راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری | ڈاکٹر فیض الرحمن

بیدی پر چیخوف کے اثرات

روسی افسانہ نگار بالخصوص چیخوف کے افسانوں نے جہاں بین الاقوامی سطح پر افسانہ نگاروں کو متاثر کیا وہیں اردو افسانہ نگاروں بالخصوص را جندر سنگھ کو بھی متاثر کیا ۔

اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ موضوع ، فن اور تکنیک کی سطح پر اردو میں جو افسانہ نگار سب سے زیادہ چیخوف سے متاثر نظر آتے ہیں وہ بیدی ہیں بقول ممتاز شیریں۔

چیخوف کی البتہ جھلکیاں کئی ادیبوں میں ملتی ہیں مثلاً بیدی ، حیات اللہ انصاری ، محمد حسن عسکری ، غلام عباس خصوصیت سے چیخوف کے افسانوں کی فضاء رنگ اور لہجہ (Tone) بیدی کے یہاں پائے جاتے ہیں ۔

مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی کہانیوں پر چیخوف کے اثرات نمایاں ہیں جس کی واضح مثالیں "بھولا” "اپنے دکھ مجھے دیدو” اور "لا جونتی وغیرہ ہیں ۔

بیدی نے چیخوف کی طرح معمولی اور بے رنگ واقعات میں ڈھکے ہوئے ذہنی حقائق اور نتیجہ خیز جذبات کو محسوس کیا جس وجہ سے ان کے فن میں انسان دوستی کے جذبہ سے سرشار ایک متحرک سایہ نظر آتا ہے ان کا افسانہ بھولا میں معصوم جذبہ وانکا ( چیخوف) کے جذبے سے قریب ہو جاتا ہے۔

” دس منٹ کی مجبوری” میں رانا کی مجبوری و بے بسی "اپنے دکھ مجھے دیدو” میں اندو کی قربانی کے سارے جذبے سیدھی سادی گھریلو زندگی میں نظر آتے ہیں "گرم کوٹ” میں معمولی گھر ، اس کے افراد کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ، محبتوں ، دکھ دردوں ، مصیبتوں کی بچی ، نرم ، لطیف و ہمدردانہ پیش کش میں گوگول کا رنگ چھا پا نظر آتا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں نئے تیکنیک

چیخوف کی طرح بیدی نے بھی اپنے افسانوں میں نئی تکنیکیں استعمال کی ہیں ” دس منٹ بارش میں” ، میں مسلسل تبصرے (Running Coommentry) کی تکنیک کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔

( افسانہ ” دیودار کے درخت” کا تنقیدی جائزہ | تحریر ڈاکٹر بیگم جافو )

یہاں بیان کرنے والا بھی موجود ہے اور اپنے گھر کے برآمدے میں کھڑا جو کچھ دیکھتا ہے اس کا بیان کرتا چلا جاتا ہے یعنی واقعات کے ساتھ بیان کرنے والے کے تاثرات کا بھی اظہار ہو رہا ہے حال کے صیغے کے استعمال نے افسانے کی دلچسپی اور جاذبیت کو بڑھا دیا ہے۔

پرانے انسانوں کی طرح افسانے کے آغاز ہیں میں لمبی چوڑی تمہید کے بجائے ڈائرکٹ موضوع پر آجانا اور اسی وقت مختصر کرداروں کا تعارف اور ایک اہم واقعات کی طرف اشارہ کر دینا بھی ایک قسم کی تکنیک ہے۔

اس تکنیک میں بیدی کا افسانہ "چیچک کے داغ “ قابل ذکر ہے اس کے پہلے اور دوسرے پیراگراف میں پورے افسانے کا نچوڑ موجود ہے.

فلسفیانہ افکار

فلسفیانہ افکار کی آمیزش نے کہانی کے تاثر کو بڑھا دیا ہے ایک اور تکنیک ہے جس میں ماحول کا اثر کرداروں پر دکھایا جاتا ہے اس کی مثال ” گرہن” میں ملتی ہے۔

چاند گرہن کی فضا میں ہول کی داستان موثر پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ تکنیک کی ایک قسم Initiation یعنی بدایتی تکنیک ہے۔ مغرب کے افسانوی ادب میں اسے باقاعدہ صنف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اردو افسانے میں بھی کہیں کہیں اس کی جھلکیاں ملتی ہیں۔

اس ضمن میں بیدی کا افسانہ بھولا پیش کیا جاسکتا ہے جس میں ‏Initiation کے کچھ عناصر پائے جاتے ہیں یہاں بیدی نے بچے کی نفسیات کو کامیابی سے پیش کیا ہے۔

بیدی کے افسانوں کے موضوعات

چیخوف کی طرح بیدی کے افسانوں کے خصوصی موضوعات پس ماندہ اور اوسط طبقے کی زندگی میں رونما ہونے والے نشیب وفراز، بھوک سے بلکتے عوام ، ان کی محرومیاں، پریشانیاں اور رسم ورواج کی بندشیں ہیں علاوہ ازیں کرداروں کے باطن کی تلاش ، جنسی جذبات کی عکاسی ، مفلسی ، میں عظمت کا احساس اور نفسیات کی پیچیدگیاں وغیرہ جیسے موضوعات چیخوف کی طرح بیدی کے یہاں بھی گہری فکر کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔

بیدی کے ہاں جدیدیت

انسانی نفسیات اور جذبات پر چیخوف کی طرح بھی گہری نظر ہے چنانچہ کردار کو برتنے میں بھی اس کے گہرے نفسیاتی مشاہدے ، ٹھوس حقائق اور فنی شعور بڑی حد تک معاون ثابت ہوتے ہیں مثلاً لاجونتی اپنے دکھ مجھے دیدو وغیرہ۔

لا جونتی” کا موضوع فسادات کے بعد مغویہ عورتوں کی باز آباد کاری ہے اس میں چیخوف کی طرح ایک خاص قسم کا انکشاف لا جونتی کا نفسیاتی عمل ہے مثلا لا جونتی کی خواہش ہے کہ اس کا شوہر دیویکے بجائے ایک کمزور عورت سمجھے۔

اپنے دکھ مجھے دیدو کا بنیادی خیال عورت اور مرد کی آپسی کشش ہے چیخوف کی طرح اس کہانی میں بھی بیدی کا انکشاف یہ ہے کہ ایک بیوی جب اپنے شوہر کی تلاش میں جانے کے لئے خود کو طوائف کی طرح سجاتی ہے تو اس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے ۔

بقول باقر مہدی: اس کہانی کا سچائی افسانوی ہوتے ہوئے بھی حقیقت سے زیادہ کچی معلوم ہوتی ہے ۔

نشان خاطر رہے کہ موضوع اور فن و تکنیک دونوں کے اعتبار سے بیدی چیخوف سے زیادہ قریب ہیں اور دونوں میں بہت حد تک یکسانیت بھی ہے کیونکہ ان کا فن بھی اشارہ اور انکشاف کا فن ہے روز مرہ کے معمولی سے معمولی واقعات، عام جذبات و احساسات اور سیدھی سادی حقیقت کو نرمی، لطافت اور پاکیزگی سے پیش کرنے کا بیدی میں چیخوف کا سا سلیقہ ہے۔

(افسانہ وہ جو کھوئے گئے خلاصہ اور فنی و فکری جائزہ 01)

چیخوف کی طرح کی سیدھی سادی اور موثر حقیقت نگاری میں ہلکے ہلکے طنز و ظرافت کی آنچ بھی ہوتی ہے چیخوف کی طرح بیدی بھی اپنے افسانوں میں صاف و شفاف مگر مدھر و نشیلی فضا پیدا کر کے زندگی کا عکس دکھانا خوب جانتے ہیں۔

لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی اس جزئیات نگاری میں کھوتے اور الجھتے نہیں بلکہ اس راز کو پالیتے ہیں جس کو بیدی بیان کرنا چاہتے ہیں چیخوف کی طرح بیدی بھی الفاظ کے استعمال سے شعریت اور رنگ تغزل پیدا کرنا خوب جانتے ہیں ۔

بیدی نہ صرف چیخوف سے بلکہ گوگول سے بھی متاثر نظر آتے ہیں اس کی واضح مثال ان کا افسانہ "گرم کوٹ” ہے یہ افسانہ انہوں نے گوگول کے اوور کوٹ سے متاثر ہو کر لکھا ہے لیکن ممتاز شیریں اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں وہ لکھتی ہیں :

"اس افسانہ کے متعلق یہ افواہ پھیلائی گئی ہے کہ یہ گوگول کے اوور کوٹ کا چربہ ہے مجھے تو اس میں گوگول والی کوئی بات نظر نہ آئی ۔”

متعلقہ سوالات اور جوابات

بیدی پر کس بین الاقوامی افسانہ نگار کے اثرات زیادہ ہیں؟

روسی افسانہ نگار چیخوف

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں