غالب کی غزل گوئی

غالب کی غزل گوئی کی خصوصیات

غالب کی غزل گوئی کا تعارف

ہماری شاعری کے ایک نقاد نے غالب کی غزل کو ٹی ایس۔ ایلیٹ کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایلیٹ کا ارشاد بجا ہے کہ کسی شاعر کا کلام سنتے ہی سامعین داد دینے لگیں تو اس کی عظمت مسلم نہیں ہو جاتی۔

ہو سکتا ہے جو باتیں بار بار کی جاچکی ہو انہی کو دہرایا گیا ہو اور سامعین کو ان پر سوچ بچار کی ضرورت ہی پیش نہ آئی ہو۔ جب کوئی نئی اچھوتی بات کہی جاتی ہے تو اس پر غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔

چنانچہ ایلیٹ کے نزدیک شاعر کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ شاعر کے زمانے میں اس کے قدر دانوں کا ایک حلقہ ضرور موجود ہو خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ حلقہ وسیع ہوتا جائے۔

ذوق کے زمانے میں ان کے قدردان بہت تھے جو وقت کے ساتھ گھٹتے چلے گئے اور آج ان کی غزل کو سراہنے والا شاید کوئی بھی نہیں ۔ اس کے برعکس غالب کے پرستاروں کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا گیا اور آج ساری دنیا میں ان کا شہرہ ہے۔

غالب کی غزل کا فکری عنصر

غالب کی عظمت کا اصل سبب یہ ہے کہ انھوں نے اردو غزل کو سوچنا سکھایا اسے غور و فکر کی عادت ڈالی ۔ غالب سے پہلے اردو غزل کی دنیا بہت محدود تھی حسن کے معاملات اور عشق کی واردات کے سوا اس میں کچھ بھی نہ تھا۔ غالب نے زندگی کے مسائل پر غور کیا اور انہیں اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔

غالب فلسفی بے شک نہیں اور ان کے پاس کوئی ایسا منظم فلسفہ نہیں جیسا مثلاً اقبال کے پاس ہے لیکن وہ ایک حکیمانہ نظر رکھتے ہیں۔ شاعری دو طرح کی ہوتی ہے۔ اچھی شاعری اور عظیم شاعری ۔ اچھی شاعری وہ ہے جس سے صرف لطف حاصل ہو عظیم شاعری وہ ہے جو لطف عطا کرنے کے ساتھ فکر کو بھی بیدار کرے۔

را برابرٹ فراسٹ کے اس خیال میں بہت وزن ہے کہ اعلا درجے کی شاعری مسرت سے شروع ہو کر بصیرت پر ختم ہوتی ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور نے فرمایا ہے کہ فکر سے فن و تاب ملتی ہے۔ غالب کی شاعری کو فکری عنصر نے بھی حسن عطا کیا ہے۔

مزید یہ بھی پڑھیں: مرزا اسد الله غالب کی غزل گوئی pdf

غالب کی غزل گوئی میں استفہامیہ انداز

غالب زندگی کی دشواریوں اور تلخ کامیوں سے پوری طرح واقف تھے۔ ذاتی زندگی میں انہیں بہت سی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے گرد و پیش جو ماحول تھا اس سے بھی وہ مطمئن نہیں تھے۔ کوئی حساس اور ذی فہم شخص مطمئن ہوتا بھی نہیں۔

غالب پر جو کچھ گزرتی ہے اور اپنے چاروں طرف وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس سے کبھی مایوس ہوتے ہیں اور کبھی متحیر۔ اس کا تیجہ اکثر یہ بھی مکلتا ہے کہ وہ طرح طرح کے سوال کرتے ہیں۔ یہ استفہامیہ انداز ان کے دیوان میں جا بجا نظر آتا ہے۔ یہاں چند شعر پیش کیے جاتے ہیں۔

دل ناداں تجھے ہوا کیا

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اسے خدا کیا ہے

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

غالب کی غزل گوئی میں منظم فلسفے کا فقدان

عرض کیا جا چکا ہے کہ غالب کا کوئی منظم فلسفہ نہیں ہے ۔ وہ ایک غور و فکر کرنے والے شاعر ہیں مگر اس غور و فکر سے کبھی ایک نتیجہ نکلتا ہے تو کبھی دوسرا۔ ابھی خوش نظر آتے ہیں۔ ذرا دیر میں رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ ابھی دنیا پر جان نچھاور کرنے کو آمادہ ہیں۔ ذراسی بات میں اس سے بیزار ہو گئے۔

کبھی خود داری کا یہ حال ہے کہ الٹے پیر لوٹ آئے درکعبہ اگر وا نہ ہوا” اور ذرا دیر میں یہ صورت ہے کہ "جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار” ہا تو یہ عالم ہے کہ محبوب کے ساتھ زور زبردستی سے بھی گریز نہیں، فرماتے ہیں۔

عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر

دامن کو اس کے آج حریفانہ کھنچیے

غالب کی غزل گوئی میں تہداری

کلام غالب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس کی میں تہداری یے۔ مطلب یہ ہے کہ شعر میں ایک سے زیادہ معنی نکلتے ہوں۔ پہلی بار شعر پڑھا یا سنا تو اس کے ایک معنی دستیاب ہوئے پھر غور سے دیکھا تو اسی شعر کی تہہ سے دوسرے معنی برآمد ہوئے۔ ان کا ایک شعر ہے۔

کوئی ویرانی سے ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

اس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ دشت کی ویرانی بڑی وحشتناک ہے۔ اسے دیکھ کر خیال آیا کہ ہمارا گھر بھی اسی طرح ویران تھا۔

دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ نہ عشق کرتے نہ گھر چھوڑ کر اس وحشت کدے میں آنا پڑتا۔

لیکن اس شعر کے ایک تیسرے معنی بھی ہیں۔ پہلے مصرعے کو تحقیر کے انداز میں پڑھیے یعنی یہ بھی کوئی ویرانی ہے ۔ اصل ویرانی دیکھنی ہو تو میرے گھر کو دیکھو۔

غالب کے کلام میں ایسے بہت سے شعر مل جاتے ہیں جن کے کئی کئی معنی نکلتے ہیں۔

غالب کے ہاں مشکل پسندی

کلام غالب کی ایک اور اہم خصوصیت ہے مشکل پسندی۔ ان کے بیشتر اشعار ایسے ہیں کہ استاد کی رہنمائی یا شرح کی مدد کے بغیر ان کے معانی تک رسائی ممکن نہیں ۔

ورڈزور تھ شاعری کے لیے اس زبان کو پسند کرتے ہیں جسے عام لوگ بول چال میں استعمال کرتے ہیں، کولرج فلسفے کی زبان کو شاعری کے لیے مناسب خیال کرتے ہیں۔ شاعر و ادیب وہ زبان اختیار کرنے پر مجبور ہے موضوع جس زبان کا تقاضا کرے۔

ادب زندگی کا آئینہ ہے۔ جب زندگی سادہ تھی تو شعر و ادب کی زبان بھی سادہ ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ زندگی بھی پیچدہ ہوتی چلی گئی تو شعر نے بھی پچیدگی کا پیرایہ اختیار کیا۔ گو یا غالب نے پیچیدہ پیرایہ اظہار اپنایا تو یہی ان کے عہد کا تقاضا تھا۔

غالب کے اشعار اس لیے مشکل معلوم ہوتے ہیں کہ انھوں نے پہلی بار فکر کو شاعری میں داخل کیا۔ اردو شاعری کے سامعین اس کے عادی نہ تھے اور شعر میں زبان کا چٹخارا ڈھونڈتے تھے۔

اس کا دوسرا سبب ان کی فارسی دانی ہے۔ فارسی زبان اور فارسی شعر و ادب ان کے مزاج میں رچ بس گئے تھے۔ اس لیے ان کے کلام میں فارسی الفاظ کی کثرت ہے جس نے ان کے کلام کو مشکل بنا دیا ہے۔

اس کا تیسرا اور اصل سبب ان کے تخیل کی بلند پروازی ہے تخیل نام ہے خیال کی پرواز کا اور اس کے بغیر شعر وجود میں آہی نہیں سکتا۔ لیکن تخیل کی پرواز اتنی بلند بھی نہ ہونی چاہیے کہ وہ آسمان کی وسعتوں میں گم ہو جائے اور زمین سے اس کا ناتا ہی ٹوٹ جائے ۔

غالب کی شاعری میں اکثر ایسا ہی ہوا ہے۔ محمد حسین آزاد نے آپ حیات میں غالب کے تخیل کی بلند پروازی پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے بعض بلند پرواز ایسے اوج پر جائیں گے جہاں آفتاب تارا ہو جائے گا اور بعض ایسے اڑیں گے کہ اڑتی ہی رہ جائیں گے۔

ایک جگہ لکھتے ہیں: (اکثر شعر ایسے اعلا درجہ رفعت پر واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے نارسا ذہن وہاں تک نہیں پہنچے سکتے۔)

غالب کی مشکل گوئی کی شکایت ان کے ایک ہم عصر طبیب و شاعر آغا جان عیش نے ان الفاظ میں کی۔۔

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے

مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے

کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے

مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

اس طرح کی شکایتوں سے غالب کے مزاج میں برہمی پیدا ہوتی تھی۔ ایک بار جھنجلا کر اس اعتراض کا یہ جواب دیا۔

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہیں

لیکن ایسا نہیں کہ اس تنقید کا غالب پر اثر نہ ہوا ہو۔ ان کا ابتدائی زمانے کا کلام مشکل تھا۔ انھوں نے نمونے کے طور پر کچھ غزلیں رہنے دیں باقی کو قلم زد کردیا اور آئندہ نسبتاً آسان زبان اختیار کرنے کی کوشش کی۔

غالب کی غزل گوئی میں شوخی اور ظرافت

شوخی اور ظرافت غالب کے مزاج میں داخل تھی۔ اس لیے حالی نے انھیں حیوانی ظریف کہا ہے۔ پر لطف گفتگو سے دلچسپ لطیفوں اور چٹکلوں سے ہر وقت پھول سے بکھیرتے رہتے تھے۔ ان کے مزیدار فقروں کو ان کے عقیدت مند قیمتی سوغات کی طرح اپنے اپنے وطن کو لے جاتے تھے۔ دوستوں عزیزوں کو سناتے اور محفوظ ہوتے تھے۔ اس لیے مرثیہ غالب میں حالی نے کہا تھا۔

(تھیں تو دلی میں اس کی باتیں تھیں لے چلیں اب وطن کو کیا سوغات) ان کی ذاتی زندگی اور مجموعہ مکاتیب کی طرح غالب کے دیوان میں بھی شوخی، ظرافت اور طنز کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ان کا رقیب ان کا محبوب ، جنت ، دوزخ ، فرشتے بھی ان کے مزاج سے نہ بچ سکے۔ دیکھیے ۔

آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت

لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

وہ اپنی ذات کو بھی طنز و تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔

غالب کی انانیت

غالب کی انانیت بھی اسی اندازہ نظر کا نتیجہ ہے جس سے ہر خامی اصل سے کچھ زیادہ ہی ناقص نظر آتی ہے کوئی خرابی فن کار کی نظر سے بچ نہیں سکتی۔ وہ اسے دیکھتا ہے، اس پر کھتا ہے اور اسے اپنے طنز کا نشانہ بناتا ہے، فنکار بہت ذکی الحس ہوتا ہے اور کسی بھی کو برداشت نہیں کر سکتا۔

خمکاروں کے مقابل وہ خود کو بہت بلند مرتبہ پاتا ہے اور انھیں حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ ہر بڑے فن کار کی طرح غالب کو اپنی عظمت کا احساس تھا۔ اس احساس کا اظہار نظم و نثر دونوں میں جا بجا ہوا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں :۔

( خدا کے واسطے دار دینا، اگر ریختہ یہ ہے تو میر و مرزا کیا کہتے تھے۔ اگر ریختہ وہ تھا تو پھر یہ کیا ہے)

یہی بات شعروں میں بھی دہرائی گئی ہے۔

آج مجھ سا نہیں زمانے میں

شاعر نغز گوئے و خوش گفتار

تصویر کشی

تصویر کشی میں بھی غالب کو بہت مہارت حاصل ہے۔ وہ لفظوں سے ایسی تصویر بناتے ہیں کہ مصور رنگوں سے ایسی مکمل اور جیتی جاگتی تصویر بنانے سے قاصر ہے۔

مثال کے لیے غالب کی وہ غزل پیش کی جاسکتی ہے جس کا ہر شعر ایک زندہ تصویر ہے اور غزل ایک دلکش البم۔ ہمارا اشارہ اس غزل کی طرف ہے۔

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس

زلف سیاہ رخ پر پریشان کیے ہوئے

غالب کی غزل گوئی میں استعارات و تشبیہات

غالب رنگوں کے ایسے شیدائی ہیں کہ استعاروں کے انتخاب میں بھی وہ رنگوں سے بہت کام لیتے ہیں اور ایسے حسی پیکر تراشتے ہیں جنھیں رنگ و نور کا مجسمہ کہا جا سکتا ہے، گل ، گلستان، آفتاب،لالہ ، قطرہ خوں ان کے پسندیدہ استعارے ہیں ۔

گلشن کو تری صحبت از بس کر خوش آئی ہے

ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے

موسیقیت

موسیقیت کلام غالب کی نمایاں خصوصیت ہے۔ غالب موسیقی سے محض دلچسپی ہی نہیں بلکہ اس میں مہارت بھی رکھتے تھے لفظوں کا وہ جس ہنر مندی سے انتخاب کرتے ہیں اور جس سلیقے سے وہ انھیں ترتیب دیتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں اس فن پر کیسا عبور حاصل تھا۔

اسی لیے ان کی بیشتر غزلوں میں یہ خوبی موجود ہے کہ انھیں بہت دلکش ترنم کے ساتھ گایا جا سکتا ہے۔ کلام غالب کے ایک نقاد کی یہ راے درست ہے کہ موزوں و مترنم الفاظ ، ان کی مناسب ترتیب، بحر وقافیہ کا انتخاب، استعاره و پیکر جیسے شعری وسائل ہی سے کسی شاعر کی عظمت کا تعین نہیں ہوتا ۔

دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ شاعر کے پاس ایسے تجربات کا ذخیرہ ہے کہ نہیں جو آفاقی بھی ہوں اور قابل ذکر بھی اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ تجربات شاعر کے احساس میں رچ بس کر فنی آداب کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھل گئے ہوں ۔

اگر ایسا ہے تو اسے بقائے دوام کی بشارت دی جا سکتی ہے اور غالب ایسے ہی ایک شاعر ہیں۔

معاون کتب: اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ ، ڈاکٹر سنبل نگار

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں