تعارف ڈاکٹر شاہد رضوان
ابھی مبہم ہیں خدوخال مرے کوزہ گر
کوئی دن اور مجھے چاک پہ رکھا جائے
شاہد رضوان
معروف شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار،انشائیہ نگار اور خاکہ نگار _ ڈاکٹر شاہد رضوان
نام شاہد رضوان اور تخلص ” شاہد "
15 فروری 1975ء تحصیل چیچاوطنی(ضلع ساہیوال، پنجاب، پاکستان) کے نواحی گاوں (36/14۔ایل) کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔
ان کے والد کا نام ” چودھری ہدایت اللہ ” اور والدہ کا نام ” عزیزہ بی بی ” ہے۔
■تعلیم
ابتدائی تعلیم (36/14۔ایل ) اپنے گاوں ہی سے حاصل کی۔
میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول (82/12۔ ایل ) سے اور” ایف اے "- ” بی اے ” گورنمنٹ ڈگری کالج میانچنوں سے کیا ۔۔
” ایم -اے ” – ” ایم فل ” اور ” پی ایچ ڈی ” کے لیے بہاالدین زکریا یونیورسٹی۔ملتان کا رخ کیا ۔
ایم فل میں ” اردو افسانے کے کم سن کردار ” ،، (خصوصی مطالعہ، منشی پریم چند، غلام عباس، راجندر سنگھ بیدی ، سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی ) کے عنوان سے اور "پی ایچ ڈی ” میں ” ۔۔۔۔۔”اردو ادب میں ریل کی استعاراتی جہتیں "۔۔۔۔ کے عنوان سے مقالہ لکھا ۔
2002ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج چیچاوطنی میں لیکچرار "اردو ” منتخب ہوئے اور پھر ترقی کرتے ہوئے ” اسسٹنٹ پروفیسر ” کے عہدے پر فائز ہوئے ۔۔
■ادبی خدمات
2015 ء میں سر زمین چیچاوطنی میں ” حلقہ ارباب ذوق چیچاوطنی ” جیسی تخلیقی حلقے کا بیج بویا۔ جو ان کی محنت کے بل بوتے پر کافی ثمردار ثابت ہوا۔ اور تاحال ادب کی خدمت میں پیش پیش ہے۔
آپ کے شاگردوں کا حلقہ بھی کافی وسیع ہے ۔
انہوں نے مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائئ کی۔ جن میں ” ناول، افسانہ ، انشائیہ، خاکہ نگاری اور شاعری ” شامل ہیں ۔
■ تصانیف :-
1۔ ” شوق ناتمام ” (شاعری ۔۔۔2001)
2۔ ” پتھر کی عورت” (افسانے ۔۔ 2010)
3۔ ” پہلا آدمی "( افسانے ۔۔۔ 2013)
4۔ ” آوازیں ” ( افسانے ۔۔۔ 2015 )
5 ۔ ” گنجی بار” ( ناول ۔۔۔پہلی اشاعت2020۔۔۔،دوسری اشاعت 2021 ۔۔۔، تیسری اشاعت_2023(میٹر لنک لکھنو،بھارت))
6 ۔ ” ادھوری کہانی کی تصویر ” ( افسانے ۔۔۔ 2021)
7۔ ” ایک حرف کہ جیم کہیں جسے ” ( انشائیے ۔۔۔2022)
8۔ ” چاند پور ” ( ناول ۔۔۔ 2023)
9۔ ” ساندل بار ” ( ناول ۔۔۔ 2023)
یہ بھی پڑھیں: انتخاب ڈاکٹر شاہد رضوان، کتاب ہوا کا عکس از سانول رمضان
10۔ ” ہوا کا عکس ” ( شاعری ۔۔۔ 2024)
سانول رمضان
■ ڈاکٹر شاہد رضوان کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ پر ناقدین کی رائے مندرجہ ذیل ہے :-
” شاہد کا افسانہ پڑھنے والے کو کتنی مضبوطی سے گرفت میں لیتا ہےاس بات کا اندازہ آپ کو اس کے افسانے پڑھ کر ہو جائے گا۔ شاہد کو منظر کشی اور جزیات نگاری پر بھی عبور حاصل ہے۔ شاہد اگر اسی طرح لکھتے رہے تو میں توقع کر سکتی ہوں کہ بہت جلد ان کا شمار بڑے اہم ادیبوں میں ہونے لگے گا بلکہ میں نے تو ان کو ابھی سے اہم ادیبوں میں شمار کرنا شروع کر دیا ہے ۔”
__ بانو قدسیہ
کہانی کہنے، سننے اور بننے کا فن کبھی نہیں مر سکتا؛ جب تک شاہد رضوان جیسے کہانی سے وابستہ انوکھے مستانے موجود ہیں۔ اس کی کہانی کے کردار، کرداروں کا ماحول، ماحول کی تلخیاں، تلخیوں کی سچائیاں اور ان میں بھرے دکھ ۔۔۔ کہانی پڑھنے والے کی کھال اذیت سے ادھیڑ کے رکھ دیتا ہے، بوٹی بوٹی کر دیتا ہے۔
_ ابدال بیلا
” ایک اچھے افسانے کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ پہلے ہی جملے ہی سے قاری اس کی گرفت میں آ جاتا ہے اور اختتام تک اس کے سحر سے نکل نہیں پاتا۔ شاہد رضوان کے اکثر افسانوں میں یہ خوبی موجود ہے اور اس کا سہرا کہانی پر ان کی گرفت اور رواں دواں اسلوب کے سر ہے ۔”
_ ڈاکٹر رشید امجد
” شاہد رضوان کے اکثر افسانے بڑے فطری انداز میں آگے بڑھتے ہیں۔ وہ قاری کو ساتھ بہا لے جانے پر قادر نظر آتا ہے ۔”
__ اے خیام
” کہانی کہنے کا فن افسانہ کہلاتا ہے اور افسانہ شاہد رضوان کے وجود میں سانس لیتا ہے۔”
_ اجمل اعجاز
” ادھوری کہانی کی تصویر ” کے کردار صداقت سے معمور لمحوں کی تلاش میں اپنے مصنف کے ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں اور حقیقت یہ کہ ابتدائیے کی ان سطور کو رقم کرتے ہوئے میں خود کو بھی شاہد رضوان کا ایک کردار ہی محسوس کر رہا ہوں۔
_ ڈاکٹر طارق ہاشمی، فیصل آباد
شاہد رضوان عمدہ نثر لکھتے ہیں اور انہیں اردو زبان پر عبور حاصل ہے؛ وہ اردو سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا ناول ” گنجی بار ” جو پنجاب کی رہتل سے تعلق رکھتا تھا؛ پنجابی کے بجائے اردو میں لکھا؛ اور پنجابی الفاظ کو اس میں اس انداز سے سمویا کہ وہ اردو کے ہی معلوم پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اسے ان کا کمال کہا جا سکتا ہے ۔
_ شاہد شیدائی ، لاہور
” شاہد رضوان کے افسانے گونگے بہرے نہیں ہیں۔ اس کے افسانوں کے کردار مٹی مادھو بھی نہیں ہیں کہ سر نہواڑے اونگھ رہے ہوں، بلکہ ان میں زندگی کی بھرپور حرارت ہے۔ وہ اپنے قاری سے گفت و شنید کرتے، اپنے دکھ سکھ بانٹتے زندہ کردار ہیں۔ اگر ان کرداروں کو نظر انداز کر کے ان کے پاس سے” کنی کترا ” کے گزرا جائے تو ان کی ” آوازیں ” پیچھا کرتی ہیں۔ "
__ محمد حامد سراج
” شاہد رضوان افسانے سے جڑا ہوا ایسا افسانہ نگار ہےجس کے ہاں استعاراتی اور نیم علامتی کیفیات بھی ٹھوس ماحول میں سیال کی صورت بہتی نظر آتی ہیں۔۔۔۔۔ اس مجموعے کے انتساب ہی سے اس کی راہوں کی شد بد ہو جاتی ہے۔ منٹو جیسے عظیم افسانہ نگار کا پیرو کہانی کے اندرونی نظم وضبط سے بے خبر کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور پھر شاعر ہقنے کے ناطے وہ لفظ کے استعمال اور اس کی موسیقانہ لہروں سے کیوں کر کام نہیں لے سکتا ؟ یہ دونوں خوبیاں اس کی کہانی میں موجود ہیں ۔۔ "
_ ڈاکٹر رشید امجد
” نئی غزل میں معدودے چند شاعر ایسے ہیں جو اپنے تخلیقی فن کے بے آباد راستوں پر ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں۔ان کے قدموں کی چاپ سے جس طرح یہ راستے آباد ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس صنف کے امکانات کتنے روشن ہیں ۔ بے ہنگم آوازوں کے ہجوم میں راست گفتار تخلیقی رویوں کے امانت دار جو اپنے چراغوں سے اردو کے ثروت مند روشن کیے ہوئے ہیں ، بہت کم ہیں۔شاہد کی غزلوں کا ایک واضح رخ مستقبل کی اردو غزل کی طرف ہے جو ایک مبارک شگون ہے "
_ ڈاکٹر ریاض مجید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
● نمونہ کلام ۔۔۔
ہمارا ان سے تعلق تھا پٹڑیوں ایسا
کہ ایک ساتھ چلے، اور دور دور رہے
یہ اور بات کہ شیشم کی چھال سوکھ گئی
جو اس پہ نام کھدے تھے، ہرے کچور رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا کا عکس بھی ٹھہرا ہوا ہے
پرندہ شاخ پر سہما ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
قریب اتنے زیادہ تو ہم نہ آئے تھے
وہ ہم سے ہنس کے ملا، اور بات پھیل گئی
۔۔۔۔۔۔
تل کو محافظ اس نے کیا نازنین کا
کافر کو اس نے سونپ دیا کام دین کا
میری بلا سے جا کے رہے جس کسی کے پاس
میں نے تو بوجھ ہلکا کیا آستین کا
۔۔۔۔۔
اگر زاغ و زغن کے ہاتھ دو گے نظم گلشن
مقدر میں لکھی جائیں گی پھر ویرانیاں بھی
۔۔۔۔۔
ابھی چپ ہیں تو چپ رہنے دے، ورنہ
ہمیں شکوے بہت ہیں قافلے سے
۔۔۔۔۔
مراسم اتنے تو رکھوں کہ ہم کلام رہے
نباہ ہو نہ ہو لیکن دعا سلام رہے
یہ فرض تو نہیں اک ساتھ ہی رہیں ہم تم
مگر یہ شرط ہے آپس میں احترام رہے
۔۔۔۔۔
میں مکمل نہ ہو سکا تا عمر
حیف اس شوق ناتمام کا دکھ
۔۔۔۔۔
جانا تو جلد لوٹ کے آنا مرے عزیز !
تیرے بغیر رہنے کی عادت نہیں مجھے
۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں دبایا بھی تو دل سے نکل آیا
یہ سانپ دوبارہ کہیں بل سے نکل آیا
صد شکر، کہ ٹپکا تو سہی آنکھ سے آنسو
گرداب لہو، قبضہ دل سے نکل آیا
۔۔۔۔۔
جب بھروسہ شہ لولاک پہ رکھا جائے
شرط ہے، دھیان بھی افلاک پہ رکھا جائے
ابھی مبہم ہیں خدوخال مرے کوزہ گر
کوئی دن اور مجھے چاک پہ رکھا جائے
شہر بہہ جائے گا سیلاب کی زد میں آ کر
ضبط کچھ دیدہ نمناک پہ رکھا جائے
دے کے فردوس کا لالچ نہ بلا اپنی طرف
خاک ہوں میں تو مجھے خاک پہ رکھا جائے
۔۔۔۔۔۔۔
وہ کہانی سے مرا نام بدل کر اکثر
اپنے بچوں کو سناتی ہے پہیلی چپ چاپ
۔۔۔۔۔۔
بھٹک رہی ہیں تعاقب میں تتلیاں اس کے
نجانے گل سے نکل کر کدھر گئی؟ خوشبو
۔۔۔۔۔۔۔۔
اک زلیخا پہ ہی موقوف نہیں حسن نظر
گہر آئے تو خریدار نظر آتا ہے
۔۔۔۔۔۔
میں اس لیے تو ملاتا نہیں ہوں ہاتھ اس سے
تمام شہر ہی رکھتا ہے التفات اس سے
وہ تاجدار ہے اقلیم حسن کا شاہد
ہمارے حصے کی دلوائیے زکات اس سے
۔۔۔۔۔۔۔
ہچکی جو مرد حق نے سردار کھینچ لی
ایں! مفتیان شہر کی دستار کھینچ لی
واعظ سے صرف اتنا کہا بات حق کہو
جاہل نے اتنی بات پہ تلوار کھینچ لی
ماں باپ کا اثاثہ فقط اک مکان تھا
بھائی نے درمیان سے دیوار کھینچ لی
۔۔۔۔۔۔۔
دل کبوتر پڑوس کی چھت سے
پھر مرے نام کی خبر لایا
۔۔۔۔۔۔۔
اس عمر کے اخیر میں جچتا نہیں ہے عشق
بچپن میں سب کے ہوتے ہیں جذبات مختلف
پھر سوچتے پھرو گے مرے ساتھ کیا ہوا
جس دن دکھایا ہم نے ذرا ہاتھ مختلف
۔۔۔۔۔۔۔
کسے مجال، نبوت کا مدعی ٹھہرے
یہ کار ختم نبوت کا فیصلہ ہے اٹل
۔۔۔۔۔۔۔
زندوں کے منہ پہ کوئی یہاں تھوکتا نہیں
بعد از وفات پھول بھی پڑھتے ہیں منقبت
۔۔۔۔۔۔۔
رئیس شہر بضد تھا قصیدہ سننے پر
سو میں نے رکھ لیا اپنی زباں پہ انگارا
۔۔۔۔۔۔۔
اس نے پھینکا تھا دریچے سے لفافے میں دل
ہم کھڑے تھے کہ کسی غیر کا بازو ٹپکا
۔۔۔۔۔۔۔
شب کا سفر تمام ہوا ، بجھ گئے چراغ
دہلیز پر نگاہ دھری کی دھری رہی
۔۔۔۔۔۔۔
مہربانین ہے جو تم پوچھ لیا کرتے ہو
ورنہ اوقات نہیں کچھ بھی مری ہستی کی
۔۔۔۔۔۔
ہزار بار اسے بھولنے کی کوشش کی
ہزار بار دعا میں اسے پکارا بھی
۔۔۔۔۔۔
جب روٹھتا کسی سے تو آتا تھا میرے پاس
وہ شخص مجھ سے روٹھ کے جانے کدھر گیا
۔۔۔۔۔۔
کیا اور بھی ہے، کوئی ترا چاہنے والا
اک اور بھی چہرہ٬ترے تل سے نکل آیا
۔۔۔۔۔۔
وقت نے ڈال دیا طوق بغلامی گلے میں
اب مسلمان کو رغبت نہیں شمشیر کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔
ایک بار اس نے ہنس کے دیکھا ٬پھر
عمر بھر ہم مغالطے میں رہے
۔۔۔۔۔۔
چومتے تھے کہ مٹا دیں ترے رخسار کا تل
یہ تو پہلے سے ہے کچھ اور نمایاں اب بھی
۔۔۔۔۔۔
کچھ اس طرح سے سلگتی رہیں تری یادیں
مرے مکان سے اٹھتا رہا دھواں شب بھر
۔۔۔۔۔۔۔
تری تصویر کمرے میں لگا کر
بہت دھوکے دیےہیں میں نے دل کو
۔۔۔۔۔۔۔
اشکوں کی روشنائی اگر خشک ہو گئی
خون جگر میں ہم نے قلم کو ڈبو لیا
بکھرا ہوا تھا حال کتاب حیات کا
ماضی کے تارو پود سے قصہ پرو لیا
مصروفیت سے کار جہاں کے ہجوم میں
ہم نے تمہاری یاد سے بھی ہاتھ دھو لیا
۔۔۔۔۔۔
عدو کے دل کی مراد آج بر نہ آئی ہو
ہرے ہوئے ہیں جو سینے کے داغ، خیر نہیں
یہ بات میری سمجھ میں نہ آئے گی ساقی !
تو مفت بانٹ رہا ہے ایاغ، خیر نہیں
۔۔۔۔۔۔
شاہد! وہ لوگ خاک میں مل کے ہوئے ہیں خاک
مکھی جو بیٹھنے نہیں دیتے تھے ناک پر
۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو میں خود سے خفا رہتا ہوں
کوئی در پردہ کمی ہے مجھ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح دم جاتا ہے بازار میں بکنے مزدور
شام ہوتی ہے تو لوٹ آتا ہے گھر خالی ہاتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ سے شاہوں کے قصیدے نہیں لکھے جاتے
میرے ہاتھوں میں بغاوت کا قلم ہے جاناں
۔۔۔۔۔۔۔
تجھے بدنام کرنا ہی نہیں منظور ورنہ
ترے دو چار خط تو آج بھی بستے میں ہونگے
۔۔۔۔۔۔
زہر کو شہد بنانے کا ہنر اس پر ختم
نرم لہجہ ہے مگر اس کی طبیعت اخروٹ
۔۔۔۔۔۔
اک شخص تری بستی سے جب کوچ کرے گا
ہو جائیں گے ویران ترے شہر کے فٹ پاتھ
۔۔۔۔۔۔
جب بدلتا ہے سیاست کی ہواوں کا رخ
اختیار اور ہی کرتا ہے وفاؤں کا رخ
مطلبی لوگ بناتے ہیں اسے سجدہ گاہ
جس طرف ہوتا ہے دنیا کے خداوں کا رخ
عزم لے اڑتا ہے منزل کی طرف پنچھی کو
جس قدر چاہے مخالف ہو ہواوں کا رخ
وقت حالات بدلتے نہیں لگتا شاہد
ہو اگر اپنی طرف ماں کی دعاؤں کا رخ
۔۔۔۔۔۔
خوف خدا، رسوم عبادت۔ کسی کی یاد
میری اکیلی جان، مسائل ہے ان گنت
ڈالی سے پھول نوچ کے کتبے پہ رکھ دیے
گردن کٹا کے بھی نہ گئی فکر عاقبت
مکتوب ان کے نام لکھا حرف حرف سرخ
بہتر کہاں تھی اس سے مرے خون کی کھپت
میں ننگے پاؤں ابر کے سائے میں چل دیا
بادل چھٹے تو دھوپ مجھے دینے آئی مت
۔۔۔۔۔۔
بھٹک رہی ہیں تعاقب میں تتلیاں اس کے
نجانے گل سے نکل کر کدھر گئی؟ خوشبو
۔۔۔۔۔۔۔۔
اک زلیخا پہ ہی موقوف نہیں حسن نظر
گہر آئے تو خریدار نظر آتا ہے
۔۔۔۔۔
قریب اتنے زیادہ تو ہم نہ آے تھے
وہ ہم سے ہنس کے ملا اور بات پھیل گئی
ابھی ملے ہی کہاں تھے بچھڑ گئے شاہد
طلوع صبح سے پہلے ہی رات پھیل گئی
۔۔۔۔۔۔
وصل شب آئی وعدہء فردا لپٹ گیا
آنکھوں سے انتظار کا سودا لپٹ گیا
یہ قرب تھا کہ خود سے بچھڑنے کا زعم تھا
مرنے چلے تو ہم سے مسیحا لپٹ گیا
جاتے ہوے جب اس پہ پڑی آخری نظر
مجھ سے مرے مکان کا ملبہ لپٹ گیا
سر پر سوار ہو گیا اتنا غبار شوق
جتنا اسے بدن سے اتارا لپٹ گیا
۔۔۔۔۔۔
جب در و دیوار پر شہنائیاں غم کی بجیں
بے کسی کے بازوں میں چوڑیاں رونے لگیں
ایک دن مزدور کی بیوی نے شوہر سے کہا
روشنی لا تیرگی میں بچیاں رونے لگیں
۔۔۔۔۔
اشکوں کو دیکھ کر مرے دریا سمٹ گیا
وحشت کو دیکھ کر مری صحرا سمٹ گیا
اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا جاری ہے سلسلہ
جیسے مرے وجود کا ملبہ سمٹ گیا
شاہد نکل کے جاے کہاں روح جسم سے
چاروں طرف سے جب مرا رستہ سمٹ گیا
۔۔۔۔۔
خود سے باہر نفس نہیں جاتا
چھوڑ کر کیوں قفس نہیں جاتا
مر تو جاتا ہے آدمی لیکن
پھر بھی شوق ہوس نہیں جاتا
۔۔۔۔۔
کس طرح بھولے گا مجھ کو وہ زمانہ شوق کا
تیرے شانوں سے لپٹنا گیسوؤں سے کھیلنا
سلسلہ رونے کا گر یونہی رہا تو ایک دن
آنکھ کو مہنگا پڑے گا آنسوؤں سے کھیلنا
۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: انتخاب ڈاکٹر شاہد رضوان، کتاب ہوا کا عکس از سانول رمضان
انتخاب وپیشکش:- سانول رمضان
FB account:- M Sanwal Ramzan