دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ
موضوعات کی فہرست
دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ پس منظر
انجمن طلبائے قدیم دار العلوم ایجوکیشنل کانفرنس کی درخواست پر میر عثمان علی خان آصف سابع نے ریاست حیدرآباد کی تعلیمی ترقی کے لیے اگست 1917ء میں ایک ایسی یونیورسٹی قائم کرنے کا فرمان و جاری کیا تھا۔
جس کا ذریہ تعلیم اردو ہو جسے لوگ آج عثمانیہ یونیورسٹی کے نام سے جانتے ہیں
(دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کی ادبی خدمات از مجید بیدار صفحہ 20)
دار الترجمہ اسی یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ کی نصابی کتابوں کی اردو میں اشاعت کے لیے ستمبر 1917ء میں حیدر آباد میں قائم کیا گیا تھا۔
دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ سے سائنس، انجیئرنگ، میڈین، قانون اور علوم عمرانیات کی کتابیں انگریزی زبانو سے اردو میں ترجمہ کر کے شائع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
دار الترجمہ میں ترجمہ کی ہوئی سب سے پہلی کتاب 1919ء میں شائع ہوئی تھی ۔
دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں مترجمین 1917 سے 1950 تک کارگزار رہے تھے۔
دارالترجمہ کی آخری کتاب 1950ء میں ترجمہ کی گئی تھی جو 1981ء میں شائع ہوئی تھی اسی لیے دار الترجمہ کی ساری کارکردگی کو 33 سالہ خدمات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
دار الترجمہ کی عمارت میں آگ 18 اگست 1955ء میں گیی تھی جس کی وجہ سے اس کی اکثر کتابیں جل گئی تھیں۔
دار الترجمہ اور جامعہ عثمانیہ کے متعلق چند دیگر معلومات
جامع عثمانیہ کا قیام دار الترجمہ کے قیام کے بعد اکتوبر 1918ء میں عمل میں آیا تھا۔
دار الترجمہ سے وابستہ آخری ادیب پروفیسر محمد مجیب ہیں۔
پروفیسر حمد مجیب کی کتاب تاریخ تمدن ہند کو دار الترجمہ کی آخری اشاعت کا شرف حاصل ہے۔
دارالترجمہ کے نظما: مترجمین اور دیگر نمائندے:
دارالترجمہ میں تین قسم کے مترجمین تھے
(1) ہمہ وقتی مترجمین
(2) جز وقتی مترجمین
(3) وقتی مترجمین
دارالترجمہ کی 33 سالہ کار کردگی میں جن 7 لوگوں کا بطور ناظم تقرر ہوا تھا ان کے نام حسب ذیل ہیں:
(1) مولوی عبدالحق
(2) مولوی سید محی الدین (3) مولوی حمید احمد انصاری (4) مولوی محمد عنایت اللہ
(5) مولوی محمد الیاس برنی (6) ڈاکٹر نظام الدین
(7) ایشور نا تھے ٹو پا۔
دارالترجمہ سے وابستہ 129 مترجمین میں سے چند اہم کے نام حسب ذیل ہیں :
سید هاشمی فریاد آبادی
عبد الله عمادی
عبد الباری ندوی
خلیفہ عبد الحکیم
مرزا محمد ہادی رسوا
قاضی تلمذ حسین
سید علی رضا
ظفر علی خان
پروفیسر محمد مجیب
عبد الماجد دریا بادی
محمد عبد الرحمن
جوش ملیح آبادی
یوسف حسین خان
دارالترجمہ میں دو عہدے ناظر مذہبی اور ناظر ادبی کے نام سے تھے۔
ان ناظرین کا کام دارالترجمہ میں ترجمہ شدہ کتابوں کی مذہبی وادبی نقطہ نظر سے جانچ پڑتال کرنا تھا۔
دارالترجمہ میں ناظر مذہبی کی حیثیت سے پہلے مولوی حاجی صفی الدین اور بعد میں مولوی عبداللہ عمادی کا تقرر ہوا تھا۔
دارالترجمہ میں ناظر ادبی کے عہدے پر یکے بعد دیگرے نواب حیدر یار جنگ ، نظم طباطبائی اور جوش ملیح آبادی فائز ہوئے تھے۔
دارالترجمہ میں زبان کے نمائندے مولوی وحید الدین سلیم ، نواب حیدر یار جنگ، علی حیدر،نظم
طبا طبائی اور مرزا محمد ہادی رسوا تھے ۔
دارالترجمہ میں مذہبی امور کی نمائندگی کے لیے عبداللہ عمادی ، طبیعیات کی نمائندگی کے لیے محمد نصیر الدین عثمانی اور کیمیا کی نمائندگی کے لیے چودھری برکت علی اور محمود احمد خاں تھے۔
دارالترجمہ میں وضع اصطلاحات
کسی علم سے متعلق ایک زبان میں کوئی لفظ موجود ہو، دوسری زبان میں اس لفظ کے لیے نیا لفظ وضع کرنے کو اصطلاح وضع کرنا کہتے ہیں۔
اردو میں اصطلاحات وضع کرنے کے لیے سب سے پہلے مجلس وضع اصطلاحات دارالترجمہ حیدر آباد کے تحت قائم کی گئی تھی۔
دارالترجمہ کی وضع اصطلاحات کمیٹی کی پہلی مجلس 1918ء میں ہوئی تھی اور آخری مجلس 1946ء کو منعقد ہوئی تھی۔
دارالترجمہ کی وضع اصطلاحات کمیٹی کی ابتدائی مجلسوں میں وحید الدین سلیم، عبدالحق، مرزا رسوا، نظم طباطبائی ، مہدی خان کو کب اور حمید الدین وغیرہ شامل ہوئے تھے ۔
دارالترجمہ کی وضع اصطلاحات کمیٹی کی آخری مجلس میں ڈاکٹر نظام الدین ناظ دارالترجمہ، مولوی عبداللہ عماری ناظر مذہبی، ڈاکٹر محی الدین قادری زور، حاجی غلام محمد، عاقل علی خان، محمد نصیر احمد عثمانی اور اشفاق حسین وغیرہ شامل تھے۔
دار الترجمہ کی مجلس وضع اصطلاحات کے ذریعہ انجینئرنگ، میڈیسن، قانون، سائنس اور علوم عمرانیات کی تقریبا 191,000 اصطلاحات اردو میں تیار کی گئی تھیں ۔
مزید یہ بھی پڑھیں: دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کی ادبی خدمات از مجید بیدار | pdf
بشکریہ ضیائے اردو نوٹس ص 824