فیض احمد فیض کا تعارف اور شاعری

فیض احمد فیض کا تعارف اور تعلم

فیض احمد فیض کا تعارف اور شاعری، فیض احمد فیض ۱۳ فروری ۱۹۱۱ کو سیالکوٹ میں "کالا قادر” میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سلطان محمد خان تھا جنھوں نے افغان امیر کی سوانح حیات بھی لکھی۔ فیض احمد فیض نے مذہبی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی۔

۱۹۲۱ء میں انھوں نے سکاچ مشن سکول سیالکوٹ سے میٹرک کیا۔ مرے کالج سیالکوٹ سے ایف۔ اے اور بی۔ اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فیض نے انگریزی میں ایم۔ اے کیا۔ عربی میں ایم اے کی ڈگری اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض کی شاعری میں حب الوطنی کا حوالہ | pdf

تدریسی فرائض کی انجام دہی

فیض احمد فیض کے اساتذہ میں مولوی میر حسن تھے، جن سے علامہ اقبال بھی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ فیض کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا، جن میں فارسی، عربی، اردو، انگریزی، پنجابی اور روسی شامل ہیں۔

فیض نے ابتدائی طور پر ایک لکچرار کی حیثیت سے مختلف تعلیمی اداروں میں کام کیا۔ ۱۹۳۵ء میں وہ امرتسر کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ بعد میں وہ ہیلے کالج لاہور آ گئے۔ فیض احمد فیض نے اپنے ابتدائی برسوں میں ہی ترقی پسند تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔

اگرچہ فیض ترقی پسند تحریک کا آغاز کرنے والے ان چند افراد میں شامل نہیں تھے۔ جنھوں نے لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر ترقی پسند تحریک کا خاکہ تیار کیا تھا مگر بعد میں وہ اس تحریک کے بنیادی رکن بن گئے۔

شادی، فوجی ملازمت اور صحافت

۱۹۴۱ء میں فیض نے ایک لبنانی نژاد برطانوی خاتون امیس سے شادی کی ۔ کچھ عرصہ (۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ ء تک ) انھوں نے فوج میں بھی نوکری کی مگر بہت جلد انھوں نے فوج سے رخصت لے لی۔

وہ لیفٹنٹ کرنل کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد فیض نے پاکستان ٹائمنر میں بطور صحافی کام کرنا شروع کر دیا۔ پاکستان ٹائمز اس وقت کے بڑے اخباروں میں شمار ہوتا تھا۔

راولپنڈی سازش کیس اور جلاوطنی کی صعوبتیں:

فیض احمد فیض کی زندگی کا ایک اور بڑا واقعہ راولپنڈی سازش کیس ہے۔ لیاقت علی خان نے جب کیمونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی تو ان کے خلاف مزاہمت کا آغاز ہوا۔

فیض کو لیاقت علی خان کی حکومت گرانے کی سازش میں گرفتار کر لیا گیا۔ فیض کی قید کا کل عرصہ ۹ مارچ ۱۹۵۱ء سے ۲ اپریل ۱۹۵۵ تک ہے۔ اس دوران انھوں نے شاعری کی اور اپنی معروف کتاب "زندان نامہ” لکھی۔ ان صعوبتوں کے ساتھ ساتھ فیض کو جلا وطنی کا دکھ بھی ملا۔ وہ بہت سا عرصہ ملک سے باہر رہے۔

ساٹھ کی دہائی میں انھوں نے وطن واپسی کے بعد اہم عہدوں پر کام کیا۔ ۱۹۵۹ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں بطورِ سیکرٹری تعینات ہوئے۔ اور ۱۹۶۲ ء تک وہیں پر کام کیا ۔ ۱۹۶۴ء میں لندن سے واپسی پر آپ عبد اللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ جب بھٹو کی حکومت آئی تو وہ بہت سے حکومتی معاملات میں مشاورت دیتے رہے۔

آخری وقتوں میں فیض پھر وطن سے باہر چلے گئے تھے۔ ان کے لندن قیام کا زمانہ ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۲ء تک کا ہے۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ وہ جلا وطن کر دیے گئے۔ مگر فیض نے خود اس بات کی تردید کی ہے۔ وہ اپنی مرضی سے گئے تھے ، ان کے اس فیصلے میں جلا وطنی وغیرہ شامل نہیں۔ فیض نے ۱۹۸۲ء میں وفات پائی۔

فیض احمد فیض کا تعارف اور شاعری

فیض احمد فیض کی شاعری

فیض احمد فیض کی شاعری میں عمل کی تحریک ملتی ہے۔ سخت کوشی اور بلند ہمتی کا پیغام ہے۔ انھوں نے وطن سے محبت کا درس دیا۔ وہ ایک آئیڈیل کا خواب دیکھ رہے تھے، جس کی خاطر انھوں نے قربانیاں بھی دیں۔ وہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے مگر وہ الوالعزمی کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ڈٹے رہے۔

حقیقت و رومانیت کا حسین امتزاج

فیض کی شاعری حقیقت اور رومان کا حسین امتزاج ہے۔ وہ رومانوی شاعر بھی تھے مگر حقیقت نگاری بھی ان کی شاعری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کلاسیکی غزل میں نئے موضوعات پیش کیے۔ ان کی زبان اور استعارات پرانے رہے مگر ان کی موضوعاتی جہتیں بالکل نئی ہیں۔

نیا انداز

فیض نے زبان کو ایک نیا انداز عطا کیا:

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے

جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

انقلابی عنصر

فیض نے انقلابی طرز کی شاعری کی، جس میں انھوں نے حکمرانوں اور ظلم کرنے والوں کو للکارا ہے۔ فیض نے مظلوم سے ہم دردی کا درس دیا ہے۔

اے خاک نشینوں اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

فیض کی شاعری حسن و نزاکت کا مترنم گیت

رومان اور انقلاب کا یہ امتزاج اتنی شدت سے پہلی بار اردو شاعری میں آیا۔ فیض کی انقلابیت کو ان کی رومانویت نے غنائیت اور شگفتگی عطا کی ۔ جس کی وجہ سے ان کا کلام نعرہ نہیں بنتا۔

اکثر شعرا نے انقلابی شاعری کی مگر جذب و جوش میں اتنا آگے نکل گئے کہ شاعری ہاتھ سے نکل گئی۔ فیض کی شاعری اصل میں گیت ہے جو رنگینی حسن اور نزاکت خیال سے جلوہ گر ہوتا ہے۔

سلام لکھتا ہے شاعر تمھارے حسن کے نام

بکھر گیا جو کبھی رنگ پیرہن سر بام

نکھر گئی ہے کبھی صبح، دوپہر، کبھی شام
کہیں جو قامت زیبا پہ سج گئی ہے قبا

چمنِ سرو و صنوبر سنور گئے ہیں تمام

بنی بساطِ غزل جب ڈبو لیے دل نے

تمہارے سایہء رخسار و لب میں ساغر و جام

سلام لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام

شعور انقلاب اور سماجی جمالیات کے حسین خوابوں کا مرقع:

فیض نے اپنے انقلابی خیالات میں بغاوت سے زیادہ انقلابی شعور عطا کیا۔ ان کا شعور عزت و ناموس کی بحالی اور جہالت ، بھوک اور غربت کے خلاف برسرِ پیکار نظر آتا ہے۔ فیض کا پیغام محبت اور نئے سماج کے خوابوں سے مزین ہے۔ وہ اپنی راہ کی ہر رکاوٹ کے خلاف لکھتے رہے۔

