افلاطون اور اس کے تنقیدی نظریات
نامور یونانی فلسفی افلاطون کا زمانہ حضرت عیسی سے لگ بھگ چار سو سال پہلے کا زمانہ ہے۔
افلاطون سقراط کا شاگرد اور ارسطو کا استاد تھا۔افلاطون نے ایک جگہ کہا ہے کہ شاعری کا زمانہ رخصت ہوا اب فلسفے کا زمانہ ہے اور فلسفہ ہی علم و صداقت کا سرچشمہ ہے۔
وہ پیدائشی شاعر تھا لیکن اس ںے اپنے استاد سقراط کے زیر اثر اپنی نظموں اور ڈراموں کو جلا دیا تھا اور اپنی ساری صلاحیتیں فلسفے پر مرکوز کر دی تھیں ۔
مکالمات افلاطون اس کی وہ عظیم تصنیف ہے جس کی کوکھ سے فلسفے کی باقاعدہ روایت جنم لیتی ہے، اور بقول ایمرسن یہ وہ کتاب ہے جس میں دنیا کی ہر کتاب کا مواد موجود ہے۔
انہوں نے اپنی کتاب مکالمات افلاطون میں ایک مثالی ریاست جمہوریہ کا تصور پیش کیا ہےاور اس ریاست سے شاعر کو نکال دیا ہے۔
ان کے مطابق سیاست و اخلاق کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے لکھا ہے کہ مثالی جمہوریہ کے حاکموں کی تعلیم کے لیے شاعری کی تعلیم مضر ہے۔
انہو نے شاعری کو مخرب اخلاق قرار دیا ہے۔
وہ ڈرامے سے اس لیے بیزار ہے کہ ڈرامے کے زیادہ تر کردار بزدل، بد معاش اور محرم ہوتے ہیں ۔
ڈراما نگار لکھتے وقت اپنے آپ کو ان کرداروں میں جذب کر دیتا ہے اور جب ڈراما پیش کیا جاتا ہے تو دیکھنے والوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔
انہوں نے المیہ کے نسوانی کرداروں کی خاص طور پر نذمت کرتا ہے۔افلاطون اس شاعری کا حامی نہیں جس سے صرف مسرت حاصل ہو ۔
اس کے نزدیک شاعری کا اصل مقصد زندگی کو بہتر بنانا اور اخلاقی تعلیم دینا ہے۔
انہوں نے شاعری اور مصوری کو فلسفے سے نچلی سطح پر رکھتا ہے۔ افلاطون شاعری کو نقل کی نقل قرار دیتا ہے اور اسے عیب سمجھتا ہے۔
انہوں نے شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے
(1) بیانیہ شاعری
(2) ڈرامائی شاعری
(3) رزمیہ شاعری۔
افلاطون فن کو ایک جاندار شے تسلیم کرتا ہے جس طرح جسم ، سر اور پیر رکھتا ہے اس طرح ایک فن پارے میں آغاز ، وسط اور انتہا ہوتے ہیں جو آپس میں گہرا ربط رکھتے ہیں۔
انہوں نے ایک مثالی ریاست کا تصور پیش کیا تھا اور اس سے شاعروں کو نکال دیا تھا۔
مزید یہ بھی پڑھیں: مہدی افادی کے مضمون "سقراط” کا خلاصہ اور اہم نکات
معاون وسائل: ضیائے اردو