دہلی میں اردو کا نظریہ

دہلی میں اردو کا نظریہ

دہلی میں اردو :اس نظریے کے حامی محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں، لیکن وہ اردو کی پیدائش کے حوالے سے پنجاب کو نظر انداز کر کے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ غالباً بقول ایک مصنف کے شاید یہ ہو کہ :

"دہلی اور لکھنو کے شاعر اور اہل علم لوگوں کی یہ ایک اہم ترین خصوصیت رہی ہے کہ انہوں نے اپنی زبان کے علاوہ کسی اور کی زبان کو کبھی بھی سند تسلیم نہیں کیا۔ اسی لئے دہلی اور لکھنو کے شعراء میں لسانی اختلافات اور عروضی مباحث جاری رہتے تھے۔

چنانچہ انہوں نے دکنی شعراء اور حتیٰ کہ نظیر اکبر آبادی جیسے قادر الکلام شاعر کو بھی درخود اعتنا نہ سمجھا تو وہ پنجاب کی اردو کو بھلا کیسے تسلیم کر سکتے تھے۔”اس کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت اردو زبان کی ترقی اور ارتقاء میں تو مانی جاسکتی ہے ابتداء اور آغاز میں ماننا مشکل ہے ۔

البتہ ان علاقوں کو اردو کے ارتقاء میں یقیناً ابتدا سے آج تک ایک نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ دہلی اور اس کے نواح کو اردو کی پیدائش کی جگہ قرار دینے والوں میں ڈاکٹر مسعود حسن خان اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نمایاں نام ہیں ۔ مسعود حسن خان کے الفاظ یہ ہیں:

"یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ ہندوستان کی جدید آریائی زبانوں کے طلوع کے وقت ہربانی اور پنجابی میں خط فاصل قائم کرنا دشوار تھا۔”

اس طرح انہوں نے ایک طرح سے پروفیسر چیٹرجی کی بات کی تائید کی، لیکن ہریانی اور کھڑی بولی کو اردو کا ماخذ ثابت کرنے کے لئے آپ نے ایک عجیب و غریب انداز اختیار کیا،ملاحظہ ہوں:

"البته شور سینی اپ بھرنش کی جانشین ہونے کی حیثیت سے پنجابی زبان کے مقابلے میں ہریانی اور کھڑی بولی کو زیادہ قدیم ماننا پڑے گا۔”

ڈاکٹر شوکت سبزواری اردو کو میرٹھ اور دہلی کے نواح کی زبان قرار دیتے ہیں اور اس کا رشتہ پالی سے قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اردو ہندی یا کھڑی بولی قدیم ویدک بولیوں سے ایک بولی ہے جو ترقی کرتے کرتے یا یوں کہیئے ادلتے بدلتے پاس پڑوس کی بولیوں کو کچھ دیتے اور ان سے کچھ لیتے اس حالت کو پہنچی جس میں آج ہم اسے دیکھتے ہیں۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ میرٹھ اور اس کے نواح میں بولی جاتی تھی۔ پالی اس کی ترقی یافتہ ادبی اور معیاری شکل ہے ۔ اردو اور پالی دونوں کا منبع ایک ہے۔”

یہاں ڈاکٹر صاحب کے بیانات میں خود اس قدر تضاد ہے کہ ان کے اس نظریے کو مظبوط نہیں بکہ کمزور بناتی ہے۔ مثلاً ان کے یہ الفاظ دیکھیں:

” یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اردو کی ابتداء کا مسلمانوں سے یا سرزمین ہند میں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام و استحکام سے کیا تعلق ہے” ۔ اور دوسی جگہ لکھتے ہیں۔ "اردو کا نشو ونما مسلمانوں کی سر پرستی اور ان کے زیر سایہ ہوا لیکن زبان خود مسلمانوں کی دیلی میں موجود تھی اور بازار ہات میں بولی جاتی تھی ۔“

پھر وہ خود اس معاملے میں عدم فیصلہ کا شکار دکھائی دیتے ہیں:

” اردو میرٹھ اور دہلی کی زبان ہے اس کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں” یہ وہ نظریات تھے جو اگر چہ متنازعہ ہیں تا ہم ان میں کچھ نہ کچھ وزن بھی ہے۔ ان کے علاوہ کچھ نظریات ایسے ہیں جو متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے پیش کنندگان فقدان تحقیق کا شکار تھے۔

اردو کی پیدائش کے حوالے سے میر امن کا نقطئہ نظر

جیسے میر امن کہتے ہیں:

"جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے سب اقوام قدردانی اور فیض رسانی اس خاندان لاثانی کی سن کر ان کے حضور میں آکر جمع ہوئیں، لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے اور آپس میں لین دین سودا سلف سوال جواب کرنے کے لئے ایک زبان اردو کی مقرر ہوئی۔”

اردو کی پیدائش سر سید احمد خان کی نظر میں

سرسید کا خیال یہ ہے :

"جب شہاب الدین شاہ جہاں بادشاہ ہوا اور اس نے انتظام سلطنت کا کیا اور سب ملکوں کے وکلاء کے حاضر رہنے کا حکم دیا اور دلی کو نئے سرے سے آباد کیا اور قلعہ بنایا اور شاہجہان آباداس کا نام رکھا۔ اس وقت شہر میں تمام ملکوں کے لوگوں کا مجمع ہوا۔ ہر ایک کی گفتار جدی تھی۔ ہر ایک کا رنگ ڈھنگ نرالا تھا۔ جب آپس میں معاملہ کرتے چار نا چار ایک لفظ اپنی کا دو لفظ اس کی زبان کے تین دوسرے کی زبان کے ملا کر بولتے اور سودا سلف لیتے ۔ رفتہ رفتہ اس زبان نے ایسی ترکیب پائی کہ یہ خود بخود ایک نئی زبان ہوگئی۔”

اردو کی پیدائش کے حوالے سے محمد حسین آزاد ا خیال

مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں:

"مسلمان بھی اب یہیں کی زبان کو اپنی زبان سمجھنے لگے تھے۔ اس زبان کو کس شوق اور محبت سے بولتے تھے۔ شاید یہ نسبت ہندوؤں کے فارسی عربی کے لفظ ان کی زبان پر آجاتے ہوں گئے اور جتنا یہاں رہنا سہنا اور استقلال زیادہ ہوتا گیا۔ اتنا ہی روز بروز فارسی ترکی نے ضعف اور یہاں کی زبان نے زور پکڑا ہوگا۔

رفتہ رفتہ شاہجہان کے زمانہ میں کہ اقبال تیموری کا آفتاب عین عروج پر تھا، شہر اور ہر پناہ تعمیر ہوکر نئی دلی دار الخلافہ ہوئی ۔ بادشاہ اور ارکان دولت زیادہ تر وہاں رہنے لگے اہل سیف اور اہل قلم اہل حرفہ اور تجار وغیرہ ملک ملک اور شہر شہر کے آدمی ایک جگہ جمع ہوئے ۔ ترکی میں اردو بازار لشکر کو کہتے ہیں۔ اردوئے شاہی اور دربار میں ملے جلے الفاظ زیادہ بولتے تھے۔ وہاں کی بولی کا نام اردو ہو گیا۔”

ان نظریات میں سے کوئی بھی نظریہ بھی اردو کی تشکیل و آغاز کے سلسلے میں خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ تاریخی اعتبار سے بھی ان میں ہمیں صداقت کا عنصر نہیں ملتا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں اردو کا نظریہ | حافظ محمود شیرانی

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں