انتخاب ڈاکٹر شاہد رضوان، کتاب ہوا کا عکس
ابھی چپ ہیں تو چپ رہنے دے ورنہ
ہمیں شکوے بہت ہیں قافلے سے
شاہد رضوان🍁
بعض اوقات ذرا موسمی تبدیلی کی وجہ سے یا کچھ اور عناصر کے زیر اثر دیوار پر کائی سی جم جاتی ہے ۔۔۔۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ دیوار خود کو سر سبز درخت تصور کرنا ہی شروع کردے …
ع ہم بھی کریں گے نام، یہی زعم کھا گیا 🙄
~منہ چڑائے ہنر کا بے ہنری
چونٹیوں کے بھی پر نکل آئے
شاہد رضوان 🍀
مگر خیر چھوڑیے، ہمیں کیا۔۔۔
ع تجھے بدنام کرنا ہی نہیں منظور، ورنہ 😁
°°°°°°°°°°°°°°°°
آپ احباب انتخاب سے لطف اندوز ہوئیے 👀
الجھ رہا ہے ہوا سے چراغ، خیر نہیں
ذرا سی چیز، فلک پر دماغ، خیر نہیں
نہ کوئی مور، نہ کوئل، نہ فاختہ بولے
کلیل کرتے ہیں گلشن میں زاغ، خیر نہیں
یہ خیر خواہ چمن کے کہاں سے اترے ہیں
سپرد کر دیا زاغوں کے باغ، خیر نہیں
یہ بات میری سمجھ میں نہ آئے گی ساقی
تو مفت بانٹ رہا ہے ایاغ، خیر نہیں
۔۔۔۔۔۔
وقت کے بھیس میں فرعون کہیں گھات میں ہے
ہم بھی ہیں خوف زدہ، طفل ہمارے گم سم
اس جزیرے پہ آسیب کا سایہ شاہد°
کوئی چپکے سے مرا نام پکارے، گم سم
۔۔۔۔۔۔
اگر ہوائے مخالف سے لڑنا آتا ہو
دکھائی دیتا ہے پھر دور سے کنارہ بھی
نہ پوچھ اس سے بہارو بسنت کے معنی
میسر آئے نہ جس طفل کو غبارہ بھی
۔۔۔۔۔۔
اگر وکیل کی جج سے دعا سلام نہیں
پھر اور نام کوئی رکھ لے دوستی اپنا
خبر ادھر کی مسلسل ادھر پہنچ رہی ہے
ملا ہوا ہے کوئی اس سے آدمی اپنا
۔۔۔۔۔۔
کسی دعا، کسی منتر، نہ پھونک سے ٹوٹے
طلسم کفر مگر ٹوٹتا ہے زور کے ساتھ
ہم اہل حق ہیں، مریں گے مگر نہیں کریں گے
کسی بھی حال میں سمجھوتہ اہل جور کے ساتھ
۔۔۔۔۔
جو ظلم کے خلاف اٹھا کر نہ سر چلے
ایسے شباب ایسی جوانی پہ خاک ڈال
پے ہم سفر نیا تو نئے رنج بھی اٹھا
شاہد° ہر ایک یاد پرانی پہ خاک ڈال
۔۔۔۔۔۔۔
یقین خیر تمہیں تو دلا نہیں پایا
اگر زمانہ مرا معترف ہو تو پھر
محاذ کھول رکھا ہے مرے خلاف اس نے
اگر وہ آپ ہی اپنا حدف ہوا تو پھر
۔۔۔۔۔
جب تک نہ کٹ گرے گا رہے گا یہ سر بلند
اتنا ضرور جان گیا ہے مرا عدو
شاہد توقع ان سے عبث کار جہد کی
جن کی رگوں میں برف کی صورت جما لہو
۔۔۔۔۔
یوں تو چھٹتی ہی نہیں اہل محبت کی بھیڑ
دوات دو چار تو دشمن ہیں زیادے میرے
آنے والوں کے لیے میں نے نیا در کھولا
مٹنے والے نہیں تاعمر یہ جادے میرے
کیا بگاڑے گی مرا باد مخالف شاہد
عزم شیریں ہے تو فرہاد ارادے میرے
۔۔۔۔۔۔
یہ کس نے میرے صحن میں کیں سنگ باریاں
میں پھول چن رہا ہوں دل داغدار سے
جو شخص چومتا تھا ادب سے غلاف کو
وہ رات لے اڑا ہے کفن ہی مزار سے
۔۔۔۔۔
کتاب:- ہوا کا عکس
شاعر :- ڈاکٹر شاہد رضوان
انتخاب وپیشکش:- سانول رمضان
نوٹ :- یہ انتخاب ایک الگ زاویے سے کیا گیا ہے
جلد احباب کو دوسرا انتخاب بھی میسر ہو گا ۔۔۔
مزید یہ بھی پڑھیں: کوئی تو غور سے سنتا ہے داستاں اپنی، ہماری اور بھی کچھ کھڑکیاں کھلی ہوئی ہیں | سانول رمضان
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں