دکن میں اردو کا نظریہ
نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب تاجر ہندوستان میں مالا بار کے ساحلوں پر تجارت کے لئے آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات یہاں کے لوگوں سے یقیناً ہوتے تھے۔ روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناً انہیں زبان کا مسئلہ بھی در پیش آتا ہوگا۔
اس میل ملاپ اور اختلاط وارتباط کی بنیاد پر مولانا نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ مرتب کیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک وسیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں ۔ ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
دکن میں عربوں کے تجارتی روابط زمانہ قدیم (یقیناً قبل از اسلام سے ) قائم تھے۔ مالا بار انہی عربوں کی نسل سے ہیں۔ عربوں کے اس تجارتی تعلق کو سماجی رابطے کی شکل قرار نہیں دیا جاسکتا جو کسی زبان کی وسیع پیمانے پرتبدیلی کے لئے ناگزیر ہے۔
اس محدود تجارتی رابطے سے کچھ الفاظ کالین دین تو ہوتا ہے لیکن زبان کا صرفی نحوی نظام اسے متاثر نہیں ہوتا۔ پھر یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ جنوبی ہند دراوڑی زبانوں کا مرکزہے اور عربی ایک سامی النسل زبان ہے جبکہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے ۔اس لیے دکن میں اردو کی ابتداء کا سوال خارج از بحث جاتا ہے۔ دکن میں اردو شمالی ہند سے خلجی اور تعلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سر پرستی میں اس میں شعروادب بھی تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاء سے ہے ابتدا سے نہیں۔”
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ جنوبی ہند یعنی (دکن) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے بھی یہاں مستقل طور پر قیام اختیا نہیں کیا بلکہ یہ لوگ بغرض تجارت آتے یہاں سے کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے طلوع اسلام اسلام کے ساتھ یہ عرب تاجر مال تجارت کی فروخت اور اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ البتہ تبلیغ بھی کرنے لگے۔
اس سے تعلقات میں گہرائی تو یقیناً پیدا ہوئی مگر یہ تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود نا گزیر ہو کر یگانگت کے مضبوط رشتوں کی استواری کا باعث بنتا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدا نہ ہو سکا جہاں زبانوں میں اجنبیت کم ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقام تعلقات لسانی سطح پر کسی بڑے انقلاب کی بنیاد نہ بن سکے۔
البتہ فکری سطح پر ان اثرات کے نتائج سے انکار نہیں کیونکہ بقول احتشام حسین اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آٹھویں صدی عیسوی میں بھگتی تحریک جنوبی ہند میں شروع ہوئی اور گیار ہوئیں اور بارہویں صدی عیسوی تک رامانند اور شنکر اچاریہ کے ہاتھوں میں پہنچ کر ہندو فلسفہ کی بنیاد بن گئی۔ اس میں اسلامی تصورات کے نقوش واثرات دکھائی دیتے ہیں ۔
تا ہم دکن میں جس اردو زبان کا ارتقاء ہوا وہ سواحل مالا بار پر بغرض تجارت آنے والے عربوں کے اثر سے نہیں بلکہ پنجاب اور دیلی کے راستے آنے والے مسلمانوں کے زیر اثر ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: اردو کے آغاز و ارتقاء کے حوالے سے محمد حسین آزاد کا نظریہ برج بھاشا
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں