رضا علی عابدی کی افسانہ نگاری
رضا علی عابدی کے افسانوں میں ہر چند کہ متوسط طبقے کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے لیکن اگر کہانی کار کا مشاہدہ وسیع ہو تو وہ بالائی طبقوں میں بھی ایسے مکینوں کو تلاش کر سکتا ہے جو اونچے طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود متوسط طبقے یا نچلے طبقے کے افراد جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن رضا علی عابدی کے افسانوں میں ہمیں تقریباً ایک جیسا ماحول ملتا ہے۔
انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے نچلے یا متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگی کو اپنے افسانوں کاموضوع بنایا ہے، لکھتے ہیں :
اپنے بر صغیر کے طول و عرض کے دوروں میں جو کام میں نے دل لگا کر کیا وہ یہ ہے کہ میں نے تاریخی عمارتوں اور حسین منظروں سے زیادہ ان عمارتوں کے پچھواڑے اور ان منظروں کے پرے رہنے والے انسان کو قریب جا کر دیکھا ہی نہیں اسے محسوس کیا۔ اسے جانا ہی نہیں اسے سمجھا۔
اس نے تو صرف مجھے دل میں بٹھایا میں نے اُسے اپنے شعور کے نہاں خانے میں بٹھادیا۔ اب سر اور تال میرے ہیں اور سنگت اس کی۔۔۔۔ (۲)
رضا علی عابدی کے افسانوں میں دیہاتی زندگی کی بھر پور عکاسی ملتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی پریم چند کی طرح سورج مکھی کے پھول سے گلاب کی خوشبو کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وہ تخلیقی کرب جو پریم چند کے افسانوں میں نظر آتا ہے یہاں دکھائی نہیں دیتا۔
رضا علی عابدی نے ہمارے معاشرے کے درد ناک پہلوؤں کی نشان دہی کی ہے۔ وہ مسائل جو ہمارے جانے پہچانے ہیں اُن کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔”
رضا علی عابدی کے افسانوں میں ایک بات جو متاثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے محض مسائل یا ان مسائل میں گرفتار لوگوں کی بات نہیں کی بلکہ پس پردہ ان لوگوں کے بھیانک چہروں سے بھی نقاب اٹھایا ہے جو ہمیشہ سے معصوم اور مظلوم لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں مثلاً ضعیف الاعتقادی دیہات کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔
اس موضوع پر رضا علی عابدی نے بہت اعلیٰ افسانے لکھے ہیں۔ ان افسانوں میں افسانہ نگار کی نظر صرف لوگوں کی ضعیف الاعتقادی پر نہیں رہتی بلکہ اس کے پردے میں جو لوگ استحصالی کردار ادا کر رہے ہیں افسانہ نگار ان کرداروں اور ان کے طریقہ واردات کو بغور دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے مثلاً :
"اس رات شانتی کے سر سے جن اتارا گیا تو شاہد خاموش کھڑا دیکھتا رہا۔۔۔۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ حامد علی نے لڑکی کو پکڑ کر کس طرح اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔”
رضا علی عابدی نے تجریدی ادب کی مخالفت کی اور علامتی افسانے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا کہتے ہیں:
"علامتی انداز میں کہانیاں لکھنا میرے بس کا کام نہیں مجھے پتہ ہے کہ اگر میں اس طرح کا ادب لکھوں گا تو اوندھے منہ گروں گا۔ (۴)
لیکن ” اپنی آواز ” میں جو انہوں نے ایک دو علامتی افسانے لکھے وہ اُن کی خوب صورت تخلیقات میں سے ہیں۔ گویا یہ کہانیاں کہانی کار کے اس دعوے کی تردید کرتی ہیں کہ وہ علامتی ادب نہیں لکھ سکتے۔ فنکار معاشی اور سماجی ناہمواری اور ذاتی واجتماعی کرب کو جس طرح نفسیاتی پہرائے میں بیان کرتا ہے تو کئی علامتیں وجود میں آتی چلی جاتی ہیں۔
علامتی افسانے کے بارے میں مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں :علامت خیال کی سب سے بڑھ کر آپ روپی صورت ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں