بنیادی خیال میں تصادم کی جھلک
اس کہانی میں محبت اور سلطنت کا تصادم پیش کیا گیا ہے۔ ڈرامہ کے مطالعہ کے بعد اس کہانی کا صرف ایک ہی (premise) ( بنیادی خیال ) ذہن میں آتا ہے..
"محبت پر بڑی سے بڑی طاقت بھی غالب نہیں آسکتی۔ یہ (premise) ( بنیادی خیال) بذاتخود بڑا جاذب نظر ہے۔ اس میں رومانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس میں جذبات کے طوفان برپا کرنے کے امکانات پوشیدہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک طرف محبت انتہائی شدید اور جذباتی قسم کی دوسری اکبر اعظم کی بے پناہ قوت اس کا ضدی مزاج اس کی ہیبت ناک سیاسی چالیں، دونوں میں مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، لہذا شدید تصادم ناگزیر تھا۔
بنیادی خیال کا مختصر ساجملہ پوری کہانی کی پیشگوئی کر دیتا ہے۔ اس ایک جملہ میں سب کچھ پوشیدہ ہے ۔ تصادم، کردار نگاری ۔ انجام“۔
یہ واضح ترین بنیادی خیال کی مثال پیش کرتا ہے۔ اس میں عالمگیر اپیل پائی جاتی ہے۔ بنیادی خیال کی کامیابی کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس پر اعتقاد ہو۔ حسن اتفاق سے مصنف کو اس کہانی سے اتنی وابستگی ہے کہ وہ اس میں اپنے خوابوں کی تعبیر چھوڑتا ہے۔ اسے کامیاب بنیادی خیال اور ایسی دلکش کہانی دنیا کے بہت کم ڈرامہ نویسوں کو نصیب ہوئے ہیں۔
تاریخ اردو ادب، ڈاکٹر سہیل بھٹی سے انتخاب
متعلقہ سوالات
کیا انار کلی اسٹیج ہوا؟
نہیں