افسانہ ایک بیٹا از محمد سہیل

افسانہ ایک بیٹا

صبح کے عین اس وقت جب پرندے درختوں پر چہچارہے تھے اسی اسنا میں پپو اپنی نوکری کا انٹرویو دینے جارہا تھا

اتنے میں وہ جس کمرے میں تیاری کرکے انٹرویو دینے جارہا تھا اسی کمرے کے روشن دان سے گوجیتی ہوئی آواز معلوم ہوئی جو ایک نومولود بچی کی آواز تھی

اس اسنہ میں دہیہ نےپپو کو ساتویں بیٹی کی ولادت کی خبر دی اور وہ یہ کہہ کرچلی گئی جیسے باہر سے کوئی لینے آیا ہواتھا

پپو کے منھ سے کسی بھی قسم الفاظ نہ نکلےاس کی یہ خبر سن کرقیامت سا منظر طاری ہوگیا
پپو جو اپنی نوکری کا انٹرویو دینے جارہاتھا اس نے سوچا جب بیٹا ہی پیدا نہیں ہوا نوکری کے انٹرویو فائدہ؟

اس کی بیوی جو نومولود بیٹی کووالہانہ پیار کر رہی تھی جیسے اس کی زندگی میں کائنات کی ساری خوشیاں سنما گئیں ہوں

پپو جو ساتویں بیٹی کی ولادت کی وجہ سے پپو اپنی بیوی کے پاس بھی نہ گیا بھلا اس کی بیوی کاکیا قصور تھا لڑکا نہیں ہوا

اتنے میں گاؤں کے چودھری کے فوت ہونے کااعلان ہوا وہ چودھری کے جنازہ کے لیے گھر سے نکلا شام کو جب گھرآیا تو اس کا چہرہ بہت افسردہ تھا اس کی وجہ بیٹا کا پیدا نہ ہونا دوسری وجہ چودھری کے فوت ہونا کیوں کہ پپو کا گزروبسر مشکل سے ہوتا تو چودھری ہی تھا جو اس کی کفالت کرتا


ساتویں بیٹی کی ولادت سے روزانہ لڑائیاں کا مامور تھیں لیکن پپو کی بیوی نیک سیرت کی وجہ سے لڑائی نہ ہوتی وقت گزرتا رہا پپو نے اللہ کی رہ میں منتیں،مردیں مانگی آخر کار چند سالوں بعد اس کی دعائیں مستجاب ہوئیں اس کے ہاں لڑکا اس وقت ہوا جب وہ کام کے سلسلے میں گھر سے باہر گیاہو تھا


جیسے ہی شام کو گھر آیا گھر کے باہر ہجوم دیکھ کر حیرت ہوئی لیکن جیسے ہی بیٹے کی ولادت کی خبر سنائی گئی تو اب اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ارو دوسرے دن دعوت عام کردی جو شام تک چلتی رہی پپو جو اپنی بیوی سے نہ امید تھا

اب اس کا رویہ تبدیل ہو گیا انھوں نے اپنے بیٹے کا نام ‘جلالؤ’ رکھا ‘جلالؤ’ کو دیکھتےہی دیکھتے جوانی کا زمانے آ گیا جب جوان ہو تو اس کے کارناموں کی شروعات ہوگئ کبھی چوری کی شکاتیں’کبھی لڑائیوں کی ایک دن نجان گیا ہو اس نے اپنے گاؤں کی بیوہ عورت کی اکیلی لڑکی کو بھاگا گیا جب پپو کو اس بات کا علم ہو تو وہ اداس رہنے لگا ۔اسی اداسی کی وجہ سے پپو کو دل کے دورہ ہو ارو مر گیا


پپو کے فوت ہونے کی اطلاع ‘خیالی’ نے دی۔ جو اس کے بچپن کا دوست تھا اس نے جب خبر دی جلالؤ نے آگے سے یہ کہ کر فون بند کر دیا "میں بیرون ملک جارہا ہوں” ادھر سے ‘خیالی’ کے ہاتھ سے فون گر گیا جب جنازہ نکلا تواس کے لخت جگر بیٹے کے سو پراۓ سب موجود تھے

انہیں لوگوں میں سے چند لوگوں نے کہا اپنے باپ کا اکیلے بیٹا نے جنازہ کو کندھا نہ دیا یہ خبر جب ماں تک گئی تو وہ بسترمرگ پر جا ہوئی پپو کو رحلت ہوئے عرصہ بیت گیا اس کے بیٹے کی کہیں خبر معلوم نہ ہوئی کبھی کبھی جلالؤ کی ماں ایسے معلوم ہوتا جیسے پپو کی قبر آواز آرہی ہو ایک بیٹے سے بہتر ہوتا ساری بیٹیاں ہی ہوتیں۔

محمد سہیل بی۔ایس اردو گورنمنٹ گریجویٹ کالج دنیا پور

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں