غالب کی مشکل پسندی کی صورتیں۔۔۔
خیال آفرینی۔۔۔۔۔
مرتب کردہ۔۔۔۔۔ منظور احمد
کتاب ۔۔۔ میر ارو غالب کا خصوصی مطالعہ۔
کورس کوڈ۔۔۔ 5612
پیج۔ 108…110
فارسیت
غالب کی مشکل پسندی کی صورتیں
مرزا غالب کو اپنی فارسی دانی پر بہت ناز تھا۔ اس فارسی دانی کے اثرات ان کے اردو کلام میں بھی غالب نظر آتے ہیں۔ بہت سے اشعار میں صرف ایک آدھ لفظ ہی اردو کا ہے بلکہ وہ فارسی کے حروف جار ( تا از) بلکہ کہیں کہیں تو فارسی
کے مصدر بھی اردو میں بے تکلف استعمال کر جاتے مثلاً
تماشائے بہ یک کف بردن صد دل پسند آیا یاں زمین سے آسماں تک سوختن کا باب تھا ۔
یہ بھی پڑھیں: مونوگراف: مرزا غالب شخصیت اور شاعری | PDF
مرزا کے کلام میں ایسی فارسی تلمیحات کا استعمال ہوا ہے جن کی اردو کے کسی اور شاعر کے ہاں مثال نہیں ملتی مثلا ان کے اردو دیوان کے پہلے شعری کو لیجے اس میں کاغذی پیرہن کی تلمیح خالصتا ایرانی پس منظر رکھتی ہے اسی طرح اس شعر میں :
مرزا غالب: اردو ادب کا نایاب گوہر
سبزه خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا۔
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا
زمرد کے سامنے سانپ کا اندھا ہو جاتا فرہاد خسرو اور شیریں، اور جوئے شیر کی فارسی تلمیحات بھی ان کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔
خیال آفرینی
مغلوں کے آخری زمانے میں فارسی شاعری کا جو اسلوب بر صغیر میں رائج ہواوہ ایک ہندی (ہندی اسلوب) کہلاتا ” ہے”۔ ہے سبک ہندی میں شاعر شعر میں نئے نئے معنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات اس کوشش میں ان کے اشعار بہت زیادہ مشکل ہو جاتے ہیں اس عمل کو مضمون آفرینی ( مضمون پیدا کرنا ) اور خیال آرائی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے سبک هندی صرف فارسی تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے اثرات اردو شاعری پر بھی پڑے یہ اثرات تاریخ ،
شاہ نصیر اور غالب کے ہاں کے دیکھے جاسکتے ہیں دیوان غالب کے پہلے شعر کو بعض لوگوں نے مہمل قرار دیا یہ شعر مشکل ضرور ہے۔ مہمل نہیں اور اس کے مشکل ہونے کی وجہ بھی اس کا سبک ہندی میں ہوتا ہے
اس شعر میں غالب نے نقش سے مراد موجودات کی ہر چیز کو لیا ہے اور موجودات کی ہر چیز کو کاغذی پیرہن پہنا کر فریادی قرار دیا ہے۔ کاغذی پیرہن فریاد اور نا پائیدار دونوں کی طرف اشارہ ہے اور شوخی تحریر نقش گر یعنی خالق کا ئنات کی قدرت ہے کہ اس نے انسان کو اتنا نا پائیدار بنایا اور انسان اس کے لیے شکوہ سنج ہے۔ بعض لوگوں نے اس شعر کو مد کا شعر قرار دیا ہے جس میں انسان اپنے فانی ہونے اور خدا کے باقی ہونے کی بات کرتا ۔ ہے
ایک اور شعر دیکھیے :
ہوائے سیر گل آئینہ بے مہری قاتل
کہ انداز بخوں غلطیدن بسمل پسند آیا
اس شعر پر بھی فارسی کا اسلوب غالب ہے پہلے مصرعے میں ہوا کا لفظ اردو کے عام معنوں کے بجائے خواہش کے معنوں میں آیا ہے اور پھر اس مصرعے میں فعل موجود ہی نہیں۔ اصل میں غالب کا کہنا یہ ہے کہ محبوب کے سیر گل کی خواہش اس قاتل کی بے مہری یا نامہربانی کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں صرف آیا کا لفظ اردو کا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صیح ہو گا کہ پورے شعر میں صرف ایک لفظ اردو کا ہے اور شعر کا مطلب یہ ہے کہ محبوب اپنے چاہنے والوں کا قاتل ہے اسے سیر گل کا شوق اس لیے ہے کہ وہ خون میں لتھڑے ہوئے اپنے زخمیوں کے تڑپنے کا تماشا د یکھے گویا سیر گل کا شوق بھی اس کی بے دردی اور بے مہبری کو ظاہر کرتا ہے اس بات کو غالب نے مندرجہ ذیل شعر میں قدرے آسمان انداز میں بیان کیا ہے :
انھیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آتا ہے
اٹھے تھے سر گل کو دیکھنا شوخی بہانے کی
س قسم کی ایک اور مثال دیکھیے جس سے مرزا
غالب کی مشکل پسندی کا اظہار ہوتا ہے۔
نہ چھوڑی حضرت یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیده یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
حضرت یعقوب کی آنکھیں یوسف کے فراق میں روتے روتے اندھی ہوگئی تھیں اندھی آنکھوں کو سفید بھی کہتے ہیں۔ غالب کہتے ہیں، حضرت یوسف نے قید میں بھی آرائش کا خیال نہ چھوڑا اور اس آرائش میں یعقوب کی آنکھوں کی سفیدی کام آئی اور وہ دیواروں پر پھر رہی ہے۔ یعقوب کی آنکھوں کی سفیدی کو دیواروں پر پھرنے والی سفیدی قرار دینا خیال بندی ہی کہیں گے ۔
اکثر شعر ابعض اوقات استعجاب پیدا کرنے کے لیے بعض چیزوں کی شاعرانہ توجیہ کرتے ہیں مثلارات کے اندھیرے کے بارے میں کہ شام نے کسی سے غم میں ماتمی لباس پہن رکھا ہے غالب کے ہاں اس قسم کی مثالیں کافی ملتی ہیں جہاں وہ کسی چیز کی توجیہ شاعرانہ منطق سے کرتے ہیں۔ یہ شعر دیکھیے :
سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنان مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ مجھ ماہ کنعان ہو گئیں
اس شعر کے پہلے مصرعے میں ایک دعوئی کیا گیا ہے کہ رقیبوں سے کوئی خوش نہیں ہوتا اور یہ بات بھی درست ہے لیکن انھوں نے اس دعوے کو جھٹلانے کے لیے تاریخ سے ایک مثال تلاش کر لی کہ زلیخا جب یوسف کو اپنی سہیلیوں کے سامنے لائی تو وہ حسن یوسف سے بے حد متاثر ہوئیں کہ انھوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔ ان کا حسن یوسف سے متاثر ہونا گویا ز لینا
کا رقیب بنا تھا لیکن زلیخا ان کی اس حرکت پر خوش ہوئی کہ انھوں نے حسن یوسف کی عظمت کو تسلیم کر لیا۔
غالب کا ابتدائی اردو کلام بھی بہت مشکل ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے اس زمانے میں وہ فاری کے عظیم شاعر بیدل کی پیروی کر رہے تھے۔ بیدل کی پیروی تو فارسی میں مشکل ہے طرز بیدل میں ریختہ کہناو یسے ہی مشکل ہے۔ اس لیے ابتدائی کلام کی مشکل پسندی بعد کے کلام کی مشکل پسندی سے نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ابتدائی دور کے بعد غالب نے اپنے تجربات و مشاہدات کو اشعار میں پیش کیا۔ یہاں بھی کہیں کہیں مشکل کا اظہار ضرور ہوتا ہے لیکن بے معنویت کا نہیں۔
غالب کی مشکل پسندی اپنی جگہ لیکن انھوں نے آخری عمر میں آسان شعر بھی کہے ہیں ان کی اردو شاعری کی
مقبولیت انھی اشعار پر مبنی ہے چند مثالیں دیکھیے :
کو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں