افسانہ ازیت از تہنیت نزیر

افسانہ ازیت


اج پھر اس نے اپنے جسم میں گھاؤ لگا دیے تھے وہ خون کے گھونٹ پی کر اپنے وجود کی کرچیاں سمیٹنے لگی خدا جانے اسے خود کو نوچ کر کیا لذت ملتی تھی دل کو کیا سرور ملتا تھا وہ کس لیے اتنی اذیت پسند تھی کہ ہر بار وہ خود اپنی اہانت کا سبب بنتی تھی اتنے میں ایک نرس اندر ائی اس کو اپنا جسم نوچتے ہوئے دیکھا تو اس نے وھی کیا۔

جو ایسے وقت میں وہ کرتی تھی فورا اس کو انجیکشن لگانے لگی نہیں ،،،،نہیں،،،نھیں،،، وہ جتنا بھی چینخ سکتی تھی چینخ رہی تھی مگر بے سود اس کی مدد کو کوئی نہیں ائے گا خود اس کے اپنے ماں باپ بھی نہیں ائے تھے وہ اس حادثے سے کیسے زندہ رہتے ماں باپ بھلا کیسے اتے غربت کی موت تو وہ پہلے ہی مر رہے تھے۔

موت کو موت بھلا اب کیسے ا سکتی تھی جب کبھی انجیکشن کا اثر زائل ہوتا تو کمرے سے چینخ و پکار کی ایسی اوازیں اتیں کہ ہسپتال کے عملے کے علاوہ وہاں ائے لوگ بھی ششدر رہ جاتے جس کمرے میں اس کا علاج چل رہا تھا وہاں کوئی بھی چیز ایسی نہ تھی جس سے وہ خود کو نقصان دے سکتی بیڈ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

ابھی دو دن پہلے جب اس نے اپنے سر کو دیوار کے ساتھ مارنے کی سعی کی تھی تو اس کو بیڈ سے باندھ دیا گیا تھا وہ زیادہ بے ہوش ہی رہتی تھی یہ ٹیکوں کا اثر ہوتا تھا مقررہ اوقات میں ایک نرس اس کو ناشتے میں چائے اور رس بھی کھلا جاتی نیم بے ہوشی میں بھی اس کی انکھیں تھوڑی تھوڑی کھلی ہوئی ہوتیں البتہ انکھوں میں بیزاری اور نفرت کے موٹے موٹے انسو پھسل رہے ہوتے زخموں سے پھٹے ہوئے ہونٹ کپکپا رہے ہوتے اب اس کے چہرے پر زردی مائل رنگ تھا اسے مر جانا چاہیے تھا۔

یہ ہی تو وہ چاہتی تھی ورنہ یہ زندگی اس کی موت سے برتر نہ تھی موت کے گھاٹ تو اسے بہت پہلے اتار دیا گیا تھا اس کے باپ کرمو نے اس رات خود کو پھانسی دے دی تھی اس کی یہ حالت پہلے تو ایسی نہ تھی وہ بہت ہی غریب گھرانے کی خوبصورت دوشیزہ تھی حسین اس قدر کے لگتا جیسے خدا نے بڑی دل لگی سے اس کو تراشا ہو حسن کا مرقعہ تھی مگر اس کی بد نصیبی غربت تھی قدرت نے اس کو غریب گھرانے میں پیدا کر کے اس کے حسن کی توہین کی تھی وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔

دوسرے بھی خوب تھے مگر وہ کوئی دیوی تھی اس کا توانائی سے بھرپور جسم، ہرن جیسی انکھیں، اور شرمیلا پن کسی بھی مرد کی ایمانداری کو گھائل کر سکتا تھا اس کی دراز قامت کو دیکھ کر انکھیں چکرا جاتیں ،جبڑے خشک ہو جاتے، مگر اس میں اس کا کیا قصور تھا اس نے اپنی عزت کو سنبھال رکھا تھا۔

ایک تو اس کی مٹی میں بغاوت نہ تھی اور دوسرا اس کی رگوں میں حلال تھا اگرچہ ماں نے لوگوں کے کام کر کے اپنے بچوں کی پرورش کی تھی 12 سال پہلے جب وہ اٹھ برس کی تھی اس کے باپ کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا تب سے اس کا باپ کسی طرح زندہ تو رہا مگر اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں۔

اب وہ چارپائی پر معزور بن کر رہ گیا تھا گھر میں غربت کا راج تھا مگر پھر بھی ماں باپ بڑی محبتوں سے اپنی اولاد کو جوان کر رہے تھے ایک محبت ہی تو ہوتی ہے جو غریبوں کے پاس خالص ہوتی ہے زندگی اپنے ڈگر پر چلتی رہی چھوٹے بہن بھائی سکول جانے لگے اس نے محلے کے کپڑے سلائی کرنا شروع کر دیے۔

اس کی ماں چوھدری صاحب کے گھر ملازمہ تھی تو رات کو اتے وقت بچہ کچا کھانا ان سب کے لیے لے اتی جس کو سب بڑے انتظیار سے پیٹ بھر کر کھاتے تھے ایک دن اس کی ماں چوھدری کے گھر کام کر رہی تھی کہ دھڑم سے گر پڑی فورا لے جا کر چیک کروایا تو دماغ کا کینسر نکلا اب اس موڑ نے اس کی ماں کی جگہ اس کو چوھدری کے گھر ملازمہ رکھوا دیا ماں جسم کی باری تھی اور اتنا کام اس سے اب نہ ہوتا تھا اگرچہ ماں کا ضمیر گوارا نہ کر رہا تھا مگر حالات سے سمجھوتہ کرنا ہی دانشمندی ہوتی ہے۔

وہ صبح 10 بجے چلی جاتی اور مغرب کے وقت واپس ا جاتی بڑی سلیقہ مندی سے وہ اپنے کام ختم کرتی اور ماں کی طرح کھانا بھی لے اتی حویلی میں چوہدری اس کی بیگم اور دو بیٹے تھے چوہدری خود سارا دن محفل میں بیٹھا رہتا اور دونوں بیٹے پڑھ رہے تھے حویلی میں اس کو ملازمہ کے طور پر بھی قابل عزت نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اسے حویلی میں کام کرتے کافی مہینے بیت چکے تھے سردیوں کے شروعاتی دن تھے۔


زندگی تلخ و شیریں احساسات کا مرکب ضرور تھی مگر سکون یافتہ تھی ایک دن چوہدری کے چھوٹے بیٹے اختر کے شہر سے کچھ دوست ائے ہوئے تھے ان کی اؤ بھگت میں اس کا سارا دن مصروف رہا شام ہونے کو ائی تھی مگر وہ ابھی تک گھر واپس نہ گئی تھی رات کے نو بج چکے تھے۔

اس وقت گلیوں میں کتوں کے بھونکنے کی اوازیں اتی تھیں شام سے پہلے ہی ایک ملازمہ کے ہاتھ اس کے گھر کھانا اور دیری کی وجہ بھی بتا دی گئی تھی اختر اپنے دوستوں کے ساتھ باہر نکلا ہوا تھا اس نے بڑی بیگم سے اجازت لے کر چادر کو اپنے اوپر اوڑھ لیا اور گھر کی راہ لی راستے میں کچھ لڑکے اس کی طرف ا رہے تھے پہلے پہل تو وہ نہ سمجھ سکی مگر شرابی حالت میں ان کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔

اس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر گلیوں میں اندھیرا تھا اور اگے کتوں کے بھونکنے کی اوازیں برابر سنائی دے رہی تھیں سب بھوکے کتوں کی طرح اس پر چمٹ پڑے اور پھر وہی ہوا جو اکثر ہوا کرتا ہے ان میں سے ایک اختر تھا اس ایک رات میں اس کی کئی راتیں ا کر فنا ہو چکی تھیں اس رات کی اذیت نے اس کی زندگی کے ماضی حال اور مستقبل کا احاطہ کر لیا تھا۔

اگلا: کھڑکی بھر چاند مصنف احمد سلیم سلیمی تحریر فرقان احمد

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں