فیض احمد فیض کی شاعری کی خصوصیات | ڈاکٹر ثمرین کنول

فیض احمد فیض کی شاعری کی خصوصیات | فیض احمد فیض کے سوانحی حالات

فیض دراصل ایک رومانی شاعر تھے لیکن اُنھوں نے ترقی پسند تحریک کے پلیٹ فارم سے اپنے جذبات و احساسات کے ذریعے انقلاب کے دروازے پر دستک دی۔ عربی اور فارسی زبان سے شغف آپ کو بچپن ہی سے مولوی ابراہیم سیالکوٹی کے مدرسے میں پڑھنے سے پیدا ہو گیا۔

ان کی شاعری میں عشق و عاشقی پسے اور کچلے ہوئے طبقے سے محبت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اقبال اور غالب کے بعد فیض احمد فیض کو اردو ادب میں زیادہ پذیرائی نصیب ہوئی ۔

راولپنڈی سازش کیس اور لینن امن انعام نے آپ کو بین الاقوامی شہرت کا حامل شاعر بنا دیا۔ اُردو نظم اور غزل کے حوالے سے آپ کو مسند فضیلت پر بٹھایا گیا۔ آپ کا نام فیض احمد اور تخلص فیض تھا۔ آپ کے والد کا نام خان بہادر سلطان محمد خان تھا۔فیض احمد فیض ۱۳ فروری ۱۹۱۱ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔

روسی حکومت نے ان کو لینن انعام دیا تھا۔ فیض ۱۹ نومبر ۱۹۷۴ء میں اپنی صاحبزادی کے گھر کھانا کھانے گئے ۔ اپنی صاحبزادی کے گھر دمے کا شدید دوره ۹:۱۵ پر پڑا ، لاہور کے میو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ، دو پہر ۰۲۰ اپر ۲۰ نومبر ۱۹۷۴ ء کو ان کی بے چین روح کو ابدی سکون حاصل ہو گیا۔ ان کا مزار لاہور کے ماڈل ٹاؤن قبرستان میں ہے۔ ان کا مزار حفیظ جالندھری کے مزار کے پاس ہے۔فیض کا اسلوب شاعری

فیض کی غزل ایک روایتی شاعری ہے۔ انھوں نے غزل کی ہیئت کے معاملے میں کسی قسم کے اجتہاد کا مظاہرہ نہیں کیا۔ موضوعات کے لحاظ سے ان کی غزل کا مزاج ان کے ہم عصر شعر اسے کافی مختلف ہے۔ ان کی ترقی پسندانہ فکر اور سوچ ان کی غزل کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔پاکستان کی سیاسی فضا فکر واظہار کی پابندیوں اور قید و بند کی حدود میں انھوں نے کلاسیکی علامتوں اور استعاروں میں اپنی بات کہنی چاہی اور اس طرح غزل کے پورے موڈ کو بد دیا ۔

فیض کی شاعری کا فکری و تنقیدی جائزہ

فیض کی شاعری روایتی شاعری ہے۔ ان کی غزل کا مزاج اور انداز اپنے ہم عصر شعرا سے قدرے مختلف ہے ، ان کی ترقی پسندانہ سوچ ان کی غزل کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ صدیق الرحمن قدوائی کا کہنا ہے:

غزل کو ترقی پسند فکر اور جدید حالات سے ہم آہنگ کرنے کے ضمن میں فیض خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کی سیاسی فضا فکر و اظہار کی پابندیوں اور قید و بند کی حدود میں انھوں نے کلاسیکی علامتوں اور استعاروں میں اپنی بات کہنی چاہی اور اس طرح غزل کے پورے موڈ کو بدل دیا”

احمد ندیم قاسمی کی فیض کے ڈکشن کے بارے میں رائے سینیے :

فیض کے ڈکشن کو دیکھیے جس طرح غالب اپنے عہد میں اُردو غزل کی زبان سراسر بدل ڈالی۔اور جس طرح جوش نے اُردو شاعری پر زبان کے معاملے میں بھی متعدد جہات کھول دیے۔

فیض نے غزل کی کلاسیکی ڈکشن کو ایک نیا رخ اور موڑ دیا۔ اس ضمن میں صدیق الرحمن قدوائی یوں رقم طراز ہیں :

فیض کی غزل نے شاعر اور سامع کے درمیان ابلاغ کی سطح کو بہت بلند کر دیا ۔ انھوں نے غزل کے مانوس کلاسیکی ڈکشن کو ایک بالکل نئے لہجے سے آمیز کر کے اسے اپنے عہد کا استعارہ بنادیا صنفی پابندیوں کے درمیان آزادی کی راہیں پھوٹ نکلیں اور غزل ان کے دورکی راز دارانہ سرگوشیوں کی زبان بن گئی ۔ (۳)

(نئے شاعر فیض احمد فیض | ڈاکٹر جمیل جالبی)

اسلوب

فیض کی زبان میں سادگی ، سلاست اور دل کشی پائی جاتی ہے۔ ان کی زبان دل کو موہ لینے والی ہے کہ وہ اپنی ہی زندگی میں ایک روایت بن گئے۔ ان کے متعد د اشعار اپنی برجستگی کے باعث ضرب المثل کا درجہ حاصل کر چکے ہیں ۔

وہ الفاظ جو ہمارے ارباب میں صدیوں کے خاص معنی میں استعمال ہوتے آئے ہیں فیض نے انھیں نئے معنی دیے ۔ ان کا اسلوب تغزل کا ہے مگر اس میں پیوند کاری مغرب کی جدید شاعری سے استفادے کی بھی ملتی ہے، اس لیے فیض کی شاعری صرف ترقی پسند ہی نہیں بلکہ جدید بھی ہے۔

فیض نے غزل کو درجہ بدرجہ ارتقائی مراحل سے گزار کر ایک انوکھی اور اچھوتی شکل دی ہے ۔ اس کی غزل کا لہجہ شروع ہی سے ایسا نہیں تھا جیسا کہ ان کی آخری دور کی غزل میں نظر آتا ہے۔ پروفیسر قمر رئیس فیض کے بنیادی لہجہ کی تشکیل کے بارے میں لکھتے ہیں :

فیض کی غزل کے بنیادی لہجہ کی تشکیل دراصل ” دست صبا” اور ” ” زنداں نامہ” کی غزلوں میں ہوئی ہے۔ ان مجموعوں میں ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۵ء تک کا کلام شامل ہے جب وہ راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید رہے ان پر مقدمہ چلا اور حکومت نے ان کے اور دوسرے ملزموں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا۔ اس عہد میں قید تنہائی کی ابتدائی اذیتوں اور پھر سر پر منڈلاتے ہوئے اجل کے اندیشوں نے فیض کے دل و دماغ پر جو اثرات مرتب کیے وہ مرکب تھے۔”

رومانیت اور انقلاب پسندی

رومانیت اور انقلاب پسندی فیض کی شاعری بنیادی طور پر رومانوی شاعری ہے ۔ ڈاکٹر شارب ردولوی ان کی رومانیت اور انقلاب پسندی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

مطالعہ فیض کے سلسلے میں عام طور پر دو باتوں پر زور دیا گیا ہے، اول ان کی رومانویت یعنی بنیادی طور پر وہ رومانی شاعر ہیں۔ لطف وصل، در دو فراق ، حسرت دید اور کبھی ستم کو اپنے نرم و مدہم لہجے میں بڑی خوب صورتی سے پیش کرتے ہیں اور اس طرح وہ ذہن و دل پر اپنا ایک گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کی انقلاب پسندی اور مقصدیت کا ذکر کیا جاتا ہے جسے ان کی کامیابی اور شہرت کا بڑا عنصر قرار دیا گیا ۔ یہ دونوں باتیں جنھیں مختلف انداز میں فیض کی مقبولیت کے سبب اور شاعرانہ خصوصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ (۸)

تغزل

فیض احمد فیض نے تقریبا ۸۴ غزلیں کہیں ۔ تعداد کے لحاظ سے اتنی غزلیں کسی شاعر کو قادر الکلام شاعر ثابت کرنے کے لیے نا کافی ہیں لیکن فیض نے اتنی تھوڑی غزلیں لکھنے کے باوجود بھی غزل میں اپنا مقام منوالیا ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر سلیم اختر کا کہتا ہے:

فیض نے نسبتاً کم تعداد میں غزلیں لکھ کر بھی اپنے لیے بہ حیثیت غزل گو وہ منفرد مقام بنایا کہ پاک و ہند کے صاحب طرث غزل گوؤں میں شمار ہونے لگے۔ یہی نہیں بلکہ اپنے خاص اسلوب اور طرز سے انہوں نے ہم عصر غزل کے امکانات میں اضافہ بھی کیا۔ (۹)

فیض کی غزل روایتی ہے لیکن انفرادیت موجود ہے۔ ان کی غزل پر مرزا غالب ، سودا، میر تقی میر اوراقبال کا پر تو نظر آتا ہے۔ فیض کے رنگ تغزل کے سلسلے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:

فیض پر ویسے روایت کے گہرے اثرات ہیں۔ روایت کی بنیادی خصوصیات ان کے مزاجکا جزو ہیں اس لیے غزل میں پیچیدہ سے پیچیدہ تجربات کو پیش کرتے ہوئے بھی وہ اسروایت کے اثر سے کام لیتے ہیں۔

غزل کی روایت کو انھوں نے ایک نئی زندگی دی ہے لیکن زندگی دے کر اسے نئے راستوں پر بھی گامزن کیا ہے۔

سماجی شعور

پروفیسر قمر رئیس کے نزد یک فیض کی شاعری گہرے سماجی شعور کی حامل ہے۔ ان کے ہاں فرد کی پہچان اور معنویت سماجی حوالے سے قائم ہوتی ہے۔ پروفیسر موصوف لکھتے ہیں : سماجی شعور کی تند لہریں ان کی غزل کے نرم اور خواب ناک لہجے میں اس طرح جذب ہو جاتی ہیں کہ بظاہر نظر نہیں آتیں، یہاں تک کے محنت کش عوام اور انقلاب کے متحرک تصورات بھی ان کی شاعری میں یار دلدار کے حسین پیکروں میں نظر آتے ہیں:

ہاں جام اٹھاؤ کہ بیاد لب شہریں

یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے

ہر سمت پریشاں تیری آمد کے قرینے

دھو کے دیے کیا کیا ہمیں بار سحری نے (۱۳)

نظریہ اور مقصدیت

فیض کی شاعری با مقصد اور نظریاتی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر آغا سہیل کا کہنا ہے:

فیض کی شاعری کی اصل روح اس مقصد اور نظریے میں پوشیدہ ہے۔ جن کی ترویج و اشاعت وہ تمام عمر کرتے رہے اور غزل ہو یا نظم یہ حض ان کے پیرا یہ اظہار ٹھہرے۔ دراصل ہر اس بڑے شاعر کی طرح فیض کے سامنے نظریے کی توانائی سب سے زیادہ وقیع تھی ۔ (۱۳)

فیض کی بنیادی شاعرانہ اہمیت اس حقیقت سے بھی وابستہ ہے کہ وہ اردو کے پہلے سیاسی شاعر ہیں۔ فیض کے ہم عصر خاص طور پر اس کے ترقی پسند ساتھی سیاست دان نہ ہونے کے باوجود عملی سیاست سے دل چسپی رکھتے تھے ۔

سیاسی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ خالص غنائی یعنی داخلی شاعری کی طرح لوگوں کو اپنے جذبات واحساسات میں شریک بنانےپر قادر ہے۔

ڈاکٹر ثمرین کنول،نور تحقیق جلد 3، شعبہ اردو لاہور گریژن یونیورسٹی لاہور

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں