اردو میں تنوین کی تعریف و تفہیم | Urdu mein Tanween ki Tareef wa Tafheem
تحریر: ڈاکٹر محمد آفتاب احمد
موضوعات کی فہرست
کچھ اس تحریر کے بارے میں:
- عربی میں دو زیر (ــًــ)، دو زیر (ــٍــ) اور دو پیش (ــٌــ) کی علامتوں کو تنوین کہتے ہیں۔۔۔۔
- اردو میں تنوین صرف انہی الفاظ سے وابستہ ہے جو عربی سے آئے ہیں۔۔۔
- فارسی اور اردو ہندی الفاظ پر تنوین نہیں لگائی جاتی۔۔۔۔
- ” اندازہ” فارسی ہے اس لیے "اندازا“ لکھنا درست نہیں۔۔۔
- جن لفظوں کے آخر میں مکمل ت ہو تو اس کے آخر میں ” تا اضافہ کر کے توین کی علامت لگائی جاتی ہے۔۔۔
اردو میں تنوین کی تعریف و تفہیم
عربی میں دو زیر (ــًــ)، دو زیر (ــٍــ) اور دو پیش (ــٌــ) کی علامتوں اور ان کی آوازوں یعنی ان ، ان اور ان کو تنوین کہتے ہیں۔
اردو میں تنوین صرف انہی الفاظ سے وابستہ ہے جو عربی سے آئے ہیں اور اردو میں مستعمل ہیں۔
عربی میں قاعدہ ہے کہ آخری حرف پر دو زبر زیر پا یش لگا کر آواز ادا کی جاتی ہے
لیکن اردو میں دو زبر کے استعمال میں مختلف طریقہ اپنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اردو حروف تہجی اور اس کی مختلف شکلیں
لفظ کے آخر میں الف بڑھا کر دو زبر لگاتے ہیں جیسے فوراً تقریباً ۔ ۔ فطرتاً۔ وقتاً فوقتاً ۔ اتفاقاً وغیرہ
جن الفاظ کے آخر میں "ہ” ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ” ہ ” پر تنوین کا اضافہ کیا جائے یعنی نتیجہ سے نیجتہ بنایا جائے۔ لیکن اس قاعدے پر اتفاق نہیں ، درست یہی ہے کہ ایسے الفاظ کی آخری ہ ہٹا کر "الف” کا اضافہ کیا جائے اور الف پر تنوین لگائی جائے۔
اس ضمن میں ڈاکٹر سید عبد اللہ اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری بھی متفق ہیں۔ (1-2)
لہذا ایسے الفاظ میں تنوین کا طریقہ اس طرح ہے۔
آخری حرف اگر ہ ہو جو عربی میں "ت” ہے تو اسے حذف کر کے "تا” کا اضافہ کرتے ہیں اور اس پر تنوین لگاتے ہیں جیسے
اشارہ سے اشارتاً
واقعہ سے واقعتاً
دفعہ سے دفعتاً
اسی طرح جن لفظوں کے آخر میں مکمل ت ہو تو اس کے آخر میں ” تا اضافہ کر کے توین کی علامت لگائی جاتی ہے۔ جیسے۔
یہ بھی پڑھیں: اردو اعراب کی تعریف و تفہیم
فطرت سے فطرتاً
حقیقت سے حقیقتاً و غیرہ
فارسی اور اردو ہندی الفاظ پر تنوین نہیں لگائی جاتی۔
اردو نام جو "ن ” پر ختم ہوتے ہیں ان پر تکوین نہیں لاتی۔
مثلا میمن ، کریمن، سلیمن، جهن وغیرہ نام "ن” سے لکھے جائیں گے انہیں رحیماً ۔ کریماً وغیر ہ لکھنا درست نہیں۔
اغلبا درست نہیں اس کی جگہ ” "غالباََ” تحریر کرنا چاہیے۔
” اندازہ” فارسی ہے اس لیے "اندازا“ لکھنا درست نہیں اس کی جگہ ” تقریباً ” لکھنا چاہیے۔
اردو میں دو پیش کا استعمال نہیں ہوتا ۔