یہ رکاوٹیں ہر اس شخص کے لیے موجود رہتی ہیں جو معاشرے میں نئے خوابوں کی تکمیل چاہتا ہے جس میں عزت و ناموس اور وقار کی زندگی کا مطالبہ شامل ہے۔ فیض کی شاعری ایسے ہی مزاحمت کاروں کے لیے آج بھی موثر و انقلاب آمیز ہے:

نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

"فیض کی ایک معروف غزل”

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

اس شعر میں شاعر محبوب کی آمد کو گلشن کا نظام فطرت چلنے سے تشبیہ دے رہا ہے۔ محبوب اگر باغ میں چلا آئے تو پھولوں میں رنگ بھر جائے اور بہار کی ہوا چلنے لگے۔

محبوب کی آمد سے پورے باغ کا نظام رواں ہو جائے۔ یہاں جس بات پر زور دیا جا رہا ہے وہ باغ کے نظام کا رکنا ہے۔ شاعر اس کیفیت کو پیش کرنا چاہ رہا ہے کہ پورے باغ کا کاروبار یعنی نظام فطرت رکا ہوا ہے۔

پھولوں میں رنگ نہیں ہے جب کہ بہار آ چکی ہے مگر باد نو بہار روٹھی ہوئی ہے، یعنی فضا میں حبس بھری ہوئی ہے۔ محبوب کے آنے سے انتظام فطرت میں جان آ جائے گی اور پورا باغ بہار کا منظر پیش کرنے لگے گا۔

فیض نے محبوب سے بچھڑنے کی کیفیت کو عاشق کے دل تک محدود نہیں رکھا بلکہ عاشق کے ماحول کی ہر چیز پھیکی ، بے رونق اور اداس دکھائی ہے۔ اگر اس ویران کیفیات کا خاتمہ ممکن ہے تو صرف ایک ہی صورت ہے کہ محبوب ملنے آجائے۔ اس شعر میں عاشق کا ذکر نہیں کیا گیا مگر پس منظر میں یہ ساری کیفیات اور اداسی کا منظر اسی ایک شخص کے لیے دکھایا گیا ہے۔

فیض کی تشبیہات و استعارات کا پس منظر

فیض احمد فیض چونکہ انقلابی شاعر تھے، ان کے استعارات اور تشبیہات کا پس منظر انقلاب اور جدو جہد سے جڑا ہوا ہے۔

یہاں گلشن سے مراد ملک کا نظام سیاست بھی ہو سکتا ہے۔ پھول اور باد بہار خوبصورت زندگی کے استعارے بتائے گئے ہیں۔ فیض اس انقلاب کو رومانوی انداز سے اپنے ملک میں نافذ العمل دیکھنا چاہتے ہیں جس سے ملک کی تقدیر بدل جائے۔

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

شاعر بتاتا ہے کہ وہ قفس یعنی سلاخوں کے پیچھے بند ہے، قید میں پڑا ہے۔ مگر قید سے زیادہ اسے محبوب کا تصور پریشان کیے جا رہا ہے۔ محبوب کا ذکر نہ ہونے سے وہ شدید اداس ہے۔ اس شعر میں صبا ( ٹھنڈی ہوا ) کو پکارا گیا ہے ۔

کہ وہ محبوب کا ذکر کرے ۔ صبا نے اس شعر کو زیادہ خوبصورت کر دیا ہے ۔ صبا آوارہ مزاج ہوتی ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا، جسے کسی قید میں نہیں رکھا جا سکتا۔ شاعر صبا کی آزادہ روی کی وجہ سے اُس سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ کیوں خاموش ہے، وہ تو میرے محبوب کا ذکر کرے، کیا اس پر بھی پابندی لگادی گئی ہے؟

صبا کے لیے "کہیں”‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ یعنی صبا تو کہیں بھی ذکر یار کر سکتی ہے، میں تو مجبور ہوں میں نے تو قید میں ہی رہنا ہے مگر صبا چونکہ آزاد ہے اور کہیں بھی ذکر یار کر سکتی ہے لہذا وہ صرف میرے سامنے یا صرف میرے لیے میرے محبوب کا ذکر نہ کرے، جب چاہے ،

اور جہاں چاہے میرے محبوب کا ذکر کرے۔ شاعر سوال کرتا ہے کہ صبا کو کیا ہوا ؟ صبا کیوں خاموش ہے؟ اس شعر کی ایک اور خوبصورتی محبوب اور صبا کا تلازمہ ہے۔ محبوب بھی نازک مزاج اور خوشبوؤں کا مرکز ہے، اس لیے اسے صبا کہا گیا ہے۔

کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشک بار چلے۔

شاعر اس شعر میں اپنے محبوب کی توجہ کا طالب نظر آرہا ہے۔ فیض کے اکثر شعروں میں ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔ انتظار ظاہری معنوں میں نہیں استعمال کیا گیا بلکہ اچھے مستقبل اور محنتوں کا ثمر ملنے کی گھڑی کا استعارہ ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ نہ جانے وہ صبح کب آئے گی ، جب ہمارے محبوب کے ہونٹوں سے صبح اپنا آغاز کرے گی، یعنی محبوب کے بولنے سے صبح کا آغاز ہوگا۔ اور نجانے وہ رات کب آئے گی ، جب ہمارے محبوب کی کالی زلفوں کی خوشبو مہکے گی۔ یہاں شاعر اپنے شب و روز میں انقلابی تبدیلیوں کے خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ اُس دن کا انتظار کر رہا ہے ۔ جب صبح اور راتیں بدل جائیں اور اُس کا خواب ( آئیڈیل ) پورا ہو جائے۔

” کبھی تو” کی تکرار سے ایک معنی یہ بھی برآمد ہو رہا ہے کہ شاعر طویل عرصے سے اس دن کا انتظار کر رہا ہے ۔ جب اس کے محبوب کی قربت اُسے نصیب ہوگی ۔ "کبھی تو” میں خواہش شدت اختیار کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔

فیض احمد فیض چونکہ انقلاب کے داعی اور خواب گر تھے، اس لیے ان کے نزدیک خوبصورت صبح اس میں ہے کہ اس کا خواب تعبیر پالے۔ صبح محبوب کے ہونٹوں سے آغاز کرے اور شب میں محبوب کی زلفوں کی مشک و خوشبو محسوس ہو۔

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمھارے نام پر آئے ہیں غم گسار چلے۔

شاعر خود کو اس قابل تو نہیں سمجھتا کہ محبوب کا نام آئے اور اُس پر جان فدا کرنے کا عزم کرے مگر وہ کہتا ہے کہ دل غریب یعنی کم ہمت سہی مگر درد کا رشتہ ہمیں اپنے محبوب کے قریب کر دے گا۔ ہمارا اصل رشتہ درد کا رشتہ ہے۔

یہی سب سے مقدس رشتہ ہے۔ ہم سب کا دکھ سانجھا ہے، ہم اپنے دکھ کی بدولت قریب آجاتے ہیں ۔ ہم تمھارے نام پر اکٹھے ہو گئے ہیں ۔ اب تمھارے کہنے پر ہم اپنے مقصد کو پانے کے لیے چل نکلے ہیں۔

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

ہم نے ایک مدت تک شب ہجراں کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ غم کی سیاہ رات کاٹ لی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے غم جھیلا ہے، دکھ بانٹا ہے۔ ہمارے آنسو اب وصل کی صبح کی امید بن گئے ہیں۔ یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ محنت کرنے والا محنت کرتے ہوئے مستقبل کی نوید بن جاتا ہے۔ اس کی محنت سے ظلم اور سیاہ رات ختم ہو جاتی ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ اے شب! ہم جس تکلیف اور دکھ سے گزرے ہیں، جس طرح کا ظلم ہم پر ہوا ہے، وہ داستان رہنے دے مگر اتنا بتا دیتے ہیں کہ ہماری یہ تکلیفیں اور آنسو تمھارے لیے نئی امید بن جائیں گے تمھارا مستقبل سنوار دیں گے۔ ہم ظلم کے خلاف لڑتے رہے ہیں، اب ظلم ختم ہونے والا ہے اور نئی سحر طلوع ہونے والی ہے۔

شاعر خود پر گزری تکلیفوں اور مصائب کے بارے نہیں بتانا چاہ رہا بلکہ وہ اس بات پر خوش ہے کہ اس کی تکلیفیں اور مصائب سہنے کی مشق کسی ٹھکانے لگ رہی ہے ۔ اب شب ہجراں ، وصل کی صبح بن کے طلوع ہوگی۔

ظہیر کاشمیری کا ایک شعر ایسے ہی خیالات کو پیش کر رہا ہے۔

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

حضورِ یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

شاعر اس شعر میں بتانا چاہا رہا ہے کہ مقصد کے حصول کے لیے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ بغیر محنت و کوشش منزل نہیں ملتی ۔ شاعر کہتا ہے کہ جب ہم اپنے محبوب کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو اُس تک پہنچنے کے لیے ہم اتنی قربانیوں سے گزرے کہ ہمارے پاس ایک پھٹے ہوئے گریباں کے سوا کچھ نہیں تھا۔

جب ہم محبوب کے سامنے اپنے جنوں اور دیوانگی کو پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو ہماری جمع پونجی میں صرف ہمارا پھٹا ہوا گریبان تھا۔ گریبان پھٹا ہونے سے مراد عزت و ناموس اور دولت دھن کی قربانی دینا اور بے یارو مددگار ہو جانا ہے۔

شاعر بتانا چاہ رہا ہے کہ ہم سب کچھ لٹا چکے ہیں ، جب ہمیں منزل تک رسائی ملی ہے۔ یار سے مراد اپنی منزل بھی ہے۔ اپنی منزل کو پانے کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔

درد دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلا دوں
انگلیاں فگار اپنی ، خامہ خوں چکاں اپنا

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

شاعر کہتا ہے کہ ہم نے اپنی منزل کے راستے میں کسی بھی مصلحت کو قبول نہیں کیا۔ ہم نے صرف دو راستے چنے ہیں،ایک محبوب کا شہر اور دوسرادار (موت) کا راستہ م۔ ان دونوں راستوں کے علاوہ تیسرا راستہ ہمیں پسند ہی نہیں آیا۔ شاعر بتانا چاہ رہا ہے کہ عزم اور ارادہ (commitment) کے آگے مصلحت کوشی یا کم ہمتی نہیں ہونی چاہیے۔ جب عاشق اپنے محبوب کو پانے کا عزم کر لے تو اسے ہر حال میں اپنے عزم کی تکمیل کرنی چاہیے۔

یار اور دار کے علاوہ کسی قسم کا تیسرا انتخاب عشق کی نا پختگی کو ظاہر کرتا ہے۔ لہذا ایسا شخص عاشق کہلانے کا مستحق نہیں۔ شاعر اپنی بلند ہمتی کو بیان کر رہا ہے کہ ہم نے کسی بھی تیسرے راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ یار کا شہر پسند کیا، اگر ہمیں یار کے شہر سے در بدر کیا گیا یا نکالا گیا تو ہم نے دار یعنی موت کو قبول کیا۔ فیض کے کلام میں اس طرح کی بلند ہمتی و سر فروشی کی روشنی جا بجا بکھری پڑی ملتی ہے

حواشی

موضوع۔۔۔فیض احمد فیض کتاب کا نام ۔۔۔۔۔بنیادی اردو کورس کوڈ۔۔۔۔۔9001 مرتب کردہ۔۔۔۔کوثر بیگم، فخر عالم مشائخ پروف ریڈنگ؛ وقار حسین

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں