی گہرائیوں میں گونجتا ہوا ضرور محسوس کرتا ہے۔ اس واقعہ سے اس کے شاعرانہ سرود کے تار بھی مرتعش ہوتے ہیں لیکن جب وہ اسے شعر کا جامہ پہناتا ہے تو اس شدید جذبے میں ہلکی سی نرماہٹ اور لہجے میں دبادبا پن پیدا ہو جاتا ہے اور وہ جھنجھلاہٹ اور غصہ جس سے دامن اور گریبان کے تار میں فصل باقی نہیں رہتا اس کی شاعری میں نہیں پیدا ہوتا ۔
وہ ہر حقیقت کو بار یک پردوں سے جھانکتا ہے ۔ اس وقت اس کی تیوری پر بل ضرور ہوتے ہیں لیکن ہونٹوں پر معصوم سی نرمی بھی دکھائی دیتی ہے ۔