” سارے نابالغ ایک سائیڈ پر ہو جائیں اور کان پکڑ لیں!”
یہ فقرہ ہم سب کے لیے عجیب تھا، ہمیں بلوغت کی دیواریں عبور کیے مدت ہو چکی تھی۔لہذا ہم سامنے کھڑے ڈشکرے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ ڈشکرے نے شیطانی قہقہہ لگایا اور کہا "جس جس نے ‘ جھوٹے روپ کے درشن ‘ پڑھی ہوئی ہے وہ بالغ ہے اور جو اس سے محروم ہے وہ نابالغ ہے، لہذا جلدی فیصلہ کرو تم میں نابالغ کون ہے اور بالغ کون؟ "
ہم سب بلوغت کے اس ٹیسٹ سے ناواقف تھے چنانچہ ہم سب نے چپ چاپ کان پکڑ لیے ۔۔۔۔ "
” جھوٹے روپ کے درشن "
از راجہ انور 🍁
جسے محبت کی سچی داستان کہنا حق بجانب💯 ہے ۔۔۔
~مجھے جو روک رہے ہو تم اس کی پوجا سے
اسے ہی کہہ نہیں دیتے کہ دیوتا نہ لگے
بیدل حیدری 🍀
یہ کتاب ان چند خطوط کا مجموعہ ہے جو راجہ صااااحب کی طرف سے "دیوی جی🍀” کو لکھے گئے ۔۔۔
اس کے مناظر
یونیورسٹی کے کلاس رومز تو بہت کم ہی ہاں مگر کینٹین، ہاسٹل، فلم تھیٹر، اور زیادہ تر خیالات رہے ۔۔۔
سیاست میں دلچسپی رکھنے والے راجہ صاحب جب آخری خطوط میں اپنے رزلٹ کے بارے میں بتاتے(فرسٹ ڈویژن کی شرط رکھی ہوتی ہے ) ہیں ۔۔
” کہ میں نے فرسٹ ڈویژن ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے "
اس وقت محبت کی شدت کا اصل اندازہ ہوتا ہے کہ ایک انسان محبت میں کس حد تک جا سکتا ہے ۔۔۔
مگر تقدیر میں کچھ اور لکھا جا چکا تھا 😴
~زمیں سے بات چلی تھی، فلک پہ ختم ہوئی 😴
○ کئی رقیب راجہ انور کے خلاف محاذ آرائیاں کر رہے ہوتے ہیں ۔۔ جن میں خرم ، کنول کا کزن،دولت ، بنگلہ ، گاڑی اور سب سے بڑھ کر اپنی اوقات، جس کا ذکر کرتے وہ لکھتے ہیں کہ "نہ میں اپنی مفلسی کی قبا اتار سکا اور نہ تم عرش سے زمیں پر آئی "
~ فرض ہونے نہ دی زکوت کبھی
مفلسی تجھ پہ ناز کرتا ہوں
۔۔۔ بیدل حیدری
ایک سفر جو ” محترمہ ” سے شروع ہو کر ” بیگم صاحبہ ” پر ختم ہوا۔۔
اور یہاں
بے اختیار آپ کا دل پکار اٹھے گا ۔۔۔۔
محبت ایسی عبادت کسک پہ ختم ہوئی
شروع حق سے ہوئی اور شک پہ ختم ہوئی
وہ خامشی جو کسی اور خامشی میں ڈھلی
کوئی سڑک تھی جو اگلی سڑک پہ ختم ہوئی
شاہد ذکی 🍀
راستے میں کئی پڑاو ( لڑکی، دیوی جی ، رانی، جان جی، کنول، میری زندگی،دیوی رانی، ۔۔۔ ) آئے
کچھ راستہ( راجہ صاحب ۔۔۔۔ )صنف نازک کی طرف سے بھی طے کیا گیا ہے ۔۔۔
ہر خط کا اختتامیہ ” تمہارا اپنا، فقط تمہارا، پیار ۔۔۔۔۔ وغیرہ ” جیسے الفاظ پر مشتمل رہا ۔۔۔
مگر افسوس کہ راستہ ختم ہوا ۔۔۔۔ منزل نہ ملی
~چلنے کاحوصلہ نہیں، رکنا محال کر دیا (پروین شاکر 🍁)
○ چند ایک اقتباسات ۔۔۔۔
"اپنی سوسائٹی ان باتوں پر شرمندہ ہو جاتی ہے جن پر نہیں ہونا چاہیے لیکن ان باتوں پر قطعا شرمندہ نہیں ہوتی جن پر اسے شرمندہ ہونا چاہیے
مثلا ” عورت اور مرد کا ملاپ، فطری حقیقت ہے،اور اس حقیقت سے شرمانا غیر فطری رویہ ہے۔
لیکن رشوت، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی
اور دولت کے انبار بغیر شرمائے ہی اکٹھے کیے جاتے ہیں
ان برائیوں پر کوئی شرمندہ نہیں ہوتا ۔۔۔”
۔۔۔ "لوگ تو پاگل ہیں، جو سمجھتے ہیں، موت کا کوئی وقت معین ہے اور انسان کسی خاص دن کسی خاص لمحے مرتا ہے۔ انہیں کوئی سمجھاۓ کہ بے چارہ انسان تو زندگی بھر مرتا رہتا ہے۔ جسے دنیا موت سمجھے بیٹھی ہے وہ تو ایک ایسا مقام، جہاں انسان مرنا بند کر دیتا ہے۔ جہاں موت کو بھی موت آجاتی ہے۔ لوگ موت کے مرنے کا سوگ مناتے ہیں۔ مگر زندگی کے مرنے پر کوئی نوحہ نہیں پڑھتے۔ ہیں نا دیوانے!!!!۔۔۔۔ "
"یاد ہے کبھی تم نے کہا تھا "میری شادی آپ سے ہو گی، ورنہ میں دنیا بھر کے سامنے آپ سے ملتی رہا کروں گی – خاوند نے اگر روکا تو اسے چھوڑ کر آپ کے پاس آ جاؤں گی۔” تم نے اپنے گفٹ پر یہ عبارت لکھ بھیجی تھی ” اس کے لیے جسے میں عمر بھر بھلا نہ سکوں گی” لیکن صرف پندرہ دن بعد تم سب بھلا چکیں تھیں۔ تم بڑے لوگوں کی بڑی باتیں !!! داد دینا پڑتی ہے۔
میں نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ عورت اپنی پوری گہرائی سے پیار کرتی ہے۔ اس کا پیار سمندر کی طرح پر سکون اور کائنات کی مانند وسیع ہوتا ہے، جب کہ مرد کا پیار ناہموار، ریزہ ریزہ اور تند و تیز طوفان کی طرح ابھرتا ڈوبتا رہتا ہے۔ اتنی غلط بات جانے کس نے لکھی ہے۔ مجھے دیکھو میں مرد ہوں۔ جب تک تم میرے ساتھ تھیں،
میرے ذہن میں کوئی عورت انگڑائی نہ لے پائی۔ تم عورت ہو لیکن تمہارے ذہن سے کار اور بنگلہ باہر نہ جا سکا۔ میں اپنی مفلسی کی قبا اتار نہ سکا اور نہ تم عرش سے زمیں پر آ پائیں۔ میں اپنے اندر کے انسان کو قتل کر سکا، نہ تم اسے زندہ قبول کرنے پر تیار ہوئیں۔
میں نے تمہیں زندگی سمجھا اور تم نے دولت کو۔ غلط قصے ہیں کہ محبت ہر دیوار کو گرا دیتی ہے۔ لوگوں کو بتاؤ کہ محبت کے سوا ہر شے جائز ہے اور انسان کے سوا ہر چیز مہنگی۔ جب تک بڑائی زندہ ہے انسان مرتا رہے گا۔ ورنہ اس ساری دنیا کی دولت میرے ایک سجدے کی قیمت سے بھی کم تھی۔۔۔لیکن تم نے مجھے میرے سجدوں سمیت کار تلے روند دیا۔
ہم بے بس لوگوں کی زندگی بہت کڑوی ہوتی ہے۔ دکھوں کے زہر سے ہمیں موت نہیں آیا کرتی۔ تم نے مجھے زہر پلایا ہے نا، بھلا یہ بھی کوئی ایسی بات تھی کہ تم شرمندہ ہوتی پھرو؟ یہ تمہاری اپنی لاش ہے اسے پہچانو، یہ تم ہو، تمہارے اندر کا مرا ہوا انسان ہے، جس کی لاش سے تمہیں خوف آتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہی تم راتوں کو کانپ اٹھتی ہو، لیکن گھبراؤ نہیں آہستہ آہستہ عادی ہو جاؤ گی۔۔۔۔۔ "
"یہ کتاب پڑھنے کے بعد کوئی غریب کسی امیر سے داستان محبت نہیں چھیڑے گا۔ پھر کوئی مفلس تم امیروں کے سحر میں گرفتار نہیں ہوگا۔ پھر کوئی جھونپڑوں کا مکیں، محلات سے رشتہ وفا نہ باندھے گا۔ کسی جال میں نہ آئے گا۔ اسطرح جانے کتنوں کا بھلا ہوگا”
اور پھر جب آخر میں جب "بیگم صاحبہ " کے نام سے خط میں راجہ صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ تم نے کہا تھا کہ تم ان خطوں کو شائع کروا دینا ۔۔۔۔ آج کے دن ہی ہم تم بچھڑے تھے اور آج ہی تمہاری شادی ہے ۔۔۔ کیسا عجیب اتفاق ہے نااااا
اور اس موقع میرے پاس ان خطوں کے سوا کچھ بھی نہیں (جب تم ہی نہیں)
میں نے یہ کتاب چھپوا کر تمہیں امر کر دیا ہے ۔ اب تم اپنی سہیلوں کو اترا اترا کر بتا سکو گی کہ مجھ پر کتاب لکھی گئی ہے ۔۔
اور اسی کتاب کو لے کر تم اپنے خاوند پر راج کر سکو گی کہ دیکھو میں نے تمہارے لیے کتنے محبت کرنے والے لوگوں کے دل توڑے ۔۔۔۔🍁🍁🍁
میں نے یہ کتاب شائع کروا کر کچھ حساب تو چکتا کر دیا ہے ۔
باقی حساب ہماری نسلیں آگے طے کر لینگی ۔۔۔
~گھٹا دھوئیں سے اٹھی اور دھنک پہ ختم ہوئی ۔۔۔۔
ہائےےےےے راجہ انور ۔۔۔۔
اس کتاب کا خاتمہ میرے لیے تکلیف دہ تھا ۔۔۔
دل کہہ رہا تھا کاااش یہ کتاب ختم نہ ہو ۔۔۔۔
چلو ” جھوٹے روپ کے درشن ” ختم ہوئی تو اب چلتے ہیں ” قبر کی آغوش ” میں
مگر راجہ صااااحب ہم آپ کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں ۔۔۔
ایک راز کی بات بتاوں ” کسی کو تحفتا دینے کے لیے اس سے اچھی کوئی کتاب نہیں 😁”
ہاں تو پھر آپ بتائیے کہ آپ بالغ ہیں یا نابالغ ۔۔۔۔ ؟؟؟؟
نابالغ ہیں تو جلدی سے کان پکڑ لیجیئے ۔۔۔
شاااااابآااااااش
سانول رمضان
25 جولائی 2024 ء
Fb account:-
M Sanwal Ramzan
سانول رمضان مزید تحریریں : مجموعہ اددھ کھلا دریچہ انتخاب از سانول رمضان
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں