بانو قدسیہ کے ناولٹ ایک دن کا تنقیدی جائزہ
ناولٹ ایک دن :ناول ایک دن ۱۹۹۵ء کی تحریر کردہ تخلیق ہے، جو ۱۰۸ صفحات پر مشتمل ہے، یہ ناول ” ” شہرے بے مثال اور ناول راجہ گدھ سے مختصر ہے جس کی بنا پر اسے ناولٹ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک اس قصے کا تعلق ہے تو اس قصے کا جائے وقوع بھی پاکستان ہے اس ناولٹ کا آغاز حیدر آباد کے سٹیشن پرکی ہوئی ٹرین سے ہوتا ہے اور اس ٹرین سے وہ خوش رنگ صراحیاں صاف نظر آرہی تھیں جن کو خریدنے کی تمنا معظم جس سے مردوں میں مرکزی کردار کی حیثیت حاصل ہوتی ہیں ۔
بڑی عجیب بات ہے کہ انسان کا دل کبھی کوئی ایسی چیز مول لینا چاہتا ہے جو اسے پسند آئے لیکن افسوس اس مادی دنیا میں کچھ حاصل کرنے کے لیے آرزو کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ پیسہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور یہی واقعہ معظم کے ساتھ بھی ہوا وہ اپنی محبوبہ کے لیے صراحی خریدنا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھتا۔
دراصل انسان کی فطرت ہی ایسی ہیں کہ وہ جس چیز کو پسند کرتا ہے اُسے ہر حال میں پانا چاہتا ہے اور ہر آن اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے۔ اسی طرح معظم بھی اپنی محبوبہ کے لیے صراحی خریدنے کا متمنی ہوتا ہے۔ وہ اپنی محبوبہ یعنی زرقا کو اس صراحی سے تشبیہہ دے رہا تھا اور سوچتا کہ کاش وہ بھی اس کے لیے صراحی خرید سکتا جس سے دیکھ کر زرقا خوش ہو جائے ۔
در اصل معظم ایک غریب یا یوں بھی کہے کہ معاشی لحاظ سے نہایت پسماندہ کردار کے روپ میں اس ناولٹ میں اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اس کے پاس اگرچہ دولت نہ تھی لیکن اس کے پاس اپنی خالہ زاد بہن سے محبت کرنے کا ایک خوبصورت دل تھا۔ وہ پیشے سے ایک کالج پروفیسر ہوتا ہے اور ہر آن اپنی محبوبہ زرقا کا دل جیتنے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن اس کی مجبوریاں ، اس کی غربت اُس کے آڑے آتی ہیں۔
بانو قدسیہ کو پسماندہ طبقے کی حالت بیان کرنے پر مہارت حاصل ہے۔زرقا جس سے اس پوری کہانی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ بھی ایک متوسط گھرانے کی لڑکی ہوتی ہے اور زرقا کے علاوہ اس ناول کے دیگر کرداروں میں لالو ، حبیب، انور وغیرہ شامل ہیں۔ زرقا جس کی مزید چار بہنیں تھیں اور معظم کے آنے کی خبر سن کر زرقا کی بہنیں اُسے چڑھانے میں مگن تھیں ۔
زرقا کا کردار اس ناول میں نہایت حساس ہے وہ مجو یعنی معظم سے اس لیے دل ہی دل میں محبت کرتی ہے کیوں کہ وہ اسے تمام مردوں میں مختلف نظر آتا ہے۔ اس ناول کے ذریعے مصنفہ نے روحانیت کے حوالے سے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بے نقاب کیا ہے
یا اگر یوں بھی کہے کہ مصنفہ نے روحانی پہلوؤں کے ذریعے انسانی رشتوں کی حقیقت پر سے پردہ اُٹھایا ہے تو غلط نہ ہوگا۔اسی اثنا میں اگر ہم معظم کے بھیجے ہوئے خطوط کی بات کریں تو انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُس میں ہوس بالکل بھی نہیں اور وہ زرقا سے جسمانی نزد یکی نہ چاہتا بلکہ
اسے اگر کسی چیز سے محبت تھی تو وہ زرقا کی روح تھی، گو معظم زرقا کے معیار پر پورا اتر نے والے مردوں میں شامل تھا۔ زرقا کو بھی شروع سے ہی ایک ایسے فرشتہ صفات انسان کی چاہ تھی جو اُس کی روح سے محبت کرتا اور یہ چیز معظم میں بدرجہ اتم موجود تھی۔گو معظم جسے زرقا مردوں میں منفر سمجھتی تھی لیکن آخر وہ بھی تو گوشت پوست کا انسان ہی تھا اور اس میں بھی غلطی کرنے کا مادہ ازل سے موجود تھا۔ ایک دن وہ زرقا کے کمرے میں اس کے نزدیک جانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے چومنا چاہتا ہے
لیکن زرقا اسے اپنے آپ سے الگ کر کے اسے اس گستاخی کے بدلے گھر چھوڑ کر جانے کو کہتی ہیں اور اس طرح معظم کو زرقا کے تیں سچی محبت کا ثبوت دینے کے لئے زرقا کے گھر کو خیر باد کہنا پڑتا ہے لیکن اس رات زرقا کے گھر میں لالو جو کہ ان کے یہاں پہلے کام کیا کرتا تھا، اپنی بہن کی شادی کے لیے پیسے جمع کرنے کی غرض سے تمام زیورات پر ہاتھ مارتا ہے یہ قسمت بھی کیا عجیب چیز ہے
کسی پر مہربان تو کسی پر خفا ہونے سے زرا بھی نہیں چونکتی اور یہی معظم کے ساتھ ہوتا، معظم جو کہ زرقا سے محبت کرتا تھا لیکن صرف ایک غلطی سے وہ اپنی محبت سے تو ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ساتھ ہی ساتھ اس پر چوری کا الزام بھی لگ جاتا ہے اور چوری کی خبر سن کر زرقا کا پیار پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس کی حالت کو مصنفہ نے ان الفاظ میں بیاں کیا ہے:
۔”مجو کیا صندوقوں میں سے چیزیں بھی غائب کر سکتا ہے۔۔۔۔ کیا مجو۔۔۔ کیا مجو ۔۔۔ لیکن اس کا دل دھڑک دھڑک کر کہہ رہا تھا مجو ایسا نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ مجوں نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔ مجھ دیوتا نہ ہو لیکن مجو انسان تو ہے۔۔۔۔۔۔ اور انسان اتنے رزیل نہیں ہوتے ۔”
ایک طرف معظم جہاں اپنی محبت کا فرض نبھا کر بنا کچھ کہے زرقا کی زندگی سے نکل جاتا ہے
بالکل اسی طرح زرقا بھی اپنی محبت نبھاتے ہوئے حبیب سے شادی کرنے کی یہ شرط رکھتی ہے کہ اگر اماں اسے چوری کی رپورٹ لکھوانے تھانے بھیجے گی لیکن وہ رپورٹ نہ لکھوائے۔
جہاں تک اس ناولٹ کے قصے کا تعلق ہے تو اس کا قصہ نہایت سادہ ہے اور اس ناولٹ کی کہانی بھی ہمارے معاشرے سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ دراصل انسان میں اللہ نے کچھ ایسے جذبات رکھتے ہیں کہ جنہیں وہ چاہ کر بھی بدل نہیں سکتا۔ اس ناول میں مصنفہ نے زرقا اور معظم کے قصے کے ساتھ ساتھ لالو اور اس کی بہن رکھی کے قصے کو بھی بڑے حسین پیرائے میں پیش کیا ہے۔
بھائی بہن کے تئیں بے لوث محبت اور بہن کی شادی کی فکر کو بھی اس ناول میں دکھایا گیا ہے اور یہ پیار پورے عروج پر اس وقت دکھایا گیا ہے جب لالو اپنی بہن کے لیے کراچی جاتا ہے اور اُسے پیسے لانے کا بھر پور یقین دلاتا ہے۔ اگر چہ وہ پھر غلط طریقے سے ہی اپنی بہن کی مراد پوری کرتا ہے یعنی اس کے لیے چوری کر کے پیسے لاتا ہے لیکن اس ناول میں بہن بھائی کا پیار جس طرح سے لالو اور رکھی کے ذریعے عیاں ہوتا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ کسی بھی فن پارے کی کامیابی کے راز اس کے اسلوب میں پنہاں ہوتے ہیں
اور اگر ہم اس ناولٹ کی بات کریں تو بانو قدسیہ کا حسین اسلوب اس ناولٹ میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے وہ انسانی جذبات کو زبان و بیان کے ذریعے پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں مثلا :
"زرقا نے آہستہ سے سر جھکا کر کہا۔ تو اور کیا جھوٹ ہے۔ سمندر کنارے جاؤ تو کچی مچھلیوں کی مہک کسی ریستوران میں جاؤ تو تلی ہوئی مچھلیوں کی پاس ہاں؟ ۔۔۔۔۔ تو اس کے یہ معنی ہوئے اس بار کلفٹن وغیرہ کا پروگرام کینسل ؟
۔۔۔۔۔۔ مجھ بولا سب چلیں کے تو چلی جاؤں گی میں بھی ۔۔۔۔۔۔ زرقا نے آہستہ سے کہا اور چاولوں کی تھالی لیے اندر سٹور کی طرف چلی گئی شیریں نے معنی خیر نظروں سے لیلیٰ کو دیکھا اور اپنی پہلے ہفا کی زبان میں بولی اب کسی آسانی سے مان گئیں اور بچارے حبیب بھائی مہینے سے منتیں کر رہے ہیں تو ملکہ صاحبہ آج مانتی تھیں نہ کل ۔۔۔۔۔۔۔”
اس ناولٹ میں مصنفہ نے ایسے کرداروں کا انتخاب کیا ہے جو ہماری روز مرہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس طرح اس ناولٹ میں مصنفہ نے لالو کے ذریعے ہمارے معاشرے میں پل رہی برائیوں کو اجاگر کیا ہے اسی طرح دوسرے کردار بھی اس ناولٹ میں اپنی چھاپ چھوڑنے میں ایک الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ماحول کی تصویر کشی بھی مصنفہ نے حسین انداز میں اس ناولٹ میں کی ہے مثلاً :
"دوسری منزل کے اس فلیٹ میں تین کمرے تھے ۔ جگہ چھوٹی تھی لیکن موزیک کے پکے فرش اور ڈمپر کی ہوئی دیواروں نے اس ننھے سے فلیٹ کو بڑی صاف ستھر کی عطا کر رکھی تھی۔ بلاک کی سیڑھیاں عین ان کے دروازے کے سامنے اوپر کی طرف مڑتی تھیں ۔ سیڑھیوں کا دروازہ کھلتا تو ڈرائنگ روم نظر آتا ۔ اس میں ایک جانب کھانے کی بڑی میز اور نازک نازک ٹانگوں والی چھ کرسیاں پڑی تھیں ۔ ایک طرف چمکتی پالش والا تین تختوں والا سائیڈ بورڈ تھا۔
جس پر برتنوں کی جگہ اماں جان کا پاندان ان کی سلائی کی ٹوکری اور گھریلو حساب کی کاپی دھری رہتی تھی ۔،” اور ساتھ ہی ساتھ مصنفہ نے اس ناولٹ میں مختصر ترین مکالمے بھی پیش کیے ہیں جن سے اس ناولٹ کا حسن دوبالا ہو گیا ہے مثال کے طور پر درجہ ذیل اقتباس ملاحظ فرمائیں :۔”بس اب سوجا لیلیٰ میں بہت تھک گئی ہوں کہوا ۔۔۔۔ گھبرا کر زرقا نے نگاہیں جھکالیں۔ ” آلا۔۔۔۔ برا تو نہ مانو گی؟” آہا ۔۔۔۔ تم مجھے اتنی پیاری لگتی ہو تو کیا مجو بھائی کا جی نہ چاہتا ہوگا کہ۔۔۔”
اسی طرح اگر اس ناولٹ کے پلاٹ کی بات کریں تو اس ناولٹ کا پلاٹ نہایت سادہ ہے۔ بانو قدسیہ انسانی نبض شناس تھیں اور انسان کی فطرت بیان کرنے میں اُسے مہارت حاصل ہے اس ناول میں مصنفہ نے انسان کی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ اس کی فطرت میں ہونے والی تبدیلیوں کو لیلیٰ کے کردار کے ذریعے پیش کیا ہے
کہ بھائی بہن بچپن میں ہزار بار لڑتے جھگڑتے اور پھر صلح کرتے ہیں لیکن جوں ہی انسان کی عمر بڑھنے لگتی ہیں تو اسے کسی کو منانا اور کسی سے صلح کرنا ناگزیر ہوتا ہے لیلیٰ بھی اپنی بڑی بہن زرقا کو منانا چاہتی تھی لیکن اس کے آڑے نہ جانے کیا چیز آرہی تھی۔ بانو قدسیہ کا یہ ناولٹ انسانی فطرت کا حسین امتزاج ہے اور یہ ناولٹ ان کے دیگر ناولوں کی طرح ان کا بیش بہا کارنامہ نہ صحیح لیکن اردو ناول نگاری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ضرور ہے ۔
اس ناولٹ میں مصنفہ نے کردار نگاری ، منظر نگاری وغیرہ جیسی خوبیوں کو بڑے حسین پیرائے میں بیان کیا ہے اور ساتھ ہی یہ ناولٹ بانو قدسیہ کے منفرد اسلوب کی گواہی دینے کے لیے پیش پیش ہے نیز یہ ناولٹ فنی و تکنیکی خوبیوں سے بھی مالا مال ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بانو قدسیہ کے اسلوب میں علامتی عناصر راجہ گدھ کے خصوصی حوالے سے مقالہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں