موضوعات کی فہرست
افسانہ شرم الحرم کا خلاصہ
انتظار حسین کا یہ افسانہ "شرم الحرم” ان کے افسانوں کے مجموعہ شہر افسوس میں شامل ہے جو 1972ء میں شائع ہوا۔ اس کا مرکزی خیال عالم اسلام کی گرتی اور قبلہ اول کے تقدس کی بحالی کے احساس کو مسلمانوں میں پیدا کرنا ہے۔
یہ فسانہ مصطفے فائق اور امین کی باہمی بحث و تمحیص سے شروع ہوتا ہے جو وہ بیت المقدس کی صورت حال کے پس منظر میں کر رہے ہیں ۔ اس اثنا میں انہیں یہودیوں کے یروشلم پر حملے کی خبر ملی ہے اور اس ضمن گرما گرم اور متضاد خبریں پہنچ رہی ہیں۔ جنگ میں متضاد خبر یں کوئی انوکھی چیز نہیں ہیں مگر دونوں میں اسی حوالے سے تکرار شروع ہو جاتی ہے۔
امین غیر عرب ہے اور مصطفے فائق عرب ہے۔ مصطفے فائق امین کو غیر عرب ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یروشلم کی رسوائی کے زمہ دار عرب ہے مگر امین اس کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے کہ رسوائی پورے عالم اسلام کی ہوئی ہے۔
اسی اثنا میں سفید ریش عرابی خونی وردی والا سپاہی اور سرخ پٹکے والے آدمی افسانے میں شامل ہو جاتے ہیں اور افسانہ ایک نیا موڑ لیتا ہے۔
یہ لوگ ایک دوسرے سے ایک دوسرے کے زندہ ہونے کی گواہی طلب کرتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے زندہ ہونے پر شک ہے ۔ افسانے میں ان پانچوں کرداروں میں باہمی تعلق نظر آتا ہے مگر اس کے باوجود پھر بھی وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔
اس دوران خبروں کا ایک پلندہ آتا ہے اور امین بتاتا ہے کہ لوگ موشے دایان کو موشے دجال کہتے ہیں۔ اس مسئلہ پر چاروں میں بحث ہو رہی ہے کہ ایک اونی سوار آتا ہے اور اس کے بعد دوسرا۔ ایک شرم الشرف کا نعرہ لگاتا ہے تو دوسرا شرم العرب” کا نعرہ لگاتا ہے۔
پہلا صحرائی ایک روایت بیان کرتا ہے جس کے مطابق ایک شخص قبلہ اول سے اٹھے گا اور یروشلم کے دروازوں پر ظاہر ہو گا ۔ اس کی ایک آنکھ خراب ہو گی اور اس کے ہاتھ میں سفید کپڑا ہو گا اور بیت۔ المقدس اس کے ہاتھوں بےتوقیر ہو گا ۔ وہ اونچے گدھے پر سوار ہو گا اور حرم کے دروازوں تک پہنچے گا۔
اس صحرائی کی زبانی یہ روایت بن کر حاضرین شرم الحرم کا نعرہ لگاتے ہیں۔ وہ صحرائی مزید بتایا ہے کہ شام سے ایک مرد دلیر اٹھے گا اور کرہ ارض کے کونے کونے تک اس کا تعلقب کرے گا۔
نتیجتاً سبھی لوگ اس مرد د لیر کو پکارنے لگ جاتے ہیں اور عرب کے اس بہادر بیٹے کی تلاش میں محو ہو جاتے ہیں ۔ ایسے میں خونی وردی والا سپاہی آگے بڑھتا ہے اور مخاطب کرتا ہے:
"اے لوگو ! عرب کے بہادر بیٹے میدانوں میں ہوتے ہیں جو مارے گئے اچھے رہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو زندہ رہے اور۔۔۔۔(مزید افسانے میں یہ اقتباس پڑھیں)….میں ڈھے گیا میں نتھیا (تک).”
افسانہ شرم الحرم کا تنقیدی جائزہ
انتظار حسین کے فن کا رشتہ اردو داستان کی روایت سے جڑا ہوا ہے ۔ داستانی ادب کی تمام داستانوں کے اسالیب ان کے اس افسانے میں وحدانی صورت میں ملتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اعتقادات اور توہمات کا بھی بھر پور عکس نظر آتا ہے۔ زبان اور انداز بیان سے بھی قدیم داستانوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔
اس افسانے کی فضا اگر چہ مشرقی اور اسلام ہے مگر تکنیک علامت نگاری کا رجحان اس مغربی اثر کے پیش نظر ہی ہے۔ اس افسانے کا پیرایہ بیان بے حد موثر ہے۔
مضمون میں گہرائی اور خیالات میں گیرائی ہیں۔ انتظار حسین نے خوبصورتی اور مہارت سے عربوں کی غیرت اور حمیت کو جوڑنے کے لیے تمام فنی حربوں سے کام لیا ہے اور اس میں فنی پختگی پائی جاتی ہے ۔
شرم الحرم اپنے پلاٹ کردار نگاری اور زبان و بیان کے حوالے سے بھی انتظار حسین کے افسانوں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ واقعات میں منطقی ربط اور انجام کی طرف چلاؤ افسانہ نگار کی اپنے فن پر عبور کی دلیل ہے۔
کرداروں کی تعمیر میں فنی ذہانت کا ثبوت دیا گیا ہے۔ کہانی اور واقعات میں وحدت زمان و مکان موجود ہے اور وحدت تاثر کا بھر پور احساس ملتا ہے۔ واقعات کے ابھار میں مصنف کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔
زبان کے استعمال میں انتظار حسین کو کمال حاصل ہے۔ وہ معنویت سے بھر پور زبان استعمال کرتے ہیں اس کے لیے وہ علاقائی زبانوں کے الفاظ کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر چہ بعض جگہوں پر ابہام پایا جاتا ہے مگر یہ بات مصنف قاری کی ذہانت پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اپنی عقل اور فہم کے مطابق نتائج اخذ کرے
ایک نقاد کے مطابق :یہ افسانہ پلاٹ نگاری اور زبان و بیان کے لحاظ سے اردو کے افسانوی ادب میں ایک منفرد اور بہترین افسانہ ہے ۔
انتظار حسین کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس افسانے کا پاٹ (خاکہ ) بڑا مضبوط تیار کیا ہے اور اس کے مختلف واقعات و کردار آپس میں بڑے مربوط دکھائی دیتے ہیں۔ پلاٹ کی مضبوطی کی وجہ سے وہ خوبی پیدا ہو گئی ہے جسے وحدت تاثر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور افسانہ نگار نے ایک سوچے سمجھے تاثر کو ابھارنے کے لیے ایسے واقعات تخلیق کیے ہیں کہ ان کے تاثر سے قاری بیچ ہی نہیں سکتا اور اہم خوبی اس افسانے میں یہ ہے کہ اول سے آخر تک اس افسانے میں دلچسپی برقرار رہتی ہے اور پڑھنے والے کو اس میں ذرہ بھر بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
مختصر یہ کہ "شرم الحرم” انتظار حسین کے ان افسانوں میں سے ہے کہ جسے ہم طرز تحریر اور انداز فکر کا نمائندہ افسانہ کہہ سکتے ہیں۔
بقول ابن فریدوں:ان ( انتظار حسین) کے اس افسانے کا عنوان ہی ہلا کر رکھ دینے والا ہے جو کہ مسلمانان عالم کو شرم اور غیرت دلا رہا ہے۔ بظاہر یہ افسانہ ایک عام خیالی کہانی سی معلوم ہوتی ہے اور اس کی باتیں خیال اور کردار سب فرضی معلوم ہوتے ہیں مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔
انہوں نے داستان کے اسلوب میں بڑے موثر اور دکھی انداز میں پیش کیا۔ پڑھنے والوں کو یہ افسانہ بظاہر بے معنی سا لگتا ہے۔ مگر اس میں بڑی گہرائی اور معنویت پائی جاتی ہے جو کہ انتظار حسین کے طرز تحریر اور انداز فکر کامنہ بولتا ثبوت ہے۔
اگر چہ ان کے اس افسانے میں مافوق الفطرت کردار یعنی دیو پریوں یا شہزادوں کی باتیں نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس میں انہوں نے جو اسلوب اختیار کیا ہے اس پر ہماری قدیم داستانوں کا ہی عکس نمایاں دکھائی دیتا ہے اور پھر افسانے کی زبان اور بیان بھی داستانوں کی زبان اور بیان سے ملتا جلتا ہے۔
انتظار حسین ایک نظر میں(سوانحی حالات، ملازمت، ازدواجی زندگی اور ادبی خدمات)
متعلقہ سوالات اور جوابات
افسانہ شرم الحرم کب شائع ہوا؟
1972ء