سفر کے عوامل | ڈاکٹر ثمینہ گل

سفر کے عوامل

سفر کے عوامل: انسان کی فطرت تبدیلی پسند ہے۔مستقل ایک جگہ رہنے سے اکتاہٹ او ر بے چینی ہونے لگتی ہے۔نادیدہ کی جستجواسے بے چین رکھتی ہے۔تبدیلی اور تلاش میں ہی انسان کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔

اس خوشی کے حصول کے لیے تکلیفیں اورسختیاں خوش اسلوبی سے برداشت کرنابے مراد اور بے مقام اجنبی راستوں پر چلتے ہوئے نئی دریافت سے خوشی حاصل کرناانجان درو دیوار اور اجنبی راستوں میں تجسس ،اور تحیر کا عنصر ڈھونڈناساکت و جامد زندگی کے جمود کوتوڑنا ہی تجربات و مشاہدات میں اضافہ کرتا ہے۔جب اس کے سامنے مناظر تبدیل ہوتے ہیں تو وہ متحرک ہو جاتا ہےسفر کا آغاز انسان کے دنیا میں آنے سے ہوگیا تھا جیسے جیسے زمین آباد ہوتی گئی ویسے ویسے سفر میں وسعت آتی گئی۔

انسان اپنے تجربات و مشاہدات میں وسعت پید ا کرتا رہاعرش سے فرش پھر فرش سے عرش تک کا سفر انسانی مزاج کی تبدیلی کا ہی عنصر موجود ہے۔کائنات کی ہر شے سفر میں ہے۔نباتات،حیوانا ت اور جمادات بھی اپنے بنائے ہوئے مدار میں سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جانوروں اور پرندوں کی ہجرت کا آغاز موسموں کی تبدیلی سے ہوتا ہے۔سائبریا کے پرندے موسم کے تبدیل ہوتے ہی کسی گرم علاقے کا رخ کرتے ہیں اور مناسب آب وہوا والے علاقے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

ساحلی جانور اورپرندے بھی موسم کی شدت کے باعث مختلف علاقوں میں نقل مکانی کرتے ہیں۔جنگلوں کے جانور بھی خطرات کو محسوس کر کے محفوظ مقام پر جا کر پناہ لیتے ہیں۔شجر اور پودے اپنی زندگی کا آغاز ایک بیج سے کرتے ہیں اور پھر تناور درخت بننے کے لیے ان کا سفر جاری رہتا ہے اور وہ اپنی جڑیں مدتوں زمین میں پیوست رکھتے ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے ذہنی سفر اور ذہنی رکاوٹ کا جائزہ لیاتو یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔کہ اگر ذہنی سفر کو روک لیا جائے تو اس کی مثال اس کھڑے پانی کی سی ہوجاتی ہے۔جس کی سطح پر کائی جم گئی ہو اور بدبو بھی پیدا ہوگئی ہو۔افکار میں تبدیلیاں ہی ذہنی ترقی کا باعث بنتی ہیں۔

سفر کرنے والے خود اعتماد ی ،وسیع القلبی کے جوہر سے آشنا ہوتے ہیں۔کوئی بھی سیاح جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے۔توا سے دوسرے علاقے کی معلومات کے ساتھ ساتھ وہاں کے رسم ورواج ،سماج ،معاشرت،معیشت،سے واقفیت حاصل ہوتی ہے اور اس کے منجمد خیالات میں تحرک پید اکرنے کا باعث سفر ہی ہوتا ہے۔ انسانی فکر وقت کی پہلو بدلتی تاریخ کے ساتھ چلنے لگتی ہے۔ اس سلسلے میں خالد محمود رقمطراز ہیں: ’’سفر تجربے کی وسعت کا بہترین ذریعہ ہے۔سیر و سیاحت میں نئے نئے اشخاص سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ان کی خوبیوں اور اپنی خامیوں پر نظر پڑتی ہے عظیم شخصیتوں اور مشہور و معروف لوگوں سے ملاقات کرنے اور فیض حاصل کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے اورانسانی تعمیرو ترقی کے کارناموں سے واقف ہونے کے لیے سفر سے کوئی بہتر وسیلہ نہیں‘[1]

ایک وقت تھا جب سفر کرنا نہایت مشکل تھا لوگ سفر کا ارادہ کرتے ہفتوں مہینوں سوچنے کے بعد سفر کی تیاری کی جاتی ،زادِ راہ کا بھی خصوصی طور اہتمام کیا جاتا تھا۔چلتے چلتے جہاں اندھیرا پھیلنے لگتا وہیں پر پڑاؤ ڈال دیا جاتا تھا۔خیمے لگاتے اور جنگل جانوروں کے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات کیے جاتے اور پھر علی الصبح دوبارہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہو جاتے۔اِن گروہی سفر کرنے والوں کی مشکلات بھی ایک جیسی ہوتیں اور دوران سفرپیش آنے والے واقعات کامل کر ہی مقابلہ کیا جاتا تھا۔

قافلے میں شریک ہر فرداپنی ذہنی استعداد کے مطابق مشاہدات وتجربات رکھتا۔سفرسے واپسی پر واقعات سنائے جاتے انہی واقعات نے داستانوں کا روپ اختیار کیا ان داستانوں میں کچھ اپنے تجربات و مشاہدات اور کچھ ماورائی جگہوں کی مہما ت کے سر کرنے کا ذکر کیا جاتا تھا۔جب پہیہ ایجاد ہوا تو سفر میں قدرے آسانی آگئی اور سوچنے کے انداز بھی تبدیل ہو گئے اس ایجاد نے انسانی زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا۔سفر کا لا محدود سلسلہ چل نکلا۔

انسان نے نہ صرف زمینی سفر بلکہ فضائی اور بحری راستوں کو بھی تلاش کر لیا گیا۔ڈاکٹر انور سدید کے مطابق:

’’سفر نئی حیرت اور نئی جستجو کا ذریعہ ہے۔تجربے کا خالق ہے۔‘‘۳

سفر عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی مسافت طے کرنے کے ہیں اور قرآن مجید کی مختلف آیا ت میں لفظ سفر کو وسیلہ ء ظفر کہا گیا ہے لفظ سفر کو ’’رحلہ‘‘ بھی کہا گیا ہے۔سورۃ کہف ،سورۃ قریش میں سفر کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ سیرو فی الارض کا ذکر بھی قرآن پاک میں کئی بار آیا ہے۔دنیا کے تمام مذاہب نے مسافر کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔مسلمانوں نے سفر اور ذوقِ سفر کو اوجِ کمال تک پہنچایا ہے۔

انھوں نے سیر وسفر کے رحجان کو ایک تحریک کی صورت میں پیش کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انبیا کرام کو انسانوں کی فلاح کے لیے معبوث فرمایا او ر اُنھیں انسانیت کا درجہ عطا کیا۔حضرت آدم علیہ السلام کا پہلا سفر جنت سے زمین تک کا سفر ہے۔

نوح علیہ السلام کشتی میں سیلاب کی موجوں سے لڑتے رہے اور طویل سفر کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام ،حضرت عیسیٰ ،حضرت ابراہیمؑ ،حضرت اسماعیلؑ ،کے اسفار بھی تاریخ اسلام کا حصہ میں موجود ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سفر اور شوقِ سفر موجود ہے۔صحابہ کرام ،صوفیا کرام نے تبلیغ دین کی خاطر سفر اختیار کیے مختلف علاقوں کی جغرافیائی حدود کے ساتھ ساتھ اندرونی شعوری سفر بھی اختیار کیے گئے۔

انسان اپنی ذات کے چھپے ہوئے علاقے(صلاحیت)دریافت کرتا ہے اور کشف ذات عیاں ہوتی ہے۔معراج مصطفیؐ ان کی جسمانی و روحانی سفر کی واضح دلیل ہے۔ یہ تاریخ کا ایسا سفر ہے۔جس کی مثال قیامت تک نہیں مل سکے گی۔حضور اقدس ؐ کو آسمانوں کی سیر کروائی گئی اور خالق کائنات سے ملوایا گیا ارض و سما کی سیر کروائی گئی۔سورۃ بنی اسرائیل جو مکہ میں نازل ہوئی آیت نمبر ۱ میں ارشاد ہواترجمہ:

’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے محمد ﷺکو شب کے وقت مسجد الحرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں،لے گیاتاکہ ہم ان کو اپنے کچھ عجائبات قدرت دکھلا دیں۔‘‘[3]

مسافر کا ہر قدم نئے جہانوں کی خبر لاتا ہے۔اس کی فکرو نظر میں وسعت اور بلندی نمایاں ہو جاتی ہے۔وہ زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر کندن بن جاتا ہے۔اس کا دائرہ افکار وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔نئے نئے اشخاص سے ملاقات اسے اپنی خامیوں اور خوبیوں سے آگاہ کرتی ہے۔

ارادۃً سفر بے شمار تجربات و مشاہدات کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔وہ اپنے ر استے میں آنے والی تمام مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتا ہے اور راہ کی گر د کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔جبکہ جبری اختیار کردہ سفرمشکلات کاباعث بنتا ہے۔سفر کی آسانیاں بھی مسافر کو طے کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔

ماخذ:اردو کا پہلا سفر نامہ:میر تقی میر، تحقیق ڈاکٹر ثمینہ گل شعبہ اردو یونی ورسٹی آف لاہور سرگودھا کیمپس

سفر کس زبان کا لفظ ہے ؟

سفر عربی زبان کا لفظ ہے

لفظ سفر کے لغوی معنی کیا ہے؟

مصافت طے کرنا

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں