سب رس کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ
موضوعات کی فہرست
سب رس کا خلاصہ
سب رس کا خلاصہ:قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک سیستان کے بادشاہ عقل کا بیٹا دل جو علاقہ تن کا حکمران ہے وہ آب حیات تلاش کرنا چاہتا ہے۔ پتا چلتا ہے کہ شہر دیدار کے باغ رخسار میں آب حیات کا چشمہ ہے۔ شہر یدار سلطان عشق کی مملکت ہے۔
عشق کی بیٹی حسن ہے۔ دل اپنے دوست نظر کو بھیجتا ہے ۔ نظر حسن سے ملتا ہے اور دل سے حسن کی خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے۔
دل ، حسن پر عاشق ہو جاتا ہے، دل حسن سے ملنے جاتا ہے۔ عقل کا لشکر ساتھ ہے۔
عقل اور عشق کے لشکر میں جنگ ہوتی ہے اور عقل و دل کو شکست ہوتی ہے۔ دل کو پکڑ کر حسن کے پاس لایا جاتا ہے ۔ دونوں بام وصل پر ملتے ہیں لیکن رقیب کی بیٹی غیر کی غداری سے دل فراق کے کوٹ میں قید کر دیا جاتا ہے۔
کچھ دن بعد غیر اقبال جرم کر لیتی ہے، دل رہا ہو جاتا ہے۔ ہمت کی مصالحت سے عقل عشق کا وزیر مقرر ہوتا ہے۔ دل اور حسن کا عقد ہو جاتا ہے۔
باغ رخسار میں خضر علیہ وسلام دل اور حسن کے سامنے اسرار حیات منکشف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آب حیات سخن ہے جو شمہ دامن میں ہے۔
سب رس کا تنقیدی جائزہ
سب رس کا تعارف
سب سے اردو میں ادبی نثر کا پہلا نمونہ اور پہلی تمثیلی داستان ہے جو ستر ہویں صدی میں لکھی گئی۔سب رس وجہی نے قلی قطب شاہ کے نواسے عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر 1045 و مطابق 1635ء میں تحریر کی تھی۔
جس نے وجہی کو بیان عشق میں کتاب لکھنے کی درخواست کی تھی۔
سب رس کے قصے کے دومحور ہیں
(1) آب حیات کی تلاش
(2) معرکہ حسن و عشق۔
سب رس میں آب حیات کی تلاش پر توجہ کم دی گئی ہے اور حسن و عشق اور ان کی کیفیات کی تفصیل پر زیادہ زور صرف کیا گیا ہے حالانکہ اس داستان کا اصل مقصد آب حیات کی تلاش ہے۔
سب رس دکنی زبان کی پہلی داستان ہی نہیں بلکہ پہلی تمثیل بھی ہے جس میں حسن و عشق کی کشمکش اور عشق اور دل کے معرکے کو قصے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔
سب رس میں عشق، عقل، دل ، حسن، ہمت، وفاء مہر اور وہم و غیرہ مجرد خیالات کو انسانی کردار میں ڈھال کر رمزیہ انداز میں تصوف کے مسائل کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
وجہی نے اس قصے کا عنوان "سب رس” اس لیے رکھا ہے کہ اس نے زندگی خصوصاً عشق سے متعلق سارے رس ( سب رس یعنی سارے جذبات ) مثلا محبت، اطاعت، قربانی، رشک ، رقابت ، هجر، وصال ، خوشی اور غم کو ان جذبوں کے ماخذات یعنی حسن، عشق، دل ، نظر عقل کے کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔
سب رس کا اسلوب رنگین ، مرصع ، مسجع اور متفی ہے۔ وجہی کا اسلوب داستان اور انشائیہ دونوں سے عبارت ہے۔ وجہی نے خود کہا ہے کہ اس نے "نظم اور نثر ملا کر ایک نیا طر ایجاد کیا ۔
"وجہی نے اس قصے کو گنج العرش ، بحر المعانی اور وحی الہام لکھا ہے۔
سب رس کو مولوی عبدالحق نے دریافت کر کے پہلی بار انجمن ترقی (دکن) سے 1932 میں شائع کیا تھا۔وجہی نے سب رس کو اپنا کارنامہ بنا کر پیش کیا ہے اور اس کے موجد ہونے کا مدعی ہے اور کہیں اس نے اپنے ماخذ کار ذکر نہیں کیا۔
لیکن مولوی عبدالحق نے سب سی کا ماخذ محمد ابن سیبک فتاحی نیشا پوری کی فارسی مثنوی دستور عشاق ( تقریباً پانچ ہزار اشعار کی فارسی مثنوی) کے نثری عامہ (450 سطروں پر مشتمل )
حسن و دل کو قرار دیا ہے جبکہ عزیز احمد نے مثنوی دستور عشاق اور اس کا نثری خلاصہ حسن و دل دونوں کو سب رس کا ماخذ قرار دیا ہے۔
سب رس کے متعلق نصیر الدین ہاشمی نے لکھا ہے کہ یہ تصوف کی بہترین کتاب ہے جس کو فرضی تھے کے طور پر لکھا ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیں: اردو کے ابتدائی ناولوں پر داستان کے اثرات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ | مطالعہ pdf
سب رس میں کرداروں اور مقامات کی پہچان
عقل سیستان کا بادشاہ ہے جس کے بیٹے کا نام دل ہے جو علاقہ تن کا حکمراں ہے۔شہزادہ دل نے اپنے دربار میں شراب نوشی کرتے ہوئے آب حیات کا ذکر سن کرکھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔
شہزادہ دل نے آب حیات کی تلاش کے لیے شاہی فوج کے ایک جاسوس نظر کو بھیجا تھا۔
نظر آب حیات کا پوچھنے کے لیے عافیت نامی شہر کے بادشاہ ناموس ، زہد پہاڑ پر رہنے والے بوڑھے، زرق اور ہدایت نامی قلعے کے حکمراں ہمت سے ملا تھا۔
ہمت نے نظر کو بتایا تھا کہ شہر دیدار کے باغ رخسار کے چشمہ دہن میں آب حیات ہے۔ ہمت نے نظر کو بتایا تھا کہ شہر دیدار جو کہ مشرق کے بادشاہ عشق کی بیٹی حسن کی ملکیت ہے۔
اس شہر کی سخت نگرانی مقام، سنگسار کا نگراں "رقیب” جو کہ بادشاہ عشق کا غلام ہے وہ کرتا ہے۔
ہمت نے اپنے بھائی قامت کے نام جو رقیب ہی کے شہر میں رہتا ہے خط لکھ کر نظر کو دیا تھا تاکہ قامت نظر کی مدد کرے۔شہر سنگسار کے لوگوں نے نظر کو چور اور جاسوس سمجھ کر گرفتار کر کے رقیب کے حوالے کر دیا تھا۔
نظر رقیب کو مٹی کو سونا بنانے کا لالچ دے کر باغ رخسار پہنچا تھا اور قامت کی مدد سے رقیب کے چنگل سے آزاد ہوا تھا۔قامت نے اپنے ایک غلام کی مدد سے نظر کو باغ کی گھاس کی تہہ کے نیچے اس طرح چپھا دیا تھا کہ وہ رقیب کے ہاتھ نہ آسکے۔
باغ رخسار میں نظر کی ملاقات شہزادی حسن کی سہیلی زلف (لٹ) سے ہوئی تھی جس نے نظر کو کچھ بال دے دیئے تھے اور مصیبت میں جلانے کو کہا تھا۔
بادشاہ عشق کا ایک سپاہی "غمزہ” نے نظر کو باغ رخسار سے گرفتار کیا تھا۔ غمزہ کو نظر کے بازو پر بندھے لعل کو دیکھ کر یاد آیا تھا کہ نظر غمزہ کا بچھڑا ہوا بھائی ہے۔
غمزہ ہی نے شہزادی حسن سے نظر کا تعارف کرایا تھا کہ نظر جو ہری ہے جسے ہیروں کی پہچان ہے۔
شہزادی حسن نے نظر کو ایسا ہیرا دکھایا تھا جس پر شہزادہ دل کی تصویر کندہ تھی اور اس تصویر پر حسن فدا تھی۔
شہزادی حسن نے نظر سے شہزادہ دل سے ملانے کی درخواست کی تھی۔ شهزادی حسن نے اپنے ایک غلام خیال کو نظر کے ساتھ شہزادہ دل کو لانے کے لیے بھیجا تھا۔
شہزادی حسن نے نظر کو اپنی وہ انگوٹھی دی تھی جس پر آب حیات کی مہر لگی تھی ، جس کی مددسے چشمہ آب حیات تک پہنچا جاسکتاتھا اور اگر کوئی اس انگوٹھی کو اپنے منہ میں رکھ لے تو وہ دوسروں کونظر نہیں آتا تھا۔
خیال نے شہزادی حسن کی تصویر بنا کر دل کو دکھائی تھی جس پر شہزادہ عاشق ہو کرشہر یار چلنے کو تیار ہو ا تھا۔
بادشاہ عقل نے وزیر وہم کے ذریعے دل کے شہر دیدار جانے کی خبر سن کر نظر اور دل کو قید کر رہا تھا۔ لیکن نظر خیال کی مدد سے قید سے نکل آیا تھا۔
پھر رقیب نے چشمہ آب حیات سے نظر کو گرفتار کر کے اپنی کوٹھری میں قید کر دیا تھا جہاں سے زلف نے نظر کو چھڑایا تھا۔ حن نے دل کو آزاد کرانے کے لیے اپنے ایک غلام غمزہ کو نظر کے ہمراہ ملک تن بھیجا تھا۔
بادشاہ عقل نے زرق کے بیٹے توبہ کو زہد پہاڑ پر نگراں مقرر کیا تھا۔
غمزہ اور نظر شہر عافیت پر قبضہ کرنے کے لیے قلندر بن کر گئے تھے۔غمزہ نے اپنی فوج کو ہرنوں کی ڈار میں دعائے سیفی کی مدد سے تبدیل کر دیا تھا۔
بادشاہ عقل دل کو قید سے نکال کر ایک سپہ سالار صبر کے ساتھ حسن کی فوج کے مقابلے کے لیےبھیجتا ہے۔
شہزادہ دل اور شہزادی حسن میں چار دن تک جنگ ہوئی تھی جس میں حسن کی طرف سے غمزہ کے قامت اور زلف نے حصہ لیا تھا۔شہزادی حسن نے اپنے غلام خال کی مدد سے جنگ سے بچنے کی تدبیر نکالی تھی۔
شہزادی حسن کی ہمزاد جو کوہ قاف میں بستی تھی اس کا کمانڈر ہلال دل کو زخمی کر کے اور گرفتار کر کے لایا تھا۔بادشاہ عشق کے حکم کے مطابق شہزادی حسن اور ناز (دائی ) نے دل کو چاہ ذقن میں قید کیا تھا۔
سپہ سالار مہر کی بیٹی وفا کی تجویز پر دل کو چاہ ذقن سے زلف کی مدد سے نکالا گیا تھا۔شہزادی حسن اور شہزادہ دل دونوں کی ملاقاتیں بام وصال یا وصال کے چھجے پر ہوتی تھیں ۔
رقیب کی بیٹی غیر کی غداری کی وجہ سے حسن و دل میں بدگمانی پیدا ہوئی تھی۔
رقیب نے دل کو ہجراں کے قلعے میں قید کیا تھا۔ بار شاہ عقل، خیر اور ہمت تینوں اپنی اپنی فوج کے ساتھ عشق کا مقابلہ کرنے نکلے تھے۔
ہمت کے بھائی قامت کے سمجھانے پر سب سے پہلے ہمت نے عشق کی اطاعت راضی کی تھی۔سپہ سالار مہر کے سمجھانے پر عقل عشق کی اطاعت کے لیے راضی ہوا تھا ۔
بادشاہ عشق کے حکم پر ہمت نے دل کو ہجراں کے قلعے سے نکال کر رقیب اور اس کی بیٹی غیر کو ہجراں کے قلعے میں قید کر دیا تھا۔شہنشاہ عشق نے صلح کے بعد عقل کو اپنا وزیر بنا لیا تھا۔عشق نے حسن و دل کی شادی کر دی تھی۔
شہزادہ دل نظر اور خیال کی ملاقات باغ رخسار میں چشمہ آب حیات پر خضر سے ہوئی تھی۔
شہزادہ دل نے نظر کے کہنے پر خضر سے آب حیات کا پتہ پوچھا تھا ۔
خضر نے دل کو آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک ہدایت دی۔ دل نے اس ہدایت پر عمل کیا اور اسے کئی لڑکے ہوئے۔
جو بڑا لڑکا ہے وہ یہی کتاب سب رس ہے جو حقیقت میں آب حیات ہے۔وجی نے آب حیات سب رس کو کہا ہے۔
سب رس میں چھوٹے بڑے کل کردار 76 ہیں ۔سب رس میں سب سے جاندار اور متحرک کردار دل کا جاسوس نظر ہے۔
سب رس کے مرکزی کردار حسن ( ہیروئن) اور دل ( ہیرو) ہیں۔حسن کا کردار نسبتاً جاندار ہے۔
ضیائے اردو نوٹس سے انتخاب
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں